ہمارے والد صاحب نے بچپن میں گاؤں کا ایک واقعہ سنایا تھا۔ ایک شخص کے ہاتھ میں ایک گنا تھا جسے وہ چوس رہا تھا۔ گھر آیا تو اس کے سامنے دو بچے تھے، دائیں ہاتھ پر اس کا بیٹا اور بائیں ہاتھ پر بھتیجا۔ ایک اس کا اپنا بیٹا اور دوسرا اس کے بھائی کا بچہ۔ دونوں نے گنے کا مطالبہ کیا۔ اس نے اس کے دو ٹکڑے کیے اور آدھا آدھا دونوں کو دے دیا۔ اس سارے واقعے کو بڑا بھائی دیکھ رہا تھا۔ چھوٹے بھائی نے جب گنا توڑا تو اس کے دائیں ہاتھ میں گنے کا اوپری حصہ تھا اور اس طرف بیٹا کھڑا تھا، بائیں ہاتھ میں جڑ کا حصہ تھا جس طرف بھتیجا کھڑا تھا۔ اس نے دائیں ہاتھ والا ٹکڑا بائیں طرف کھڑے بچے کو دے دیا اور بائیں ہاتھ والا دائیں طرف کھڑے بچے کو دے دیا اور دونوں بچے خوشی خوشی گنا چوسنے لگے۔ تصور بھی ہے اور حقیقت بھی کہ جڑ کا حصہ زیادہ میٹھا ہوتا ہے، اس لیے بڑے بھائی کو یہ ناگوار گزار۔ اس نے کہا کہ ’’ہتھ پھیر‘‘ ہوگئی۔ میں اسے برداشت نہیں کرسکتا۔ پورے پریوار کو جمع کیا اور کہا کہ آج ہی زمین جائیداد بانٹ دو۔ تم نے میرے بچے کو الگ نظر سے دیکھا اور اپنے بچے کو الگ نظر سے۔ لوگوں نے بہت سمجھایا کہ یہ معمولی بات ہے، اس کو پکڑ کر مت بیٹھو مگر ہوا نہیں۔ آخر کار اچھا خاصا متحد گھر دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔
یہ ایک معمولی سی مثال ہے عدمِ برداشت کی۔ اس سے کہیں زیادہ شدید نوعیت کے واقعات ہم اپنے سماج میں دیکھتے رہتے ہیں۔ معاملہ گھر اورخاندان کو ہو یا سماج اور معاشرے کا، عدم برداشت اب کلچر بنتا جارہا ہے۔ہر شخص ماتھے پر بل ڈالے جھنجھلایا اور غصے سے بھرا ہوا ملے گا۔ لہجوں کی کرختگی اور پیشانیوں پر پڑے بل معاشرے میں وبا کی طرح بڑھنے والی عدم برداشت کی روش کے غماض ہیں۔نہ غلطی تسلیم کرنے کی کوئی روایت ہم نے ڈالی ہے اور نہ ہی ہم اس کا حوصلہ رکھتے ہیں۔چندروپیوں کی بروقت عدم ادائیگی کے لیے ساتھی یا دوست کا قتل، سڑک پر گاڑی ٹچ ہوجانے پر مارپیٹ اور تشدد سے کون واقف نہیں؟ اور گھروں کے اندر میاں بیوی یا باپ بیٹے، ساس بہو، نند بھاوج کے بگڑتے رشتے، ٹوٹتےبکھرتے خاندان، ان کی وجہ اگر تلاش کی جائے تو کہیں نہ کہیں عدم برداشت کو اس کی جڑ میں دیکھا اور محسوس کیا جائے گا۔
ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ہمارے نوے فیصد مسائل کی وجہ عدم برداشت ہے کیونکہ اس سے بہت سی ذہنی‘ نفسیاتی ،اخلاقی اور سماجی قباحتیں جنم لیتی ہیں۔
برداشت پیدا کریں
ایک دوسرے کو برداشت کرنا،میانہ روی ،معاف کردینا ،عفو و درگزر،تحمل اوربردباری وہ بنیادی اینٹیں ہیں جن سے مضبوط خاندان اور مہذب معاشرہ بنتا ہے۔یہی وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے گھروں اور معاشرے میں چین و سکون کو قیام اور باہمی رواداری کو فروغ ملتا ہے۔جن معاشروں میں ان خوبیوں کا فقدان ہوتا ہے وہاں مشتعل مزاجی،بات بات پر بگڑنا، جارحیت، شدت پسندی، غصہ، لاقانونیت، بے چینی، سراسیمگی اور نفرت و تشدد کی فضا ہموار ہوتی ہے جوافراد، خاندان اور معاشرے کا امن و سکون تباہ وبرباد کردیتی ہے۔ معاشرے میں فروغ پذیر عدم برداشت کی جن بنیادی وجوہات کا ذکراوپر کیا گیا ہے بلاشبہ اس سے انکار نہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عدم برداشت کے داخلی وخارجی اسباب کے ساتھ ساتھ سب سے اہم وجہ تربیت کا فقدان اور قرآن وسنت کی تعلیمات بالخصوص اسوۂ حسنہ ﷺ سے روگردانی ہے۔
