آج زندگی کے اس موڑ پر پہنچ کرمیں یادِ ماضی میں کھوجاتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو۔ اپنے دوبیٹوں اور ایک بیٹی کی پرورش میں زندگی کیسے گزرگئی اس کا اندازہ بھی نہ ہوا۔ شوہر کی آمدنی محدود ہونے کی وجہ سے میں گھروں میں ٹیوشن پڑھاتی تھی۔ بڑے مشکل حالات میں تعلیم و تربیت کے بعد ہم نے ان بچوں کی شادی کردی۔
دونوں بیٹوں کو M.B.A.اور انجینئرنگ کرانے کے لیے مجھے سارے زیورات فروخت کرنے بڑے مگر پھر بھی مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ میرے دونوں بیٹے پڑھ لکھ کر اچھی نوکری پاجائیں گے اور بڑھاپے میں ہماری دیکھ بھال کریں گے۔
پہلے تو دونوں بیٹے ہماری ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے لیکن شادی کے بعد بڑے بیٹے نے اپنا تبادلہ دہلی کرالیا۔ اور چھوٹا امریکہ چلا گیا۔ بیٹی اپنی گھر گرہستی میں خوش ہے۔ کیونکہ وہ جوائنٹ فیملی میں رہتی ہے اس لیے خواہش کے باوجود وہ ہمیں اپنے گھر نہیں بلاپاتی۔
اب ہم میاں بیوی گھر پر تنہا رہ گئے ہیں۔ آج کل میری طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ اس لیے گھر کا کام کاج کرتے ہوئے تھک جاتی ہوں۔شوہر دل کے مریض ہیں۔یہ سوچ کر مجھے بھی بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ کہیں رات میں طبیعت خراب ہوگئی تو میں اکیلے ڈاکٹر کے پاس کیسے لے جاؤںگی۔
اس سلسلے میں میں نے کئی بار بیٹوں سے بات چیت بھی کی لیکن وہ لوگ نہ یہاں ہمارے پاس آکر رہنے کو تیار ہیں اور نہ ہمیں اپنے ساتھ لے جانے کو راضی ہیں۔ مکان اپنا ہے اور شوہر کی پنشن سے کسی طرح گزارا ہوجاتا ہے لیکن ہماری دواؤں اور ڈاکٹر پر کافی پیسے خرچ ہوجاتے ہیں۔بیٹوں کو ہماری کوئی فکر نہیں ہے۔ ہاں کبھی کبھار سال دو سال میں کچھ پیسے بھیج دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ہم لوگوں کو کوئی خبر خیریت نہیں لیتے۔ جن بچوں کی خاطر ہم نے اپنی ساری خوشیاں قربان کردیں آج جب وہ بچے ہماری خبر نہیں لیتے کہ ہم کس حال میں ہیں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ایسے میں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں؟
پرمیلا دیشمکھ، پونہ
ماہر نفسیات کی رائے
بڑھاپے میں آپ کے بچوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ آج اس قسم کے مسائل سے تقریباً ملک کے ۶۰ فیصد افراد دوچار ہیں اگر آپ اس قسم کے مسئلہ سے دوچار ہیں تو آپ کو ان باتوں کاخیال رکھنا ضروری ہے۔
٭ سب سے پہلے ناگفتہ بہ حالات کے پیش آنے کا خیال چھوڑ دیں ممکن ہے ایسے حالات پیش ہی نہ آئیں۔
٭ اگر کبھی ایسے حالات آ بھی جائیں تو آس پاس کے لوگوں اور پڑوسیوں سے ضرور مدد مانگیں ضرور کوئی نہ کوئی آپ کا تعاون کرے گا۔
٭ حتی الامکان رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے تعلقات خوشگوار رکھیں کیونکہ ضرورت کے وقت وہ آپ کا تعاون کریں گے۔
٭ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور صبح و شام گھر کے قریب ہی چہل قدمی کریں۔
٭ اپنے بچوں سے واضح طور پر کہیں اگر ہمیں اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے ہو تو ہمیں ضروری اخراجات کے لیے پابندی کے ساتھ رقم بھیجو تاکہ ہم اپنی ضروریات زندگی فراہم کرسکیں۔
٭ اگرآپ کے گھر میں کچھ مزید گنجائش ہو تو گھر کے ایک حصہ کو کرایہ پر لگا دیں اگر جگہ کم ہو تو ایک کمرہ میں پیئنگ گیسٹ بھی رکھ سکتی ہیں۔
٭ گھر سے باہر نکل کر آس پاس کے ہم عمر لوگوں سے تعلقات بڑھائیں۔
٭ اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں، اپنی پسند کا میوزک سنیں، باغبانی کریں، سماجی اور مذہبی سرگرمیوں میں فعال رول ادا کریں، اس سے آپ جلد ہی اپنے اندر ایک بڑی تبدیلی محسوس کریں گی۔
(جواب:اثیم گپتا ماہرنفسیات)
——