عبداللہ

زرقا ظفر

ڈاکٹر کی رپورٹ آتے ہی پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ شگفتہ کی نند، جیٹھانی، ساس سب نے باری باری آکر اُس کی بلائیں لیں۔فوراً بچے کو مٹھائی کے لیے دوڑایا گیا۔ اس کے آرام اور غذا وغیرہ کی باتیں کرتے کرتے اس کی ساس بار بار آنے والے پوتے کے تصور میں کھوئی جاتی تھیں اور پھر شگفتہ کی بلائیں لیتی تھیں۔ دوسری طرف سے شگفتہ کا دل اتنی بڑی ذمہ داری کے احساس سے ڈوبا جارہا تھا۔ ایک انسان کی پرورش، تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اور اس کے نازک کندھے… دل تھا کہ بارگاہِ الٰہی میں بار بار سجدہ ریز ہورہا تھا کہ ’’اے اللہ! تو ہی اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی پورا کرنے والا ہے۔ میری مدد کرنا کہ میں مومن و مجاہد انسان اٹھا سکوں۔‘‘
اس کی جیٹھانی نے جو اس کی پریشانی دیکھی تو چہک کر بولیں: ’’بنو! پریشان کیوں ہوتی ہو، بھرا گھر ہے، بچے سنبھالنے میں ذرا مشکل نہیں ہوتی۔ مجھے دیکھو، تین تین بچے ہیں، ٹھاٹ سے دوپہر کو سوتی ہوں، وی سی آر پر فلم لگادی اور اماں سے کہہ دیا کہ دیکھتی رہیے گا باہر نہ نکل جائیں۔ پڑھائی کا کوئی مسئلہ نہیں، ٹیوٹر رکھوادیا ہے۔ چھوٹے تھے تو ٹیپ ریکارڈ پر گانے لگا کر رکھتی تھی۔ شور سے بہلے رہتے تھے۔ میں اپنے کام بھی نپٹا لیتی تھی۔ ہاں البتہ رات کی نیند خراب ہوگی تو بنو پاؤں کے نیچے جنت بھی تو ملے گی، اور مرگئے تو صدقۂ جاریہ الگ۔‘‘
شگفتہ نے ان کی طرف دیکھا اور پھر سرجھکالیا۔ وہ اس سے پہلے کئی دن ان کو سمجھا چکی تھی کہ بچے کی تربیت گھر سجانے، رشتہ داریاں نبھانے اور شاپنگ کرنے سے زیادہ اہم کام ہے۔ یہ اتنا افضل کام ہے کہ اس کے عوض جنت پاؤں تلے آجاتی ہے۔ تو اس کی ذمہ داری بھی بے حد و حساب ہے۔ وہ کہتی: ’’بچے صدقۂ جاریہ تب ہوں گے، جب وہ اللہ کے صحیح معنوں میں بندے ہوں گے۔ یہ تھوڑی کہ آپ ان کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑدیں اور خود رو پودوں کی طرح جیسے تیسے بڑے ہوجائیں، بعد مرنے کے آپ کے حق میں قرآن خوانیاں کروادیں، اور لو جی آپ کا صدقۂ جاریہ ہوگیا۔ مگر وہ جانتی تھی کہ اس خوشی کے موقع پر یہ بحث چھیڑنا فضول ہے۔ لہٰذا اسی لمحے اس نے عہد کرلیا کہ وہ اللہ کی مدد سے بچے کی پرورش صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی مرضی کے مطابق کرے گی۔ یہ عہد کرنے کی دیر تھی کہ اس کی پریشانی یکلخت عزم میں بدل گئی۔ آنکھوں میں چمک بڑھ گئی اور اس کے دل نے بے اختیار اپنے رب العزت سے مدد کی درخواست کی۔