آئیے دیکھیں کہ قرآن و سنت نے فرد اور معاشرے میں برداشت کو فروغ دینے کے لیے کیا احکامات دیئے ہیں۔یہ وہ ہدایات ہیں جن پر ہم عمل پیرا ہو کر نہ صرف معاشرے کو امن وآشتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں بلکہ خود بھی اپنی زندگی کو پرسکون بنا سکتے ہیں۔قرآن میں ہے کہ :’’انہیں چاہیے کہ معاف کردیا کریں،انہیں چاہیے کہ درگزر کردیا کریں،کیا تم نہیں چاہتے ہو کہ اللہ تمہیں معاف کردے؟‘‘(القرآن)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :راست روی،خوش خلقی اور میانہ رویہ نبوت کا پچیسواں حصہ ہے۔(ابوداؤد)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دس سال حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت کی مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اف تک نہیں کی اور نہ کبھی فرمایا کہ تونے ایسا کیوں کیا؟ اور تونے ایسا کیوں نہیں کیا۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی ہدایت حضورپاکؐ کے اس قول سے ملتی ہے کہ ’’پہلوان وہ نہیں جو اپنے مقابل پہلوان کو پچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو غصہ کے وقت خود پر قابو رکھے۔‘‘
قوت برداشت کا فروغ
کوئی کتاب ،فلسفہ یا تعویذ برداشت نہیں پیدا کرسکتی، برداشت بھی اپنانے سے آتی ہے۔اگر آپ زندگی میں جھوٹی جھوٹی باتوں پر اپنا موڈ خراب کر لیتے ہیں یا آپ کو بہت جلدی غصہ آجاتا ہے تو آج ہی سے چھوٹی چھوٹی باتوں کونظر انداز کرنا شروع کردیں، برداشت کی عادت ڈالیں۔ جس قدر آپ کی برداشت بڑھتی جائے گی آپ کی زندگی میں سکون بڑھتا جائے گااور آپ خود کو ریلیکس محسوس کریں گے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: علم سیکھنے سے اور حلم (بردباری) کوشش کرنے سے آتاہے، اور جو شخص خیر کی کوشش کرتا ہے اسے خیر دے دی جاتی ہے اور جو شر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اسے شر سے بچالیا جاتا ہے۔
حلم اپنائیے
حلم کی صفت ہی دراصل عفوودرگزر،تحمل،بردباری اور برداشت کی صفت پیدا کرتی ہے اور حلم نام ہے جلد بازی کوچھوڑنے،امور کی انجام دہی میں ٹھیراؤ،غور وفکرسےقدم اٹھانے،تدبرکرنے،ری ایکشن سے باز رہنے،شدید غصے،جوش،اشتعال اور بے جا جذبات میں اپنے آپ کو کنٹرول کرنے،طاقت کے باوجود انتقام نہ لینے اورکسی کی غلطی پر صرفِ نظر کرتے ہوئے معاف کرنے کا۔امام ابن قیم کا قول ہے کہ :علم،حلم ،عفو اور قدرت ،جس میں یہ چار چیزیں جمع ہو جائیں تو کائنات میں اس سے خوبصورت کوئی چیز کوئی انسان نہیں دیکھے گا۔عبدالقیس قبیلہ کے لوگ نبی کریم ﷺ کی زیارت و ملاقات کے لئے مدینہ طیبہ آئے اور مسجد نبوی کے سامنے پہنچے ،تو نبی کریم ﷺ کو دیکھ کر فرط شوق سے اپنے اونٹوں سے کود پڑے،اور دوڑتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جاپہنچے ،نبی کریم ﷺ نے ان کو اس بیقرار اور مضطرب حالت میں دیکھا تو سکوت فرمایا، ان سے کچھ نہیں کہالیکن یہ لوگ عظیم المرتبت شخصیت اور اپنے سردار یعنی (اشج) کی زیر قیادت بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تھے،جن کا اصل نام (منذر )تھا ،ان کی کیفیت بالکل دوسری تھی، وہ پہلے اپنی قیام گاہ پر اترے وہاں انہوں نے اپنے تمام رفقاء کا سامان جمع کیا ،اور ساری چیزوں کو باندھ کر اطمینان کے ساتھ نہائے دھوئے، نہایت نفیس کپڑے زیب تن کئے، اور پھر انتہائی وقار و تمکنت کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مسجد نبوی میں آئے، اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی، دعا مانگی اور اس کے بعد نبی کریم ﷺ کی خدمت حاضری دی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ وضع اور روش بہت پسند آئی اور ان سے فرمایا: تمہارے اندر جو دو خوبیاں ہیں ان کو اللہ بہت پسند کرتا ہے۔حلم و بردباری(الحلم) اور دوسرے توقف و آہستگی(الاناۃ) یعنی سوچ سمجھ کر کام کرنا ، جلد بازی نہ کرنا۔ (مسلم)
