عذاب

خالدہ پتافی

وہ اعراف کی بلندیوں پر کھڑی تھی۔ اپنی قسمت کا سب سے بڑا فیصلہ ہونے کی منتظر… آہ یہ کیسا انتظار تھا۔ ایک طرف جنت کی رعنائیاں تھیں، کہ کیا کہنے۔ یوں لگتا تھا جیسے فضا میں چاندی کے ورق اڑ رہے ہوں۔ خوبصورتی کی انتہا جسے آج تک اس نے نہ دیکھا نہ سنا۔اور دوسری طرف دوزخ تھی۔ ہولناکی کی انتہا جسے آج تک اس نے نہ دیکھا نہ سنا اور جسے دیکھ کر دل دہلا جارہا تھا۔
ایک طرف جنت کے باسی تھے۔ چمکتے دمکتے شاداب چہروں والے ایسے خوش و خرم جنہیں کوئی غم کوئی فکر نہ تھی، اور دوسری طرف کلونس چھائے ہوئے غم کی انتہائی گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے چہرے۔ جن کے آگے دنیا جہان کے سب سے زیادہ غم زدہ لوگوں کی تکلیف بھی ہیچ نظر آتی تھی۔ ایک طرف خوشیوںکے ایسے شادیانے بج رہے تھے، کہ جنہیں سن کر خوشی کی لہر روئیں روئیں میں سما جاتی، اور انسان خوشی سے جھوم اٹھتا، اور دوسری جانب ایسی آہ و بکا کہ ساری فضا اس ہولناک آہ و زاری سے لرز رہی تھی۔ تب وہ دوزخ کی طرف سے منہ پھیر کر جنت کی طرف اپنا رخ کرلیتی، اور اپنے ربِ کریم سے اپنی بخشش کی دعا مانگنے لگتی۔ ایسے میں ایک خوبصورت ننھی منی پری نورانی چہرے اور خوبصورت پنکھوں کے ساتھ اڑتی ہوئی آتی اور اس کی بانہوں میں سما کر اس کے سینے سے لگ جاتی۔ اس کے سینے میں ٹھنڈ سی پڑجاتی۔ سکون سے اس کی روح تک سرشار ہوجاتی۔ وہ ننھی پری کچھ دیر اس کے سینے سے چمٹی رہتی۔آنکھیں موندے، پھر وہ یکدم آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھتی۔ اس پری کی آنکھوں میں اس کے لیے ہزاروں گلے شکوے ہوتے۔ کچھ دیر میں وہ گلے شکوے نفرت کے شعلوں میں بدلنے لگتے۔ پھر وہ اس کی بانہوں سے نکل کر اپنے پنکھ پھیلاکر اڑتی ہوئی اس کے گرد دو تین چکر لگاتی، اور اسے دوزخ کی طرف دھکا دے دیتی۔ اس کے ساتھ ہی ثانیہ کی چیخیں سارے گھر میں گونجنے لگتیں۔
یہ خواب اسے پچھلے کئی سالوں سے آرہا تھا۔ پہلے پہل سال یا چھ ماہ بعد اسے یہ خواب نظر آتا تھا، لیکن اب تو تقریباً ہر مہینے اُسے یہ خواب ضرور نظر آتا۔ یہ خواب دیکھنے کے بعد دو تین دن تک اس کی حالت بہت خراب رہتی۔ اکثر یا تو اسے بخار ہوجاتا یا پھر وہ پھٹی پھٹی نظروں سے ہر طرف دیکھتی رہتی، اور پھر دو تین دن کے لیے یوں چپ ہوجاتی جیسے اس کی زبان بند کردی گئی ہو۔