یہ وہ لمحہ تھا، جس نے اس کی زندگی میں احساسِ ذمہ داری کا ایک نیا رنگ ڈال دیا۔ بات ساری احساس ہی کی تو ہوتی ہے۔ عورتیں اپنے خیالات کے مطابق تخلیق کا یہ عرصہ گزارتی ہیں۔ کہیں غذاؤں پر زور ہوتا ہے، ناریل کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ کہیں آرام پر زور ہوتا ہے، کہیں کام اور چلنا پھرنا زیادہ ہوجاتا ہے، تو کوئی دھڑا دھڑ، سورۃ یوسف اور سورۃ مریم پڑھ پڑھ کر پانی پر دم کیے جاتا ہے۔ لیکن شگفتہ نے ان سب سے ہٹ کر تیاری شروع کی۔ پہلی چیز تو یہ کہ اس نے خود کو پابند کرلیا، دھیمی آواز میں جیسے کسی کو سنایا جاتا ہے، تلاوتِ قرآن پاک کا۔ پہلے وہ کبھی کبھار ٹی وی بھی دیکھ لیا کرتی تھی لیکن اب اس نے سختی سے احتراز کرنا شروع کردیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ موسیقی اور فحاشی اس کے بچے کے قریب بھی پھٹکے۔ روز مرہ کے معمولات یعنی اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے وہ اللہ کو یاد تو ہمیشہ ہی کرتی تھی، لیکن اب اس نے اہتمام سے تمام مسنون دعائیں یاد کرنی شروع کیں۔ وہ سوچتی: بچے کی تربیت کا دور شروع ہونے سے پہلے نو مہینے کا یہ لمبا عرصہ یقینا اللہ تعالیٰ نے عورت کو اپنی تربیت کے لیے دیا ہے۔
یونہی تیاریوں میں تخلیق کا یہ عرصہ مانو پلک جھپکتے ہی گزرگیا اور تخلیق کی تکمیل کا لمحہ… وہ یادگار لمحہ آگیا کہ جس نے شگفتہ کو یکلخت کرئہ ارض کی خوش نصیب خواتین میں شامل کردیا۔ اس کی دعائیں بارگاہِ رب العزت میں مقبول ہوگئیں اور وہ اللہ کے نائب کی پرورش کی ذمہ دار ٹھہرائی گئی۔ دونوں میاں بیوی اولادِ نرینہ کی دولت سے سرفراز ہوئے۔ محبت، چاہت اور خوشی کے اس لمحے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شگفتہ نے اپنے شوہر سلیم سے صرف ایک وعدہ لیا… صرف ایک عہد! اس نے کسی سونے چاندی کے زیور، مکان یا کپڑے کی فرمائش نہیں کی، بلکہ اس نے سلیم سے بچے کی تربیت کے کلی اختیار کا عہد لیا… اور یہ بہت ہی اہم عہد تھا، جس کا اندازہ سلیم کو بعد میں کئی دفعہ ہوا، لیکن وہ بھی مرد کا بچہ تھا، عہد کیا تھا تو اس کو نبھایا بھی… گو کہ کئی دفعہ گھر کی فضا مکدر ہوئی۔
ننھا منا گل گوتھنا عبداللہ سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ دادی کی تو گویا جان ہی اس میں تھی۔ حالانکہ پوتے پوتی ان کے اور بھی تھے، لیکن ایک تو چھوٹے لاڈلے بیٹے کا بیٹا، اور پھر ایسا پیارا… کبھی مالش ہورہی ہے، کبھی نہلایا جارہا ہے، کبھی سکائی کی جارہی ہے، کپڑے سی سی کر پہنائے جارہے ہیں۔ غرض دادی، پھوپھی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرڈالیں اس کے لیے۔
انہی دنوں ان کے پڑوس میں ایک بزرگ خاتون حمیدہ نامی آئیں۔ صوم و صلوٰۃ پردے کی پابند۔ بڑی ملنسار اورسوجھ بوجھ والی۔ ان کے آنے سے شگفتہ کی بڑی ڈھارس بندھی۔ وہ اسے احادیث اور سیرتِ رسولؐ کے مطابق بڑے اچھے مشورے دیتیں۔
چھ مہینے کا ہوتے ہوتے عبداللہ نے بڑا پیارا رنگ و روپ نکال لیا۔ راہ چلتے لوگ پلٹ کر دیکھنے لگتے۔ دو تین دفعہ دادی نے کالی پوتھ ہاتھ میں ڈالنی چاہی تو شگفتہ نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ ’’اماں! کیوں وہم اور بدعت کی باتوں میں پڑتی ہیں! یہ کالے دھاگے، کالی مرغی، کالا بکرا سب بے کار کی باتیں ہیں۔‘‘