معذرت اور شکریے کی عادت
اپنی غلطی پر Sorryکہہ کر معذرت کا اظہار کرنا اور کسی کے اچھے رویے پر اس کا شکریہ ادا کرنے سے نہ صرف معاشرہ خوشگوار ہوتا ہے بلکہ خود فرد بھی اپنے اندر فرحت و انبساط کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی باتوں اور کاموں سے بچو جن سے بعد میں معذرت کرنی پڑے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔(ابو داؤد)
یہ بات ذہن میں رکھیے کہ انسان ہونے کے ناطے غلطی آپ سے بھی ہو سکتی ہے،کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں بلکہ انسان تو ہے ہی خطاکا پتلا، ہمیں یہ الہامی ہدایت یاد رکھنی چاہیے کہ :’’ہر انسان گناہ گار ہے لیکن ان میں سے بہتر وہ ہے جو توبہ کرلے۔‘‘ آپس کے معاملات میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا بڑے عزم و حوصلے کی بات ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جواپنے مسلمان بھائی کے لئے تواضُع اختیار کرتا ہے اللہ کریم اسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو اُس پر بلندی چاہتا ہے، اللہ پاک اسے پستی میں ڈال دیتا ہے۔
حسنِ ظن
اپنے بھائی سے متعلق بدگمان ہو کر ہم اپنا جتنا خون جلاتے ہیں اس کے برعکس اگر ہم حسنِ ظن کا رویہ اختیار کر لیں تو ہمیں خود اندازہ ہو کہ اس کی کتنی افادیت ہے۔قرآن بدگمانی سے منع کرتا ہے اور بعض گمانوں کو گناہ قرار دیتا ہے۔خود اللہ رب العزت اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ :میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں۔(مسلم) امام ابن سیرین اور امام ابو جعفر رحھما اللہ سے منقول ہے ،فرماتے ہیں:’’جب تمہیں اپنے بھائی کی طرف سے ایسی بات پہنچے جو تمہیں اچھی نہ لگے تو اپنی طرف سے کوشش کرو کہ ایک کم ستر69عذر تلاش کرلو، ہو سکتا ہے یہ مجبوری آگئی ہو یا کوئی تو بات ہوگی جس کی وجہ سے معاملہ اچھے طریقہ سے طے نہیں پاسکا اس کے بعد بھی اگر تمہیں کوئی عذر نہ ملے پھر بھی سوچو شاید اس کے پاس کوئی عذر ہو جس کو میں پہچان نہیں سکا۔‘‘(شعب الایمان للبیہقی)
سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعض صحابہ نے مجھے باقاعدہ لکھ کر نصیحت کی تھی کہ کسی بھی مسلمان بھائی سے کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو جب تک اس سے اچھا مطلب مراد لیا جا سکتا ہے بدگمان نہ ہونا ۔
غصےپر قابو
کہتے ہیں غصہ حماقت سے شروع ہو کر ندامت پر ختم ہوتا ہے۔اگر کوئی غصہ کرے اور اسے کہا جائے کہ آپ اتنا غصہ کیوں کرتے ہیں تو اس کا جواب کچھ یوں ہوتا ہے:”ہم غصہ تھوڑا ہی کرتے ہیں وہ تو ہمیں غصہ دلایا جاتا ہے۔‘‘ گویا ان کی ذات کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے پاس ہے۔ اگر آپ غصے میں ہیں،آپے سے باہر ہورہے ہیں،برداشت سے باہر ہورہے ہیں،آپ کھڑے ہوئے ہیں تو فوراًبیٹھ جائیں،بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں، خاموش ہوجائیں،غصہ پھر بھی نہیں جارہا، برداشت نہیں ہورہا تووضو کر لیں۔ہمارے حضورؐ نے ہمیں اسی کی ہدایت فرمائی ہے۔
معاف کرناسیکھیں!
