دور جدید میں استحصالی سرمایہ داروں نے عورتوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خاطر مختلف قسم کے ہم رنگ زمیں جال بچھائے ہیں۔ آزادی، مساوات مرد وزن کے حسین الفاظ اور نوکریوں اور ملکوں کی تعمیر و ترقی میں عورت کا مساوی رول، نصف انسانیت کو انسانیت کی فلاح کے لیے فعال رول وغیرہ ایسے بودے مگر لبھاونے جملے ہیں، جن سے بیسویں صدی میں عورت کی زندگی بدل دی گئی، سماج اور معاشرے میں اس کے لیے نظریہ بدل گیا اور لوگ جو پہلے خواتین کی بات کیا کرتے تھے اب برابری اور مساوات کے سبب ’پہلے ہم‘ کرنے لگے۔
آزادی اور مساوات کا نعرہ واقعی بڑا حسین اور خوبصورت تصور ہے۔ یہ الفاظ ہر اس انسان کو متاثر اور مرعوب کرتے ہیں جو ظلم و جبر اور غلامی و ذلت کی زندگی میں گرفتار ہو۔ اہل مغرب نے واقعی عورتوں کو جس انداز میں غلام اور بے عزت بنا رکھا تھا وہاں اس نعرے کی جاذبیت بامعنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پورے یورپ میں اس نعرے نے عورتوں کی زندگی اور سوچ کو تبدیل کردیا۔
مگر حقیقت کچھ اور تھی اور ہے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے عورت مغرب میں ایک قدیم قسم کے روایتی ظلم و ستم کا شکار تھی۔ چناں چہ مغرب کے سرمایہ دار مفکرین نے اس کو “Produtive” بنانے کی سوچی۔ جہاں پروڈکشن میں اضافہ اور نفع کو بڑھانے کی فکر ہو وہاں یہ کیسے گوارہ ہوسکتا تھا کہ دنیا کی نصف آبادی یعنی عورت غیر پروڈکٹیو، اور بے کار پڑی رہے۔ چناں چہ یہ تصور پیش کیا گیا کہ عورت اور مرد برابر ہوں گے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ مرد کام کرتا ہے تو عورت بھی کام کرے گی۔ مرد گھر سے باہر جاتا ہے تو عورت گھر میں کیوں بند رہے۔ اس کے گھر میں رہنے کو قید رہنا قرار دیا گیا اور گھر سے نکلنے کو آزادی۔ اور مردوں اور عورتوں دونوں کے ایک ساتھ کام کرنے کو معاونت گردانا گیا۔ اس طرح فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے کو آزادی قرار دے دیا گیا اور جو خواتین ابھی تک گھروں میں تھیں ان کے باہر نکلنے کے لیے تحریک چلائی گئی کہ انہیں بھی آزادی ملنی چاہیے۔ اب مرد اور عورت جب دونوں ایک ہی جگہ پر ایک ہی کام کرنے لگے تو معاشرتی مسائل پیدا ہوئے۔ عورت جب مرد کی طرح دفتر یا کارخانے میں کام کرے گی تو شوہر کے لیے کھانا کیسے بنائے گی۔ پھر مرد تو عورت کے ساتھ ہر جگہ اور ہر وقت رہ نہیں سکتا اس لیے مرد کے لیے عورت کی وفاداری پر سوال اٹھا۔ اور اس سوال کا جواب آزادی کی صورت میں دیا گیا۔ جس کا واضح مطلب یہ تھا، مرد اور عورت جب جہاں اور جس سے چاہیں اپنا تعلق استوار کرسکتے ہیں۔ دونوں آزاد ہیں۔ اور اس وقت یہی آزادی اور یہی برابری کا تصور نہ صرف پورے یورپ میں عملی طور پر رائج ہے بلکہ وہ اپنی تمام طاقتیں اس چیز کے لیے استعمال کر رہا ہے کہ مشرق میں بھی یہی تصور آزادی و مساوات مرد و زن رائج و جاری ہوجائے اور حقیقتاً یہ ہو بھی رہا ہے۔
مگر افسوس اس بات پر ہے کہ دورِ جدید کی تعلیم یافتہ اور روشن خیال تصور کی جانے والی عورت ان حسین تصورات کی اندرونی تاریکی کو نہ بھانپ سکی اور اس نے ایک نئی قسم کی غلامی اور نئے طرزِ استحصال کو نجات دہندہ سمجھ کر قبول کرلیا۔ اس نے اس نئی غلامی کو آزادی تصور کیا اور معاشی استحصال کو مساوات سمجھا اس نے جنسی اور جسمانی استحصال کو آزادی سمجھ لیا اور سرمایہ داروں کے منافع کے لیے خون پسینہ دینے کو ترقی اور معاشی استحکام اور امپاورمنٹ جانا۔
استحصالی ذہنوں نے دور جدید کی عورت کو خوش نما نعرے اور رنگ برنگے کھلونے دے کر بہلانے کی اور اپنی استحصالی نظریات کو ان کے اندر مستحکم کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ چنانچہ ان کے مفکرین نے گزشتہ صدی میں خواتین کے نام نہاد حقوق کی بازیابی کے لیے ایک پوری تحریک کھڑی کردی جسے دنیا فیمنسٹ موومنٹ کے نام سے جانتی ہے۔ اس تحریک نے آج پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور یہ اس قدر مضبوط ہوگئی ہے کہ جو لوگ بھی اس کی مخالفت میں زبان کھولتے ہیں، انہیں قدامت پرست اور بنیاد پرست کا طعنہ دیا جاتا ہے اور دنیا بھر کی حکومتیں ان کے اشاروں پر پالیسیاں بنانے پر مجبور ہیں کیوں کہ انہیں مغربی دنیا کے طاقت ور ملکوں کی تائید حاصل ہے۔