سب لوگوں کی اس کے یوں خواب میں ڈرجانے کے متعلق اپنی اپنی رائے تھی، کئی لوگوں کا خیال تھا کہ شاید ثانیہ پر کسی نے تعویذ کررکھے ہیں، اور کچھ کا خیال تھا کہ وہ کہیں کسی جگہ جنوں یا بدروحوں سے ڈرگئی ہے۔ جواَب خواب میں اسے بھی ڈراتے ہیں۔ اس کی ساس اور نندوں ماں اور بہن بھائیوں نے پتہ نہیں کہاں کہاں سے تعویذ لاکر کچھ اس کے گلے میں ڈالے ہوئے تھے کچھ پانی میں گھول کر اسے پلاتے تھے کچھ گھر کے صحن میں کھڑے درخت پر لٹکائے تھے۔ کچھ باہر کے دروازے کی درسال (دہلیز) اور کچھ اس کے کمرے کے دروازے کا فرش اکھاڑ کر دبائے گئے تھے۔ پھر بھی کوئی فرق نہ پڑا تھا۔ سب اس سے اس کے خواب کے متعلق پوچھتے کہ اس نے خواب میں کیا دیکھا۔ لیکن ایک چپ تھی۔ جو اسے لگی ہوئی تھی۔ پھر اب تو اس خواب کو دیکھتے دیکھتے کئی سال ہوگئے تھے اس کے بچے جوان ہوگئے تھے۔ دونوں بڑی بیٹیاں شادی کے لائق ہوگئی تھیں۔ بلکہ بڑی بیٹی تو کہیں بات بھی چل رہی تھی۔ اکلوتا بیٹا یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ نندیں اپنے اپنے گھروں والی ہوگئی تھیں گھر میں صرف بوڑھی ساس تھی، جو اس کی دلدوز چیخیں سن کر اس کے کمرے میں پہنچ جاتیں اور کچھ نہ کچھ پڑھ کر اس پر پھونکتی رہتیں۔ نعیم اس کا شوہر اس کی حالت پر بے حد پریشان ہوجاتا۔ وہ کئی ڈاکٹروں سے اس کا علاج کرواچکا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے عقیدے کے خلاف اسے کئی مزاروں اور درگاہوں پر لے جاچکا تھا۔ ڈاکٹروں نے تو اسے نفسیاتی مسئلہ قرار دے دیا تھا۔ اس کے ذہن میں کوئی ایسی گانٹھ پڑگئی تھی۔ جو کھلنے میں نہیں آرہی تھی۔ وہ اُسے ماہرِ نفسیات کے پاس بھی لے گیا تھا۔ لیکن ماہرِ نفسیات کا کہنا تھا، کہ جب تک مریضہ خود کو آپریٹ نہیں کرے گی تب تک علاج ممکن نہیں، اور ثانیہ پتہ نہیں شعوری یا لاشعوری طور پر ماہر نفسیات سے کوآپریٹ کرنے پر تیار نہیں تھی۔ وہ اپنا خواب کس کو نہ بتاتی تھی، کہ آخر خواب میں وہ ایسا کیا دیکھتی تھی۔ جو یوں چیخیں مار کر اٹھ بیٹھتی۔ پسینے میں شرابور اس کا سارا جسم لرز رہا ہوتا تھا۔ پھر دو تین دن تک وہ ابنارمل رہتی تھی۔ اس کے بعد خود بخود ٹھیک ہوجاتی۔
دو بھائیوں کے بعد جب ثانیہ پیدا ہوئی تو گھر بھر کی لاڈلی بن گئی اس کی پیاری پیاری باتیں بس کا دل لبھاتی تھیں۔ اگرچہ وہ دادا دادی اور گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ لیکن سب کے لاڈ پیار کے باوجود وہ بہت نیک اور تمیز دار بچی تھی۔ پھر چھوٹی بہن کے پیدا ہوتے ہی وہ جیسے خود ہی سمجھدار بڑی بہن بن گئی۔ سب کا خیال رکھنے والی، سب کے کام کرنے والی، دادا دادی کی خدمت کرنے والی۔ یوں سب کی دعائیں لیتی وہ بڑی ہوگئی۔ شکلاً اگرچہ وہ چھوٹی بہن سے کم تھی۔ لیکن اس کی عادات اتنی اچھی تھیں کہ جو بھی کچھ دیر اس کے ساتھ رہتا، اس سے متاثر ہوجاتا۔