ہونے والی بات تھی، عبداللہ کو جمعہ کے دن سفید کرتا شلوار پہنا کر لٹایا ہی تھا کہ کچھ رشتہ دار آگئے، ان کا بیٹا چھوٹتے ہی بولا ’’واہ آنٹی کیا موٹا تازہ بچہ ہے، کیا کھلاتی ہیں اسے۔‘‘ بس جناب! رات ہوتے ہوتے عبداللہ کو ۱۰۳ ڈگری بخار چڑھ گیا۔ آنکھ، ناک سے پانی بہے، بستر پر لیٹنا نہ چاہے، کوئی دوا اثر نہ کرے۔ بس جناب دادی نے تو پریشانی میں سب کو لتاڑنا شروع کردیا کہ ’’نظر لگی ہے میرے بچے کو… بڑی ماڈرن بنتی تھیں، کالا دھاگہ نہ ڈالیں، نظر بٹو نہ لگائیں، اب سنبھالو بچے کو… کیسا مرجھاگیا میرا لاڈلا۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے غصے میں بیٹی کو آواز دی، لاؤ جی مرچیں لے کر آؤ، نظر اتاروں اس کی۔‘‘ مرچوں سے نظر اتارنے کی کوشش ہوئی۔ بو تو ذرا نہ آئی مرچوں سے لیکن بچے کی حالت بھی اچھی نہ ہوئی۔ ادھر شگفتہ پاؤں جلی بلی کی طرح بولائی بولائی پورے گھر میں پھر رہی تھی۔ دو دن اسی طرح گزرگئے۔ اس کی ساس نے سارے ٹونے ٹوٹکے آزمالیے، کپڑا رگڑا، منہ پر دل بھر کے مرچیں واریں اور نہ جانے کیا کیا… لیکن بچے کی حالت نہ سدھرنی تھی نہ سدھری۔ تیسرے دن صبح صبح خالہ حمیدہ فرشتۂ رحمت بنی نازل ہوئیں۔ ساری کارروائی سن کر انھوں نے شگفتہ کی ساس کو تو کچھ نہ کہا لیکن شگفتہ کو ڈانٹا کہ’’بیٹا تو تو پڑھی لکھی ہے، اللہ رسول کو ماننے والی ہے۔ اللہ سے رجوع کیوں نہ کیا۔‘‘ پھر انھوں نے دعا پڑھی: بسم اللّٰہ اللّٰہم اذہب مرہا وبردہا و وصبہا ( اللہ کے نام پر! اے اللہ اس (نظرِ بد) کے سرد و گرم، دکھ درد کو دور کردے۔) عبداللہ کے منہ پر پھونکی اور زور سے بولیں: ’’قم باذن اللّٰہ!‘‘ (اللہ کے حکم سے کھڑا ہوجا) پھر انھوں نے شگفتہ کو بتایا کہ یہ وہ دعا ہے جو ہمارے پیارے رسولﷺ نظر اتارنے کے لیے پڑھا کرتے تھے۔ شام ہوتے ہوتے عبداللہ کی حالت بھلی چنگی ہوگئی۔ اس کی ساس کے رویے میں تیزی کی جگہ ندامت کے آثار نظر آنے لگے، لیکن انھوں نے منہ سے کچھ نہ کہا۔
شگفتہ کے طور طریقے بڑے عجیب تھے، وہ کبھی کسی کے سامنے عبداللہ کے کپڑے نہ بدلتی تھی۔ گھر والے کبھی مذاق اڑاتے کہ یہ تو بچہ ہے۔ لیکن وہ یہی جواب دیتی کہ میرے رسولؐ بچپن ہی سے حیادار تھے۔ میں شرم و حیا اس کی سرشت میں ڈال دینا چاہتی ہوں۔ صبح عبداللہ سو کر اٹھتا تو وہ پہلے اسے کلمہ سناتی پھر صبح اٹھنے کی دعا اور پھر اسے سلام کرتی۔ اسی طرح اسے دودھ پلا کر یا تھوڑی بہت کوئی چیز کھلاکر وہ کھانے کے بعد کی دعا پڑھتی۔غرض وہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتی تھی اورعبداللہ سے ایسے پیش آتی تھی جیسے وہ کوئی بڑا آدمی ہے جو اس کی غلطی نوٹ کرسکتا ہے۔ بچہ پورا دن دادی پھوپھی کے پاس ہی رہتا تھا، لیکن ٹی وی کھلتے ہی وہ بچے کو اپنے کمرے میں لے آتی۔ غرض یونہی شب و روز جدوجہد اور احتساب کے عمل کے ساتھ گزرتے رہے اور عبداللہ تین سال کا ہوگیا۔ وہ بڑا ذہین بچہ تھا۔ ماں کی تربیت اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ وہ دعائیں جو وہ پہلے دن سے سن رہا تھا اسے ازبر ہوگئی تھیں اور بچے جس طرح ٹی وی کے اشتہار اور فلموں کے گانے گاتے ہیں وہ اپنی پیاری آواز میں سورۃ کوثر سنانے لگا تھا۔ اس تمام عرصے میں پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ گیا تھا اور اپنے ساتھ بہت سی مٹی بہا لے گیا تھا۔ اس کی جیٹھانی نادرہ الگ گھر میں شفٹ ہوگئی تھیں اور بچوں کی طرف سے بہت پریشان رہتی تھیں۔ بڑا لڑکا جو اب پندرہ سال کا ہورہا تھا، بری صحبت میں پڑ کر پڑھائی سے کوسوں دور بھاگتا تھا۔ آوارہ لڑکوں کو گھر میں لاکر فحش فلمیں دکھانا اس کا روز کا معمول تھا۔ اس سے چھوٹی بیٹی جو تیرہ سال کی ہورہی تھی، پڑھائی لکھائی میں وہ بھی کوری تھی۔ پورا پورا دن بالکونی میں کھڑے ہوکر آنے جانے والے راہ گیروں کو تنگ کرنا یا آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر مختلف ہیروئنوں کی نقلیں اتارنا اس کے محبوب مشاغل تھے۔ اور تیسرا بیٹا گو کہ ابھی چھوٹا تھا لیکن وہ جو ہے ناں پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں، تو اس کے لچھن بھی بڑے بہن بھائی سے مختلف ہرگز نہ تھے۔ شگفتہ جب نادرہ بھابی کو پریشان حال اور بچوں کو کوستے ہوئے دیکھتی تو یہی سوچتی کہ کیا واقعی قصور ان بچوں کا ہے جن کو ان کی ماں ہر وقت کوستی رہتی ہے؟ جن کی ماں نے ان کی تربیت پر اپنی تفریح کو ہمیشہ ترجیح دی۔ جن کی ماں اپنی نیند کے بدلے ان کو دوزخ کا خریدار بناتی رہی۔ اس کا دل چیخ چیخ کر یہی جواب دیتا کہ نہیں یہ بچے بے قصور ہیں، یہ بچے معصوم تھے، اصل مجرم ان کے والدین اور یہ معاشرہ ہے۔
انہی دنوں شگفتہ کے سسرال میں کسی بچے کی سالگرہ کی تقریب منعقد ہوئی۔ کچھ ایسی بنی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی شگفتہ کو جانا ہی پڑا۔ وہاں جاکر عبداللہ بڑا خوش ہوا۔ رنگ برنگے غبارے، اتنے سارے تحفے، پیارے پیارے بچے، بڑا سا کیک… یہ سب اس کے لیے نئی چیزیں تھیں۔ واپسی میں وہ سارے راستے چہکتا رہا اور اپنی سالگرہ کی باتیں کرتا رہا۔ رات کو حسبِ معمول وہ شگفتہ کے پاس آکر لیٹ گیا اور کہانی کی فرمائش کی، تب شگفتہ نے اسے بڑے پیارسے بتایا کہ سالگرہ دراصل عیسائی لوگ مناتے ہیں اور پیارے نبیؐ نے مسلمانوں کو وہ کام کرنے سے منع کیا ہے جو وہ لوگ کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ بھی اسے پسند نہیں کرتے۔ عبداللہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سالگرہ کو پسند نہیں کرتے تو اس نے فوراً سالگرہ نہ منانے کا وعدہ کرلیا اور تھوڑی ہی دیر میں باتیں کرکے سوگیا۔ وہ رات شگفتہ نے بہت کچھ سوچتے ہوئے گزاری۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اپنے بچے کو کسی بھی چیز سے صرف منع نہیں کرے گی بلکہ اسے دلائل دے کر مطمئن کرے گی۔ اسے ملنے والوں اور رشتہ داروں کی وہ ساری باتیں یاد آرہی تھیں جو وہ لوگ وقتاًفوقتاً کرتے رہتے تھے کہ وہ اپنے بچوں کو چھری کے پاس سے ہٹاتے ہیں۔ سوئچ بورڈ میں انگلی ڈالنے سے روکتے ہیں۔ چولہے کے قریب نہیں جانے دیتے۔ کانچ کے ٹکڑے ان کے ہاتھ میں نہیں دیتے چاہے وہ کتنی ہی ضد کیوں نہ کریں تب تو وہ نفسیاتی مریض نہیں بنتے۔ لیکن اگر ہم اپنے بچوں کو موسیقی اور فحاشی سے بچائیں، تصویر کشی سے روکیں، دوزخ کی آگ سے بچائیں تو یہ نفسیاتی مریض بن جائیں گے۔ اس نے اپنے عزم کو دوبارہ تازہ کیا اور عبداللہ کو دیکھتے دیکھتے وہ نیند کی وادیوں میں گم ہوگئی۔
چند مہینے اور گزرگئے اور عبداللہ کو اسکول میں ڈالنے کی باتیں ہونے لگیں۔ سلیم نے بڑے شوق سے اس کا داخلہ شہر کے بڑے اچھے انگلش میڈیم اسکول میں کرایا اور لانے لے جانے کی ذمہ داری شگفتہ نے اپنے سر لی، اور یوں عبداللہ صاحب دیکھتے ہی دیکھتے اسکول جانے لگے۔
ایسے ہی ایک دن جب شگفتہ عبداللہ کو لینے اسکول پہنچی تو اس کی کلاس ٹیچر خفگی سے بولی: ’’آپ نے بچے کو کیا بنا کر رکھ دیا ہے؟ کس قدر عجیب باتیں کرتا ہے یہ۔‘‘ شگفتہ اس اچانک حملے پر بوکھلا گئی کہ آخر ہوا کیا؟ استفسار پر پتا چلا کہ آج کلاس کے کسی بچے کی سالگرہ تھی، لہٰذا فیشن کے مطابق اس کے والدین چھوٹی خوب صورت تھیلیوں میں غبارے اور ٹافیاں اور ایک بڑا کیک بچوں کے لیے دے گئے تھے۔ عبداللہ کو جب معلوم ہوا کہ یہ سالگرہ کا کیک ہے اور عدنان کی سالگرہ منائی جارہی ہے تو وہ کلاس ہی چھوڑ کر بھاگ گیا۔ بڑی مشکل سے اس کی مس نے چوکیدار کی مدد سے اس کو پکڑا اور بھاگنے کی وجہ پوچھی تو اس بچے نے مس کو ہی سمجھانا شروع کردیا کہ سالگرہ بری بات ہوتی ہے۔ اس سے اللہ میاں ناراض ہوجاتے ہیں۔ کلاس ٹیچر اپنی سی کوشش کرکے رہ گئی لیکن عبداللہ کو کیک نہ کھانا تھا نہ کھایا۔ یہ قصہ سننے کے دوران شگفتہ کے چہرے پر خوشی، اطمینان اور شکر کے مختلف رنگ آرہے تھے۔ اس نے واشگاف لفظوں میں کلاس ٹیچر سے کہا کہ جو بات اللہ اور اس کے رسولؐ کو پسند نہیںہے میں نے اپنے بچے کو اس کو ناپسند کرنے کی تربیت ہی دی ہے۔ پھر وہ اسکول کی پرنسپل کے پاس گئی۔ پرنسپل سارا واقعہ سن کر بہت متا ثر ہوئیں اور ایک بچے کی والدہ کی حیثیت سے شگفتہ کے اعتراض کو انھوں نے درست تسلیم کیا کہ سالگرہ اسکول میں منانے کی کوئی تک نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں ہر طرح کے گھرانوں کے بچے آتے ہیں۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ اگلی میٹنگ میں وہ تمام والدین کو صاف طور پر منع کردیں گی۔
رات کو اس نے سارا واقعہ سلیم کو سنایا۔ وہ حیرت اور احترام کے ملے جلے جذبات سے شگفتہ کو دیکھ رہا تھا جو کہہ رہی تھی کہ ’’میں نے اس دن کے لیے بہت محنت کی ہے اور آج مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں نے اس عمارت کی مضبوط بنیادیں بنادی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی نے مجھے توفیق بخشی اور وہی میرا مددگار رہا۔ اب باطل کے کیسے ہی طوفان اٹھیں وہ اس عمارت کو ہلا نہ سکیں گے۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں