عالمی یومِ خواتین پر قابلِ غور باتیں

شمشاد حسین فلاحی

۸؍مارچ کو پوری دنیا عالمی یومِ خواتین کے طور پر مناتی ہے۔ اس دن دنیا بھر میں حکومتی اور عوامی سطح پر مختلف قسم کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ حکومتوں کی جانب سے خواتین کی ترقی اور بہبود کے لیے مختلف اسکیموں اور پروگراموں کا اعلان ہوتا ہے اور پوری دنیا میں یہ پیغام گردش کرتا ہے کہ دنیا کے عوام اور حکومتیں خواتین کی بہتری کے لیے جدوجہد کریں۔ اس موقع پر خواتین سے متعلق طرح طرح کے اعداد و شمار بھی جاری اور شائع ہوتے ہیں تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ خواتین کی صورتحال کیا ہے۔ ان اعداد و شمار میں سب سے عام اور اہم اعداد و شمار وہ ہوتے ہیں جو خواتین کے خلا ف جرائم اور گھر کے اندر اور گھر کے باہر ان پر تشدد اور ظلم و زیادتی سے متعلق ہوتے ہیں۔
عالمی یومِ خواتین اور اس دن ہونے والی باتیں دراصل ڈرائنگ روم میں بننے والے پروگراموں کا حصہ اور شہری دنیا کی باتیں ہوتی ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی بڑی آبادی جو دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور بنیادی سہولیات تک سے محروم ہے وہ اس دن اور اس کی ’’فضیلت و اہمیت‘‘ سے ناواقف ہی رہتی ہے اور ۸؍مارچ بھی ان کے لیے اسی طرح کا ایک دن ہوتا ہے جس طرح سال کے باقی ۳۶۴ دن۔ رہی بات ان لوگوں کی جو مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہیں تو ان کے لیے نہ ۸؍مارچ کی کوئی اہمیت ہے اور نہ سال کے باقی دنوں کی۔ان کی خواتین کے خلاف مجرمانہ سوچ سال کے کسی بھی دن رنگ دکھاسکتی ہے اور دکھاتی رہتی ہے۔
گزرے ہوئے ۸؍مارچ کے دن نے ہندوستان کے لیے عام طور پر اور ملک کی راجدھانی دہلی کے لیے خاص طور پر اہمیت اختیار کرلی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عین اس وقت جب ساری دنیا عالمی یوم خواتین پر مختلف پروگراموں میں مصروف تھی، دہلی کے دھولا کنواں کے قریب بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں ایک شخص نے دہلی یونیورسٹی میں بی اے سال دوم کی طالبہ رادھیکا کو گولی مار کر ہلاک کردیا اور اپنی موٹر بائک پر سوار ہوکر محفوظ طریقے سے نکل بھاگا۔ اس واقعہ کا شرمناکہ پہلو یہ ہے کہ اس موقع پر موجود بھیڑ میں سے کوئی ایک شخص بھی اس کو پکڑنے کی ہمت نہ کرسکا اور نہ ہی کسی نے اتنی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا کہ وہ متاثرہ لڑکی کو طبی امداد کے لیے کسی اسپتال لے جاتا۔ کچھ دیر کے بعد پولیس ہی اسے اٹھا کر اسپتال لے گئی، جہاں اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ دہلی کے ایک معروف وکیل کی ۸۰؍سالہ ماں کے ساتھ پیش آیا، جسے ڈاکوؤں نے قتل کردیا اور گھر کو لوٹ لیا۔ ان دونوں واقعات نے ایک طرف تو انسانیت کا سرشرم سے جھکا دیا دوسری طرف عالمی یومِ خواتین منانے کے بے فیض ہونے اور حکومت وانتظامیہ کی بے بسی کی پول کھول دی۔