سارا گھر اسی کے سلیقے سے چل رہا تھا۔ صبح کالج جانے سے پہلے وہ گھر کے کام اکثر نمٹا جاتی۔ یہاں تک کہ ہنڈیا بھی چڑھا جاتی۔ آٹا گوندھ کر رکھ جاتی ، کالج سے واپس آکر امی نے جو سبزی بنا رکھی ہوتی وہ گوشت میں ڈال کر فٹا فٹ سب کو پھلکے بنا دیتی۔ ہفتے والے دن کالج سے واپسی پر وہ کپڑے دھونے کے لیے مشین لگالیتی، اور اتوار کو سب کے کپڑے استری کرکے ان کی الماریوں میں رکھ دیتی۔ سارے گھر کی گرینڈ صفائی کرتی اور شام کو دوبارہ واشنگ مشین چلا کر بیڈ شیٹیں اور تولیے وغیرہ دھولیتی۔ سارے گھر والے اس سے خوش تھے۔ لیکن پھر بھی اس کے رشتے کا معاملہ پتہ نہیں کیوں اٹک گیا تھا۔
انہیں دنوں اس کے ابو کی کزن جو کہ رشتہ میں دادی اماں کی بھتیجی لگتی تھیں۔ رشتہ داروں کی شادیوں میں شرکت کرنے اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ دوسرے شہر سے آئی ہوئی تھیں۔ خاندان میں دو تین شادیاں چند دنوں کے وقفے کے ساتھ تھیں۔ اس لیے وہ اس دوران اپنی پھوپھی سے ملنے ثانیہ کے گھر آکر رہی تھیں۔ انھوں نے جب ثانیہ کا سلیقہ خدمت اور قابلیت دیکھتی۔ تو اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے ثانیہ کا رشتہ مانگ لیا۔ اچھی تو انہیں بھی دوسروں کی طرح ثانیہ کی چھوٹی بہن عافیہ لگی تھی۔ لیکن وہ سمجھدار تھیں۔ انہیں پتہ تھا کہ ان کا اکلوتا ہے۔ انہیںایسی بہو چاہیے جو نہ صرف ان کے گھر کو سجا سنوار دے بلکہ اپنے سارے سسرال کو اپنا سمجھے۔ ان کا بیٹا چھیننے کی بجائے ان کے گھر کی فرد بن کر رہے، اور یہ سارے گن انہیں عافیہ کی بجائے ثانیہ میں نظر آئے۔ اس لیے وہ بڑے چاؤ سے ثانیہ کو دلہن بناکر اپنے گھر لے گئیں۔ پھر وقت نے ثابت کردیا کہ ان کا فیصلہ غلط نہیں تھا۔
ثانیہ نے اپنی نندوں کو بالکل اپنی بہنوں کی طرح سمجھا۔ وہ ان کے سارے کاموں میں ان کی ویسے ہی مدد کرتی ویسے ہی ان کی ضروریات کا خیال رکھتی جیسے گھر میں عافیہ کا کرتی تھی۔ جب ان کے رشتے طے ہونے لگے۔ تو اس نے پوری طرح سے ساس کا ساتھ دیا تھا۔ اس لیے جب اس کی پہلی بیٹی ہوئی تو سب کی آنکھ کا تارا تھی۔ اس کی ساس نے تو صاف کہہ دیا تھا کہ یہ ان کی بیٹی ہے۔ ثانیہ صرف اسے اپنا دودھ دے دیا کرے۔ باقی وہ خود اسے پالیں گی۔ انھوں نے کہا تھا: ’’ابھی میرے بیٹے کی عمر ہی کیا ہے۔ ابھی سے وہ بیٹی کے بوجھ تلے کیوں دب جائے۔ اللہ تعالیٰ اسے بیٹا دے گا۔