وہ اپنے باپ کے قاتل کے تعاقب میں چیتے کی طرح دیوانہ وار بھاگ رہا تھا۔ قاتل کی ٹانگوں کو بھی موت کے خوف و ہراس نے بے پناہ قوت بخش دی تھی، اس لیے وہ بھی اس سے جان چھڑانے کے لیے آندھی کی طرح اڑا جا رہا تھا۔ دونوں مسلسل اور پے درپے گولیوں کا تبادلہ کر رہے تھے۔ گولیاں ان کے سروں پر سے گزر رہی تھیں۔ دونوں ان سے اپنی جان بچانے کی تگ و دو بھی کرتے تھے اور بھاگنے میں بھی مصروف عمل تھے۔ قاتل نے مقتول کے وارث سے چھپنے کے لیے کھیت، باغ، کھنڈر، کھڈ، کھائی، پگڈنڈی، غرض کوئی جگہ بھی نظر انداز نہ کی۔ لیکن وہ تیر کی طرح اس کا پیچھا کر رہا تھا اور اسے ہر حالت میں اور ہر قیمت پر جالینے کا تہیہ کیے ہوئے تھا۔
اب قاتل پہاڑ کی ایک بلند و بالا چوٹی تک پہنچ چکا تھا، جس کے دامن میں پانی سے لبالب بھرا ہوا دریا بہہ رہا تھا۔ موت اس سے چند قدم کے فاصلے پر تھی اور قریب تھا کہ وہ اس پر باز کی طرح جھپٹ پڑتی اور اپنے فولادی پنجوں میں مضبوطی سے جکڑ لیتی۔ لیکن اسی اثنا میں قاتل نے آنکھیں بند کر کے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ وہ بھی رکا نہیں اور اس کو دیکھتے ہی اس کے پیچھے دریا میں کود پڑا اور یوں دو انسان خونخوار مگرمچھوں کی طرح دریا کی لہروں کے ساتھ بر سر پیکار رہے۔ جب سرکش اور ہنگامہ خیز لہریں انہیں دریا کی تہہ میں لے جانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی تھیں تو یہ بھی انہیں اپنے مضبوط تھپڑوں کا نشانہ بناتے اور یوں ان سے اپنا پیچھا چھڑانے کی حتی الوسع کوشش کرتے تھے۔
دونوں خاصے تھک چکے تھے لیکن دریا کی قوت کے سامنے اپنی ہمت کے ہتھیار ڈالنا بزدلی گردانتے تھے۔ آخر کار مشتعل موجیں ان کے جسموں کو دھکیلنے لگیں اور وہ تھک ہار کر دوسرے کنارے تک پہنچ گئے۔ اس دوران قاتل کا پاؤں مکمل طور پر اس کی دسترس میں تھا لیکن دریا کے کنارے پھیلے ہوئے کیچڑ پر پھسلنے کی وجہ سے وہ اس کی زد سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
قاتل کے پاس پھر بھاگ اٹھنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور اس نے بھی اس کے تعاقب کو اپنا فرض منصبی جانا۔ اس مرتبہ قاتل نے سامنے گنے کے کھیت کو اپنی کمین گاہ اور پناہ گاہ کے طور پرمنتخب کیا۔ اس نے بھی تیر کی طرح پوری برق رفتاری سے اس کا پیچھا کیا۔ گنوں کے ٹوٹنے اور گرنے کی مخصوص آوازیں ٹک، کٹ، گڑک، گڑاک صاف سنائی دے رہی تھیں اور یوں قائل کے پیر کھیت میں اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش میں تھے۔ اور وہ بھی اس کے بنائے ہوئے راستے پر گامزن ہوکر اس کا پیچھا کر رہا تھا۔
قاتل سمجھ گیا کہ کھیت اس کے لیے ایک موزوں پناہ گاہ کا کام سر انجام نہیں دے سکتا لہٰذا دوسرے سرے تک پہنچنے کے بعد جب اس نے پگڈنڈی کے آگے وسیع و عریض علاقے کا بغور جائزہ لیا تو ایک بلند و بالا ٹیلے کے نیچے واقع تمام زمین اسے عمیق کھڈوں اور اتھاہ کھائیوں کے مانند نظر آنے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے تنگ و تاریک قبروں نے اس کے لیے ایک خونخوار اژدھے کی طرح اپنے خوفناک جبڑے کھول دیے ہوں۔ اس نے بلا پس و پیش ان میں سے ایک گہرے کھڈ کا انتخاب کر کے اس میں چھلانگ لگا دی۔
اور جب مقتول کا وارث کھیت میں سے ہوکر پگڈنڈی تک پہنچ گیا تو اس نے گرد و نواح میں اس کا سراغ لگانے کی مقدور بھر کوشش کی مگر اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ تب اس نے اپنے آپ کو باور کرانے کی سعی کی کہ اس نے ان کھڈوں میں سے ضرور کسی کھڈ کو پناہ گاہ کے طور پر اپنایا ہوگا۔ لہٰذا وہ ان کھڈوں کا بہ نظر غائر جائزہ لینے لگا۔ اس دوران زمین پر کسی کے کیچڑ کے لتھڑے قدم کے خون آلود نشانات دکھائی دینے لگے جو ایک کھڈ کے دھانے تک پہنچ کر ختم ہوگئے۔ اس کی تمام تر توجہ متذکرہ کھڈ پر مرکوز ہوئی اور جب وہ اس کی تہہ کو ایک گہرے کنویں کے مانند بغور دیکھنے میں منہمک ہوا تو اس نے اسے وہاں ایک خوفناک اور خطرناک سانپ کی طرح سکڑ کر ہانپتے ہوئے دیکھا۔