پچھلے کئی سالوں سے میڈیا میں مسلسل اس طرح کی باتیں آتی رہی ہیںکہ دہلی ملک کی راجدھانی ہونے کے ساتھ ساتھ جرائم، خصوصاً خواتین کے خلاف جرائم، کی بھی راجدھانی ہوگئی ہے اور یہاں خواتین غیر محفوظ ہیں۔ میڈیا کی ان باتوں کو حکومت اور انتظامیہ اب تک رد کرتی رہی تھی۔ مگراس سال ۸؍مارچ کے واقعات نے نہ صرف اہلِ راجدھانی کو ہلاکر رکھ دیا بلکہ وزیراعلیٰ محترمہ شیلا دکشت بھی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئیں اور انھوںنے پولیس کے اعلیٰ حکام کی موجودگی میں اپنا خیال ظاہر کیا کہ ’’یہ شرم کی بات ہے کہ ملک کی راجدھانی دہلی میں خواتین خود کو محفوظ محسوس نہیں کررہی ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انھوں اس بات سے بھی پلّہ جھاڑ لیا کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری پویس اور انتظامیہ کی ہے۔ انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ ’’دہلی میں خواتین خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی ہیں۔ لیکن یہ سوچنا ٹھیک نہیں ہے کہ پولیس آئے گی اور تحفظ دے گی۔ کسی عورت کا تحفظ خاندان، سماج اور قوم سے شروع ہوتا ہے۔‘‘
محترمہ وزیرِ اعلیٰ کا یہ کہنا اگرچہ حکومتی سطح پر بہت زیادہ درست نہیں ہے کیونکہ انتظامیہ اور پولیس بہرحال شہریوں کے تحفظ کی ذمہ دار ہے مگر دوسری طرف انھوں نے ایک بڑی حقیقت کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے کہ عورت کا تحفظ گھر، خاندان اور پورا سماج کرتا ہے اور اسے کرنا چاہیے۔ اور اگر عورت کو گھر، خاندان اور سماج میں تحفظ حاصل نہ ہوسکے تو وہ کہیں بھی اور کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتی۔ ہمارے خیال میں محترمہ دکشت کا یہ بیان اپنے اندر بڑی گہرائی رکھتا ہے اور چند حقائق کو رد اور چند کو تسلیم کرتا ہے۔ اگر عورت کو گھر اور خاندان میں تحفظ ملنے کی بات کو تسلیم کرلیا جائے تو عورت کو گھر سے نکلنے اور غیر محفوظ سڑکوں، کمپنیوں اور دفتروں میں جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے اور وہ باعزت طریقے سے اپنی فطری اور سماجی و خاندانی ذمہ داریاں انجام دیتی رہے۔ اگر سماج میں یہ سوچ رائج ہوجائے تو عورت یقینا ہر طرح سے محفوظ ہوجائے گی۔ مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے سماج کی حالت اس قدر خراب ہے کہ عورت نہ تو گھر سے باہر محفوظ ہے اور نہ ہی گھر کے اندر۔
آپ گزشتہ سال ۲۰۱۰ء کے وہ اعداد وشمار دیکھیں جو دہلی پولیس نے جاری کیے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال دہلی میں زنا بالجبر، چھیڑ چھاڑ اور جھپٹ ماری کے کل ۲۱۵۹ واقعات درج کیے گئے، ان میں ۴۸۰ زنا بالجبر، ۱۰۸۵ اجھپٹ ماری اور ۵۸۵ چھیڑ چھاڑ کے تھے۔ چھیڑ چھاڑ کے ان واقعات میں کئی واقعات ایسے بھی تھے جن میں مدافعت کرنے کی صورت میں مدافعت کرنے والے کو چھرا گھونپ کر قتل کردیا گیا یا مارپیٹ کر زخمی کردیا گیا یا خود لڑکی ہی کو بلیڈ مار کر زخمی کردیا گیا۔ ایسی صورت میں لوگوں کو اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے جرم اور ظلم ہوتا دیکھتے رہیں اور اپنے تحفظ کی خاطر خاموش رہیں۔ جہاں تک گھر کے اندر اور خاندان کی جانب سے عورت کے تحفظ کا سوال ہے تو یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گھر کے اندر بھی عورت محفوظ نہیں ہے کیونکہ گذشتہ سال جہاں گھر کے باہر خواتین کے خلاف ۲۱۵۹ جرائم درج ہوئے وہیں گھر کے اندر اہلِ خانہ کے ذریعہ کیے جانے والے عورت کے خلاف جرائم کی تعداد ۱۸۰۰ ہوتی ہے۔ اب قارئین اندازہ لگاسکتے ہیں کہ گھر کی صورت حال کیا ہے اور باہر کی حالت کیا۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہونا ضروری اور یقینی ہے کہ آخر آج کی عورت جائے تو جائے کہاں؟ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ صدی میں پیدا ہونے والی ’’بیداری‘‘ اور حالات نے اسے ایک ایسی دیوار کی طرف دھکیلا ہے جس میں نہ دروازے ہیں اور نہ اس کے لیے جائے قرار۔ یہ تو ہونا ہی تھا اور شاید ابھی اور ہوگا اور اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک عورت خود اپنا نظریہ تبدیل نہیں کرلیتی اور سماج کا نظریہ بھی عورت کے سلسلے میں تبدیل نہیں ہوجاتا۔