معاف کرنے سے انسان اندر سے خود کو تقویت پاتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ خوش رہنے کے اصولوں اہم اصول میں دوسروں کو معاف کرنابھی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو مومن لوگوں سے میل جول رکھے اور ان کی ایذاء پر صبر کرے اسے زیادہ ثواب ہوتا ہے اس مومن کی بہ نسبت جو لوگوں سے میل جول نہ رکھے اور ان کی ایذاء پر صبر نہ کرے۔ (سنن ابن ماجہ) ایک آدمی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا ،عرض کرنے لگا کہ میں اپنے غلام کو کتنی مرتبہ معاف کروں؟آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے،دوبارہ سوال کیا گیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے،تیسری بار استفسار پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:ایک دن میں ستر مرتبہ معاف کیا کرو۔(ابو داؤد ،جامع ترمذی) حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ایک باندی تھی۔ وہ ان کو گرم پانی سے وضوکرارہی تھی۔ اچانک ایسا ہوا کہ لوٹا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور حضرت حسن کے سر پر گر پڑا جس کی وجہ سے ان کا سر زخمی ہوگیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خشمگیں نگاہوں سے باندی کی طرف دیکھا تواس نے موقع محل کی نزاکت سمجھتے ہوئے آیت کریمہ کاایک ٹکڑا تلاوت کیا۔ والکاظمین الغیظ،حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے اپناغصہ پی لیا، اس نے آگے کا ٹکڑا تلاوت کیا۔ والعافین عن الناس حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے تجھ کو معاف بھی کردیا۔ اس نے آیت کریمہ کا آخری ٹکڑا تلاوت کیا کہ واللہ یحب المحسنین اس پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا جاؤ میں نے تم کوخدا کیلئے آزاد کردیا۔
ہمیں اپنے اندر برداشت پیدا کرنے کے لیے خود بھی یہ سوچنا چاہیے کہ قدرت نے انسانی سوچ میں تنوع رکھا ہے یہاں مختلف الخیال و مزاج لوگ ہیں،ذہنی ہم آہنگی کسی طور ممکن نہیں۔ یہ خواہش رکھنا کہ مخاطب آپ کاہم خیال بن جائے، آپ کی کسی بات سے اختلاف نہ کرے اور نہ ہی سامنے والا کوئی ایسا طرز عمل اختیار کرے جو آپ کی افتاد طبع کے خلاف ہو تو ایسا ممکن نہیں، اس لیے ضروری ہے کہ انسانوں کو انسان ہونے کے ناطے اس کی نفسیات کو سمجھا جائے اسے مارجن دیا جائے،پرفیکشن تلاش نہ کیا جائے۔ یاد رکھیے پرفیکشن تلاش کرنے والا تنہا رہ جاتا ہے جب کہ وہ خود بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ کئی حوالے سے اس میں بھی خامیاں ہوتی ہیں۔ کسی کا قول ہے کہ:
Always remember that life is 10% what happens to you and 90% how you react to it.
ہم کسی بھی ردعمل یا معاملات میں بے سوچے سمجھے فوری رد عمل کے عادی ہیں۔ ہمارا عمل عقل و شعور اور دینی واخلاقی فہم کے بجائے جذبات و احساسات اور نفس کے تقاضوں کے تحت ہوتا ہے۔ عدم برداشت اور غصے کی نفسیات سمجھنے کے لیے ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی بھی رد عمل کا آغاز یاہمارے رویے کی ابتداجذباتیت سے ہوتی ہے،ہمارے جذبات ہمارا موڈ طے کرتے ہیں اور یہ موڈ ہماری شخصیت بناتے ہیں۔ہمارے ہر ایموشن کا دورانیہ 12 منٹ ہوتا ہے۔مثلاً :غصہ بھی ایک جذبہ ہے، جو چند منٹ بعد ختم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ہم اگر غصے کے بارہ منٹوں کو مینج کرنا سیکھ لیں تو پھر ہم غصے کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور اللہ اور رسول کی ہدایات کو اپنے ذہنوں میں راسخ رکھیںتو برداشت اور عدم برداشت سے جڑے بہت سے مسائل سے نجات پا سکتے ہیں۔