’’میں قسم کھاچکا ہوں کہ تم مجھ سے سات زمینوں کی تہہ میں بھی نکل کر بچ نہیں سکتے اور میں تمہیں پکڑ کر ہی دم لوں گا۔‘‘ اس کی آواز کی گونج بجلی کی طرح کھڈ میں سنائی دینے لگی۔
اس نے اپنے پستول کو جس میں صرف ایک گولی تھی، اٹھایا اور جب اس کا نشانہ سادھنے کے بعد اسے چلانے کی کوشش کی تو گولی نہ چل سکی۔ اس نے اپنے آپ کو مکمل طور پر موت کی آغوش میں پایا اور دیوانہ وار اپنی سرخ اور قہر آلود آنکھوں سے کبھی پستول کو اور کبھی ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس نے پھنسی ہوئی گولی کو چلانے کی بھرپور کوشس کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہوا۔ اب اس کی کیفیت جال میں پھنسے ہوئے شکار کی سی تھی۔ اوپر سے مقتول کے وارث کے پستول لوڈ کرنے کے آواز آئی اور اسے یقین ہوگیا کہ حریف کی گولی پستول کی دہانے سے نکلنے کے لیے بے تاب ہے۔ اسی اثنا میں اس نے چیخ کر کہا:
’’گولی مت چلاؤ۔ میں اوپر تمہارے پاس آرہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بلا تردد اوپر چڑھ آیا۔
اس نے اپنا پستول قاتل کے سر سے لگا کر اس کا منہ گاؤں کی طرف پھیر دیا اور اسے مسلسل چلنے کی تاکید کی، اور یوں دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ قاتل خوف و ہراس کی وجہ سے لرز رہا تھا۔ اس کے پاؤں کانپ رہے تھے اور وہ مردوں کی طرح بے حس و حرکت پاؤں بہ امر مجبوری گھسیٹ رہا تھا۔ وہ پیچھے اور ادھر ادھر دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا، کیوں کہ اسے حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس راستے کو خاموشی سے اپنائے جس پر چل کر وہ یہاں تک پہنچ چکا ہے۔ حتی کہ دونوں گاؤں کے اس مقام تک پنچ گئے جہاں اس کے باپ کو اس قاتل نے جواب مکمل طور پر اس کے پستول کی زد میں تھا، موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور جسے پکڑنے کے لیے اسے اتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مقتول کا خون تا حال جوں کا توں تھا جب کہ لاش کو دفنا دیا گیا تھا۔
ادھر قاتل کرب سے مغلوب ہوکر نہایت عاجزی، مایوسی اور ملتجی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگا لیکن اس نے چیخ کر اسے کہا:
’’مت رکو! عدالت تک پہنچنے کے لیے ابھی فاصلہ باقی ہے۔‘‘
اور پھر جب فاصلہ طے کرنے کے بعد دونوں گاؤں کے سرے پر واقع مسجد تک پہنچ گئے تو اس نے قاتل کو اپنے جوتے اتارنے کا حکم دیا۔ دونوں نے اپنے اپنے جوتے اتارے، مسجد میں داخل ہوئے اور مسجد کی خوشنما دیدہ زیب محراب کے سامنے دو زانوں ہوکر بیٹھ گئے۔
اس نے طاق سے قرآن شریف اٹھایا اور نہایت عقیدت و احترام سے چوم کر قاتل کے عین سامنے رکھ دیا اور کہنے لگا:
’’کیا تمہیں یاد پڑتا ہے کہ اسی مسجد میں، اسی جگہ معزز لوگوں کے روبرو تم نے اسی قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر اور اسے گواہ بنا کر میرے باپ سے ہمیشہ کے لیے اپنی دشمنی ختم کرنے کا حلف اٹھایا تھا اور یوں ہماری آپس میں صلح ہوگئی تھی۔‘‘
قاتل کی سرخ تھکی ہوئی آنکھوں سے دو صاف اور شفاف آنسو گرے اور اس نے سسکیوں سے بھری ہوئی آواز سے کہا: ’’ہاں! مجھے اچھی طرح یاد ہے لیکن میں اب اپنی غلطی پر بے حد نادم ہوں۔‘‘ پھر وہ چیخ چیخ کر رونے لگا اور ندامت و شرمساری کی شدید جذبات سے مغلوب ہوکر اس کے قدموں میں گر پڑا۔ اس نے جھک کر اسے اٹھایا، اور محراب کے قریب لے گیا اور اس کے سر کو زمین کے ساتھ اس انداز میں جھکا دیا کہ وہ سر بسجود ہوا اور پھر اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف کر کے کہنے لگا۔۔۔۔۔
’’اے اللہ! میں نے تیرا باغی تیری عدالت تک پہنچا دیا اور اب یہ تیرے ابدی فیصلہ کا منتظر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑتا ہوا اکیلا مسجد سے باہر نکل آیا۔ lll