عورت کے تحفظ کا مسئلہ نوکریوںمیں رزرویشن اور کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائرکٹرس میں لازمی طور پر عورتوں کے شامل کیے جانے کے قانون سے نہیں بلکہ اس کے لیے عزت و وقار اور احترام کے جذبات فروغ دینے سے حل ہوگا۔ اور اس کے لیے سماج اور حکومتوں میں اربابِ اقتدار کی فکر کی تبدیلی اور تطہیر سب سے ضروری ہے تاکہ وہ مغرب کی اندھی نقالی سے باز آئیں۔ سماج کی فکر تبدیل ہونے کا مطلب ہے کہ عورت کو خاندان میں باوقار اور باعزت فرد کا درجہ دیا جائے۔ اگر عورت کے عورت ہونے کو قدر کی نگاہ اور احترام کے جذبے سے دیکھا جانے لگے تو نہ رحم مادر میں لڑکیوں کا قتل ہوگا اورنہ ہی جہیز کے لیے انھیں جلایا اور ستایا جائے گا۔ ایسے میں کسی لڑکی کا لڑکی ہونا اس کے ماں باپ اور بھائی بہنوں پر بوجھ رہے گا۔ اور اگر حکومتیں مغرب کی اندھی تقلید اور نقالی سے باز آجائیں تو اس طرح کی کوئی پابندی لگانے کی ضرورت نہ ہوگی کہ خواتین کو جگہ جگہ رزرویشن دینے اور اسے شو پیس کے طور پر دفتروں اور اداروں میں سجایا جائے۔
مساوات و برابری کا مطلب یہ ہرگز نہ ہونا چاہیے کہ عورت وہ تمام کام کرے ہی جو مرد کرتے ہیں۔ آخر مساوات اور مرد عورت کی برابری کا یہ مطلب ہمارا سماج کیوں نہیں سمجھتا کہ سماج میں جو وقار اور احترام مرد کو حاصل ہے، وہ عزت و احترام عورت کو بھی حاصل ہو اور کسی گھر یا خاندان میں کوئی عورت صرف اس لیے رسوا نہ ہو کہ وہ عورت ہے اور اپنے بھائیوں اور ماں باپ پر بوجھ ہے، جس کی شادی سے لے کر موت تک کے معاملات میں انہیں خواہی نہ خواہی سرپرستی کرنی ہوتی ہے۔
خواتین کے خلاف جرائم کی یہ صورتِ حال ہمارے ملک ہندوستان ہی کی نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں تقریباً یکساں بلکہ مغربی ممالک میں اور زیادہ بری اور خستہ ہے۔ ایسے میں عورت کو اگر تحفظ اور وقار کی تلاش ہے تو اسے کچھ اور انداز میںسوچنا چاہیے۔ عورت نے گزشتہ صدی میں ایک بغاوت کی اور اس بغاوت نے اسے یہاں تک پہنچادیا کہ وہ نہ گھر میں محفوظ رہی نہ گھر کے باہر۔ وقت اور تجربے نے بتادیا کہ اس کی یہ بغاوت غلط تھی اور جو نتائج آج وہ بھگت رہی ہے، اسی بغاوت کے ثمرات ہیں۔ اس نے جس نظام کو تحفظ اور عزت و وقار کا ضامن سمجھ کر اپنایا تھا ہ تو استحصالی نکلا اور اسی نے اسے یہاں تک پہنچادیا۔
تجربہ اور حالات بتاتے ہیں کہ عورت کو ایک بار پھر بغاوت کرنی ہوگی اور یہ بغاوت اور اعلان جنگ ہوگا اس نظام کے خلاف اور اس طرزِ حیات کے خلاف جس میں پڑکر اسے یہ دن دیکھنے پڑے۔ اور اب شاید ایک ہی راستہ اس کے سامنے ہے جس سے وہ عزت و وقار حاصل کرسکتی ہے اور وہ ہے استحصالی نظام سے بغاوت اور فطری نظام کی طرف پیش رفت۔ یہ فطری نظام وہی ہے جس کی طر ف محترمہ شیلا دکشت نے اشارہ دیا ہے کہ عورت کا تحفظ شروع ہوتا ہے گھر، خاندان اور سماج کے تحفظ سے۔ تو کیا آج کی عورت اس تلخ مگر حقیقت پر مبنی بات کو تسلیم کرنے کا دل گردہ لاسکے گی۔
شمشاد حسین فلاحی

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں