٭ ایک شخص نے خود کشی سے قبل اپنے انگوٹھے کے ناخن پر وصیت لکھی اور ناخن کو انگلی سے اکھاڑ پھینکا۔
٭ الاسکا میں ایک شخص طویل مدت کی قید بھگت رہا تھا۔ اس نے اپنی وصیت جیل کی ایک دیوار پر لکھ دی اور جب اس کی موت واقع ہوئی اور اس کے ورثے کی تقسیم پر قانونی تنازع پیدا ہوا تو ترکے کے امیدواروں کی درخواست پر جج نے جیل کی دیوار اٹھواکر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا، چنانچہ اس پر عمل درآمد ہوا اور اس انوکھے وصیت نامے پر عدالتی نشان ’’ایگزیٹ اے‘‘ لگایا گیا۔
٭ یونان کے نامور فلسفی ارسطو نے ۳۳۲ قبل مسیح میں جو وصیت نامہ تحریر کیا تھا، اس کی عبارت ہر اعتبار سے جامع ہے اور اسے معیاری دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ قانون دان وصیت ناموں کے قانونی نکات پر بحث کرتے وقت ہمیشہ اس شہرہ آفاق وصیت کا حوالہ دیتے ہیں۔
٭ دنیا کا سب سے طویل وصیت نامہ دنیا کے سب سے بڑے شعبدہ باز فیزبرنم کا تحریر کردہ ہے۔ یہ وصیت نامہ ۵۳ صفحات پر انتہائی گنجان عبارت میں ہے۔ یہ شخص اپنے سرکس میں حیرت انگیز کرتب دکھایا کرتا تھا اور اس نے اپنی وصیت میں سرکس کے ہاتھیوں اور بندروں سے لے کر کیلوں اور کھونٹیوں تک کی تقسیم کی تفصیلات لکھ دی تھیں۔
٭ برلن میں ایک عورت نے اپنی وصیت اپنی کمر کی جلد پر لکھوائی۔ اس وصیت نامے کے دو سو الفاظ تھے۔
٭ آسٹریلیا میں فرانسس نامی شخص نے وصیت نامے میں اپنی بیوہ کے لیے صرف ایک شلنگ چھوڑا تاکہ وہ اس سے بس کا ٹکٹ خرید کر ایک ساحلی مقام پر جاکر خود کشی کرلے۔
٭ نیو برنسوک میں ہربرٹ شارپ نے اپنا کثیر اثاثہ مونٹ ایسس یونیورسٹی کے نام چھوڑا، مگر وصیت نامے میں تاکید کردی کہ اس رقم سے صرف ان طالب علموں کو وظیفے دیے جائیں جو سگریٹ اور تمباکو نہ پیتے ہوں۔ اس عبارت میں یہ بھی درج تھا کہ جو طالب علم تمباکو نوشی کا بیکار خرچ برداشت کرسکتا ہے اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنی تعلیم کا خرچ بھی خود برداشت کرے۔
٭ سب سے عجیب و غریب وصیت نامہ نائیس (فرانس) کے ایک ڈاکٹر کا تحریر کردہ ہے، جس کے ترکے میں سے آج تک ایک سالانہ وظفیہ نائیس کے اس شہری کو ملتا ہے جس کی ناک سب سے زیادہ سیدھی، کلائیاں سب سے چھوٹی اور ہاتھ سب سے بڑے ہوں۔ مزید شرط ہے کہ وظیفے کے مستحق شخص کے بال سرخ اور بھویں سیاہ ہونی چاہئیں۔
٭ رابرٹ لوئیس سٹیونسن کا انتقال بحرالکاہل کے ایک جزیرے میں طویل علالت کے بعد ہوا۔ اس نے وصیت نامے میں لکھا کہ میں اپنی سالگرہ کا دن فلاں لڑکی کے نام ورثے میں چھوڑتا ہوں کیونکہ اس لڑکی کی سالگرہ اتفاق سے کرسمس کے دن پڑتی ہے اور اس طرح اسے شکایت ہے کہ وہ سالگرہ کے تحفوں سے محروم ہوجاتی ہے۔ متوفی نے مزید لکھا کہ اگر وہ لڑکی میرے اس ورثے سے فائدہ نہ اٹھائے تو میری سالگرہ منانے کا حق صدر امریکہ کو ہوگا۔
٭ ایک امریکی تاجر کی وصیت کے مطابق اس کے اعضاء اس کے ’’پیارے کتوں‘‘ کو کھلا دیے جائیں اور اس کی موت کے بعد اس پر عمل درآمد بھی ہوا۔ نشویل سے تعلق رکھنے والے ایک بہت بڑے تاجر ڈنیٹن کلاسن نے اپنے گھر میں بے شمار کتے پال رکھے تھے، جن میں لیبریڈ نسل کا کتا اسے سب سے پیارا تھا۔ کلاسن کی خواہش تھی کہ اسے عام طریقے سے دفنانے کے بجائے اس کے اعضاء کتوں کو کھلا دیے جائیں، اس طرح وہ اپنے پیارے دوستوں کے وجود کا حصہ بن کر اپنی محبت کو امر کردے گا۔
کلاسن کے قریبی دوستوں نے اسے موت سے پہلے مشورہ دیا تھا کہ اگر مرنے کے بعد وہ ایک غیرمعمولی انسان بننا چاہتا ہے تو اس کی میت کسی میڈیکل کالج کے حوالے کی جاسکتی ہے، جہاں طلبہ اس کے ڈھانچے سے انسانی زندگی کا مطالعہ کریں، لیکن کلاسن نے انکار کردیا اور کہا کہ مرنے کے بعد میری لاش کے ٹکڑے کرکے کتوں کو کھلا دینا۔ اس کے علاوہ اس نے کتوں کے لیے ایک لاکھ ڈالر کی خطیر رقم چھوڑی اور کہا کہ اس رقم سے ’’میرے دوستوں‘‘ کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کا اہتمام کیا جائے۔
٭ لیڈز (برطانیہ) کے ایک کیمسٹ نے وصیت لکھی کہ اس کا ایک ہزار ڈالر کا ورثہ اس کے بیٹے اور بیٹی کو اس وقت دیا جائے جب ان کی عمریں پچاس پچاس برس ہوجائیں۔ متوفی کے مطابق انسان سن شعور کو ۵۰ برس کے بعد پہنچتا ہے۔
——