عالمی یوم خواتین (انٹرنیشنل وومنس ڈے) اصل میں انٹرنیشنل ورکنگ وومنس ڈے ہے جو ۸؍ مارچ کو منایا جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں بلکہ دنیا کے تمام ہی ملکوں میں منایا جانے والا یہ عالمی یوم خواتین دراصل عام تقریبات سے لے کر عورتوں کی محنت و کارکردگی کی ستائش اور ان کی معاشی و سیاسی اور سماجی میدانوں میں پیش کردہ خدمات اور حصولیابیوں کے تذکرے کے لیے معروف ہے۔ سوشلسٹ نظریات پر مبنی ایک سیاسی تقریب تھی جو بنیادی طور پر مشرقی یورپ اور روس کے علاوہ سوویت ممالک میں منائی جاتی تھی۔
پہلا عالمی یوم خواتین ۲۸؍ فروری ۱۹۰۹ء کو سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ کے اعلان پر منایا گیا، اس کے بعد اگست ۱۹۱۰ میں خواتین کی ایک عالمی کانفرنس کوپن ہیگن میں طلب کی گئی اور اس میں آئندہ سال کے لیے تجاویز اور مشورے طلب کیے گئے۔امریکی سوشلسٹوں سے حوصلہ پاکر جرمن سوشلسٹ لیڈر لوئیس زیٹز نے ایک سالانہ عالمی یوم خواتین کی تجویز پیش کی جس میں ۱۷ ممالک کی ۱۰۰ سے زیادہ خواتین نے شرکت کی اور بنیادی طور پر اس خیال کی تائید کی۔ یہ تائید اصلا خواتین کے حقوق ان کے مرتبہ کو محفوظ رکھنے اور ان کو مختلف میدانوں میں پیش آرہی مشکلات، پریشانیوں اور دقتوں کو دور کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک عمل کے طور پر ہوئی تھی۔ چنانچہ اگلے سال ۱۹۱۱ میں ۱۸؍ مارچ کو پہلی مرتبہ عالمی سطح پر ’’انٹرنیشنل وومنس ڈے‘‘ کے طور پر منایا گیا۔ اور اس میں آسٹریا، ڈنماک، جرمنی اور سوئزر لینڈ میں دس لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ اس دوران صرف آسٹریا اور ہنگری کی سلطنت میں ۳۰۰ سے زیادہ مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں میں خواتین کو ووٹ دینے کے حق کے مطالبے کے ساتھ ساتھ سرکاری دفتروں میں بھرتی کا بھی مطالبہ کیا۔ اس دوران وہ نوکریوں میں جنس کی بنیاد پر تفریق کے خلاف بھی مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس دوران امریکی لوگ فروری کے آخر ی اتوار کو یوم خواتین کے طور پر مناتے رہے۔ دنیا کے مختلف خطوط میں مختلف حالات سے گزرتے ہوئے اس دن کو حقیقی عالمی شناخت اور شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب ۱۹۷۷ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ممبر ممالک سے اس دن کو خاص طور پر منانے کی اپیل کی اور اس کے لیے ۸؍ مارچ کا دن مقرر کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کی اس اپیل کے بعد اس دن کو پوری دنیا میں عالمی یومِ خواتین کے طور پر منایا جانے لگا۔
عالمی یومِ خواتین یا اس سے پہلے کے ایام میں یوم خواتین کا منایا جانا دراصل اس بات کا ایک طرح سے اعتراف تھا کہ موجودہ دو رکی عورت مختلف النوع مسائل اور مشکلات سے دوچار ہونے لگی ہے اور اس کے حقوق اور خود اس کو ایک تحفظ کی ضرورت ہے۔ اور تحفظ اور حقوق بیداری کے لیے عوام میں بیداری لائی جانی چاہیے اور یہ اسی وقت بہتر انداز میں ہوسکتا ہے جب اس کے لیے ایک دن خاص کرلیا جائے۔
’’عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے‘‘ کی مصداق سرمایہ دارانہ اور اشتراکی جمہوریت دونوں نے ہی عورت کو عالمی یوم خواتین کے نام پر حسین کھلونا دیا۔ اشتراکی نظام نے عورت کو اسٹیٹ کے منافع کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے امیروں نے اپنے منافع میں اضافہ کے لیے اسے گھر سے گھسیٹ نکالا۔ نتیجہ واضح طور پر یہی ہونا تھا کہ عورت کا سکون و چین غارت ہوگا اور وہ کام کرنے والی (Working hand) کے مرتبے سے گزرتی ہوئی جنس بازار بن جائے گی۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج وہ فیکٹریوں اور کارخانوں میں مزدوری کے مقام پر بھی ہے اور دفتروں وصنعتوں میں اعلیٰ عہدوں پر بھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہر جگہ اسے ’’مین باسز آقا مردوں‘‘کی خاص حکمت عملی کا چیلنج ہے اور اب کیفیت یہ ہے کہ یہ عورت نہ سڑک پر چلتے ہوئے محفوظ ہے اور نہ دفتر اور فیکٹری میں۔ نہ مزدور اور ناخواندہ عورت کا عزت و وقار محفوظ ہے اور نہ تعلیم یافتہ ایگزیکٹیو عورت اپنے وقار اور عزت کی حفاظت کرپا رہی ہے۔ چناںچہ حکومت کام کی جگہوں پر خواتین کو جنسی حراسانی سے تحفظ کے لیے خصوصی قوانین بنانے پر مجبور ہے۔
یوم خواتین کے موقع پر عورتوں کو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں ایوارڈس اور انعامات دیے جاتے ہیں جیسے اور پروگرام اور سیمینار ہوتے ہیں۔ اور دنیا کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ عورت ہر کام انجام دے سکتی ہے اور دیتی ہے اور مردوں کے برابر ہے اور کسی بھی میدان میں وہ مردوں سے پیچھے نہیں ہے اور زمانے کے ساتھ ساتھ عورت بھی ترقی کر رہی ہے۔
لیکن صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو یہ سب سنہرا دھوکا اور سفید جھوٹ ہے۔ دنیا تقریباً ایک صدی سے زائد عرصے سے یوم خواتین منا رہی ہے۔ عورت مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہوچکی ہے۔ مگر آج بھی وہ ظلم و زیادتی اور مردوں کے ظلم و جبر کا شکار ہے۔ دفتر اور کام کی جگہ پر سڑکوں اور پارکوں میں، سماج اور معاشرے میں اور سب سے بڑھ کر وہ خود اپنے ہی گھر میں محفوظ نہیں ہے۔
تصویر کا اصل رخ یہ ہے کہ آج دنیا بھر کے غریب لوگوں میں ستر فیصد خواتین ہیں۔
ہمارے ہی ملک میں ہزاروں دلہنیں جہیز کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ افریقہ اور عرب ملکوں میں ۵۰ فیصد خواتین آج بھی ناخواندہ ہیں۔ ان اعدادو شمار کو دیکھنے کے بعد کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ عورت آزاد ہے اور اسے اس کا حق دے دیا گیا ہے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی اب گنجائش باقی نہیں ہے کہ مغربی نظریات اور مغربی تہذیب نے عورت کو ذلیل و رسوا کرنے اور اس کے حسن و جمال اور اس کے جسم کا استحصال کرنے کے علاوہ اس کو اور کچھ نہیں دیا ہے۔ پوری دنیا میں عام طور پر اور اپنے ملک ہندوستان میں خاص طور سے ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کے خلاف ظلم و زیادتی اور جرائم کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ حکومتیں پریشان ہیں اور نئے نئے قوانین بنائے جانے کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم کا یہ سیلاب رکنے کا نام نہیں لیتا۔
آخر ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس وجہ سے ہے کہ عورت کی آزادی اور مساوات کا نعرہ ایک حسین دھوکہ ہے اور عالمی یوم خواتین جیسی تقریبات اس دھوکے کو مضبوط کرنے کی تدبیریں۔ حالات اور واقعات سے یہ بات صاف ہے کہ موجودہ تہذیب عورت کے مسائل کو ختم یا کم نہیں کرسکتی ہے۔ اب اس کے سامنے ایک نئے متبادل کو پیش کرنے اور اسے یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آزادی اور مساوات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کچھ کرنے کی فکر کرے جو مرد کرتے ہیں بلکہ اپنی توجہ اس پر لگائے جس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر اسے بنایا ہے۔
یہ بات خود بھی سمجھنے کی ہے اور عام خواتین کو بھی سمجھانے کی ہے۔ مگر یہ کام کون کرسکتا ہے؟ صرف اور صرف مسلم خواتین مگر وہ تو خود غافل ہیں۔ پھر موجودہ دور کی نصف انسانیت کو کیسے بچایا جائے؟ یہ سوال آپ کے سامنے ہے۔ کیا آپ جواب دیں گی؟ll