‘‘ لیکن تین سال بعد جب اس کی دوسری بیٹی ہوئی تو گھر میں خاصی ناگواری پھیل گئی۔ ثانیہ جو ہر حال میں خوش رہنے والی تھی، وہ بھی ناگواری کی اس لہر سے نہ بچ سکی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ اپنی بیٹی کو سینے سے لگائے کہیں چھپ جائے۔ تاکہ گھر میں موجود سرد مہری کی لہر کہیں اس کی بیٹی کو فریز نہ کردے۔ اس کی محبت کرنے والی ساس اس کے لیے اجنبی بن گئی تھیں۔ البتہ نعیم ویسا ہی تھا محبت کرنے والا نرم دل۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ثانیہ کی محبت اور خدمت اگرچہ دوبارہ سے اس کے سسرال کے دل میں اس کی جگہ بنا رہی تھی۔ لیکن وہ پہلے والی بات پھر سے نہ بن سکی۔ دلوں میں دراڑ پڑگئی تھی۔ جب بھی وہ چھوٹی بیٹی کو اٹھاتی، اس کی ساس فوراً طعنہ دیتیں ’’دلہن اب ایسا بھی کیا کہ ہر وقت اسے گود میں اٹھائے پھرتی ہو۔ کوئی پہلونٹی کی بیٹی تو نہیں ہے کسی وقت رانوں کو بھی دیکھ لیا کرو۔ یہ بھی آخر تمہاری ہی بیٹی ہے۔ (رانو اس کی بڑی بیٹی کو دادی پیار سے کہتی تھیں) تم توچھوٹی کو گود میں اٹھاکر اس کی عادتیں خراب کررہی ہو۔ ابھی تو تمہارا ہاتھ بٹانے کو میری بیٹیاں موجود ہیں۔ جب یہ اپنے گھروں والی ہوجائیں گی تو پھر تو سارے گھر کی ذمہ داری تم پر ہوگی۔ پھر کیا تم اس کے اتنے لاڈ اٹھا پاؤگی؟‘‘ ثانیہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس نے اب تک اپنی کونسی ذمہ داری پوری نہیں کی، اور اب وہ اپنی روتی ہوئی بچی کو چپ کروانے کے لیے گود میں نہ لے تو کیا کرے۔
اس مشکل وقت میں نعیم کی محبت اس کے لیے سب سے بڑا سہارا تھی۔ لیکن اس وقت تو اس کا دماغ گھوم گیا جب اس نے نعیم کی باتیں سنیں جو وہ اپنے دوست سے کررہا تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ اس کا ایک کاروبار میں شریک دوست کھانے پر آرہاتھا۔ نعیم نے دو روز پہلے دوست کی آمد اور کھانے کا ثانیہ کو بتایا تھا۔ شاید وہ کوئی خاص دوست تھا۔ اس لیے نعیم نے دو دن پہلے اس کے آنے کا بتایا تھا۔ ثانیہ نے ایک دن پہلے بیٹھک کو خوب اچھی طرح صاف کرکے نئے سرے سے ڈیکوریٹ کیا تھا، اور کھانے میں بھی اس نے بہت ساری چیزیں تیار کی تھیں۔ کھانے کے بعد وہ چائے دینے جب بیٹھک کے دروازے پر پہنچی تو نعیم کا دوست ثانیہ کی تعریف کررہا تھا۔ ’’یار! خوش قسمت ہو کہ اس زمانے میں اس قدر سلیقہ شعار بیوی ملی ہے ورنہ آج کل تو لڑکیاں کہتی ہیں، کہ ہر چیز پیسے سے حاصل کی جائے۔ یعنی کھانا تک باہر سے آئے یا باہر جاکر کھایا جائے۔ میرا ڈرائنگ روم قیمتی فرنیچر اور قیمتی ڈیکوریشن پیسز سے بھرا پڑا ہے۔ مگر مجال ہے کہ میری بیوی کبھی خود صفائی کرے یا کم از کم اپنی نگرانی میں ہی صفائی کروالے یا چلو کبھی سیٹنگ ہی چینج کردے۔ اگر میں کبھی اس کی توجہ دلاؤں بھی تو فوراً نئے فرنیچر کی فرمائش ہوجاتی ہے کہ اب اس پرانے فرنیچر کی سیٹنگ کیا تبدیل کرنی۔ نیا فرنیچر ہو تو وہ دلچسپی لے ایسے ہی میں تو گھر کے اچھے کھانے کا ذائقہ ہی بھول چکا ہوں۔ یا توکام والی مائی کا پکا تیز مرچوں اور گرم مصالحوں والا کھانا کھاؤ یا پھر اعتراض کرو تو فوراً باہر کے کھانے کی فرمائش ہوتی ہے۔ یہی معاملہ لباس میں ہے۔ کبھی کسی شرٹ کے بٹن ٹوٹے ہوئے ہیں تو کبھی کپڑے داغ داراور استری بے شک دھوبی سے کروائی جاتی ہے۔ لیکن وہ الماری میں یوں الٹ پلٹ پڑے ہوتے ہیں کہ پہننے لگو تو یوں لگتا ہے جیسے کسی گھڑے میں سے نکال کر پہن رہے ہوں۔ آج تمہارے گھر آکر مجھے گھر کا سکون محسوس ہوا ہے۔ تمہاری بیٹھک اور فرنیچر میرے ڈرائنگ روم سے کم قیمت ہے لیکن کس قدر خوبصورتی سے سجایا گیا ہے اور کھانا ایسا کھانا تو کسی اعلیٰ ترین ریسٹورینٹ سے بھی نہ ملے۔ یار تم خوش قسمت ہو بے حد خوش قسمت۔‘‘
’’بہت مہربانی یار۔ تمہیں میرا گھر اور کھانا اس قدر پسند آیا۔ ہاں میری بیوی بہت اچھی، خدمت گزار، سلیقہ مند اور نیک سیرت ہے۔ تمہاری بیوی جیسے بھی ہو، لیکن اس نے تمہیں بیٹے تو دیے ہیں۔ میری تو دو بیٹیاں ہیں۔ پتہ نہیں میرا بیٹا ہوگا بھی یا نہیں۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ بے شک میری بیوی میں کوئی خوبی نہ ہوتی لیکن وہ مجھے بیٹے تو پیدا کردیتی یار۔‘‘
یہ سب سن کر اسے زور سے چکر آیا، وہ گرتے گرتے بچی اس نے چائے کا ٹرے ہاتھ سے نہیں چھوڑا کہ مبادا نعیم کو پتہ نہ چل جائے کہ اس نے ان کی باتیں سن لی ہیں۔
آج اس کی سمجھ میں آیا کہ اتنا پڑھ لکھ کر، اتنا سمجھ دار ہوکر بھی ہم لوگ ابھی تک زمانۂ جاہلیت میں ہیں۔ آج بھی بیٹیاں ہم پر بوجھ ہیں۔ رحمت کی بجائے زحمت ہیں اورعورت چاہے سونے کی بن جائے، لیکن اسے سسرال اور خاوند کے سامنے باعزت صرف اور صرف اولادِ نرینہ بناتی ہے۔ کاش وہ زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوئی ہوتی، تو کم از کم آج یہ سب باتیں سننے کے لیے زندہ تو نہ ہوتی۔
انہیں دنوں اس کی ساس کی کوئی دور پار کی رشتہ دار ملنے کے لیے آئی تھی۔ پہلے تو اس نے نعیم کی دو بیٹیاں ہونے پر تیوری چڑھائی پھر اس کی ساس سے کہنے لگی: ’’تم کوئی چھوٹی بچی تھیں، کہ دلہن کے حمل کے دوران ٹونا ٹوٹکا ہی نہیں کیا۔ سب کچھ تقدیر پر چھوڑے بیٹھی رہیں۔ چلو پہلی بار تو بیٹی ہوگئی۔ دوسرے حمل کے دوران تو کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔ اگر تم چھوٹی بنتی ہو تو اب کی بار جب دلہن کو حمل ہو تو فوراً مجھے بلا بھیجنا۔ میں آکر سب کچھ کرلوں گی۔‘‘ اس خاتون کی باتیں سن کر ثانیہ کی ساس کو جوش چڑھا۔ انھوں نے فوراً ثانیہ کو حکم دیا کہ وہ بیٹی کا دودھ چھڑوادے تاکہ کوئی بال بچہ ہوسکے۔ اس کی ساس چاہتی تھیں کہ اب وہ جلد از جلد پریگنٹ ہوجائے اور وہ زینب بی بی کو بلاکر سارے ٹونے ٹوٹکے آزمائیں تاکہ نعیم جلد از جلد بیٹے کا باپ بن جائے۔ وہ شاید ساس کی اس بات سے اختلاف کرتی لیکن جب سے اس نے نعیم کی دوست کے ساتھ باتیں سنی تھیں وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ جلد از جلد اس کا بیٹا ہو۔ اس لیے اس نے بخوشی چھوٹی سے بچی کا دودھ چھڑوادیا۔ اوپر کا دودھ بچی کو راس نہیں آرہا تھا۔ وہ بری طرح بیمار ہوگئی تھی۔ ہر وقت اسے الٹیاں اور موشن لگے رہتے لیکن وہ اور اس کی ساس بیٹے کی دھن میں ایسی مگن تھیں کہ چھوٹی بچی کی تکلیف کو بھی نظر انداز کرگئیں۔
دودھ چھڑانے کے تین ماہ بعد وہ امید سے ہوگئی۔ گھر میں خوشیاں لوٹ آئی تھیں۔ فوراً زینب بی بی کو بلوایا گیا۔ وہ فوراً پہنچ گئیں۔ بمع اپنے ساز و سامان کے۔ پتہ نہیں کہا ںکہاں سے انھوں نے تعویذ لاکر تعویذوں کی ایک مالا سی اس کے گلے میں لٹکادی جو اس کی ناف تک پہنچی ہوئی تھی۔ اس کے بعد پتہ نہیں کیا اٹرم پڑم وہ اسے کھلاتی پلاتی رہیں۔ چاندنی راتوں میں اٹھ اٹھ کر وہ اس سے کئی وظیفے پڑھواتی رہیں۔ ساتھ ہی پتہ نہیں کہاں کہاں سے وہ پانی دم کرواکر لاتیں اور اسے پلاتی رہتیں۔ کئی بار تو اسے شک گزرا کہ ان چیزوں میں کہیں نہ کہیں اسے کچھ حرام چیزیں بھی کھلائی جارہی ہیں، لیکن بیٹے کی چاہ میں اسے یہ سب منظور تھا، اسے بیٹا چاہیے تھا۔ جائز یا ناجائز دونوں طریقوں سے۔ اس کے آخری مہینے چل رہے تھے، جب زینب بی بی کسی جھاڑ پھونک والے بابا کو بلا لائیں۔ جو پہلے تو کئی دن تک اس پر جھاڑ پھونک کرتا رہا، آخر میں اس نے کہا کہ یہ مکان بھاری ہے۔ اس لیے ثانیہ کو ڈلیوری کے لیے کسی اور جگہ بھیج دیا جائے، تو اور جگہ اس کے میکے کے علاوہ کیا ہوسکتی تھی۔
اس لیے اسے میکے بھیج دیا گیا۔ اس کی امی بھی یہی چاہتی تھیں۔ کیونکہ وہ خاصی کمزور ہوگئی تھی۔ بیٹی ہونے کا خوف اسے اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا کہ اگر اس بار بیٹی ہوئی تو پتہ نہیں اس کا کیا بنے گا۔ کیا نعیم دوسری شادی کرلے گا؟ کیا اسے گھر سے نکال دیا جائے گا؟ کیا اسے اپنی سوکن کی نوکرانی بن کر رہنا پڑے گا؟ یہ وہ سوال تھے جو مسلسل اس کے اعصاب پر سوار تھے۔ جو اس کی صحت کو کھوکھلا کررہے تھے۔ لیکن وہی ہوا جس کا اس کو ڈر تھا۔ اس کی تیسری بیٹی پیدا ہوئی تھی۔ بے حد خوبصورت اور گول مٹول سی بچی۔ وہ کسی طرح نوزائیدہ نہیں لگتی تھی۔ بلکہ تین چار ماہ کی لگتی تھی۔ بیٹی پیدا ہونے کا سنتے ہی وہ بے ہوش ہوگئی۔ جب وہ ہوش میں آئی تو لگتا تھا کہ وہ اپنے حواس کھوچکی ہے۔ اس نے بچی کو دودھ پلانے سے انکار کردیا۔ امی کی توجہ محبت اور تسلیاں اسے کچھ حواسوں میں لے آئیں۔ لیکن کسی کسی وقت اس کا دل چاہتا کہ اللہ کرے یہ بچی مرجائے۔ اسے یوں لگتا تھا جیسے یہ بچی ذلت کی نشانی ہے۔ اب وہ اس ذلت کی نشانی کو لے کر سسرال کس منہ سے جائے گی۔
اس کی ساس نے کتنی امنگوں اور امیدوں کے ساتھ قرآن شریف کی شام (سائے) میں اسے میکے بھیجا تھا۔ اس یقین کے ساتھ کہ وہ ان کے خاندان کے وارث، خاندان کے نام لیوا کو گود میں لیے واپس آئے گی۔ اب وہ اس تیسری بیٹی کو لے کر اپنے گھر کیسے جائے گی۔ کیا گھر والے اسے قبول کریں گے۔ کیا وہ اپنی ساس کی مایوس اور حقارت بھری نظروں کا سامنا کرپائے گی۔ اب گھر میں اس کا کیا مقام ہوگا۔ بیٹی ہونے کی اطلاع اس کا بھائی فون کرکے نعیم کی دوکان نما دفتر پر دے آیا تھا۔ آگے سے نعیم نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ نہ اپنے آنے کا بتایا تھا، اور نہ ہی ثانیہ یا بچی کے متعلق پوچھا تھا۔ بس اب تو اس کی صرف اور صرف ایک خواہش تھی کہ کاش وہ مرجائے یا یہ بچی مرجائے۔ وہ بچی کی طرف سے جتنی لاپروائی برتتی تھی، بچی روز بروز اتنی ہی صحت مند اور خوبصورت ہوتی جارہی تھی۔ امی نے اس کے لیے بڑے خوبصورت فراک بنائے تھے۔ ان رنگ برنگے فرل لگے فراکوں میں وہ ننھی منی پری لگتی تھی۔ عافیہ کو تو جیسے کھلونا مل گیا تھا۔ ایک بار جب وہ بھوک سے بلکتی بچی کو دودھ نہیں پلانا چاہ رہی تھی تب امی نے اسے بری طرح ڈانٹا تھا کہ وہ کیوں ایسا کررہی ہے۔ کیوں اللہ کی ناشکری کررہی ہے۔ اگر کہیں اسے کوئی ڈیفیکٹو بیٹا ہوا ہوتا تو پھر وہ کیا کرتی۔ ویسے بھی بیٹیاں تو اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ ہمارے پیارے نبی کریمﷺ کی بھی توبیٹیاں تھیں۔ انہیں امید نہیں تھی کہ ان کی ثانیہ جیسی سمجھدار بیٹی اس معاملے میں جاہلوں کی طرح ری ایکٹ کرے گی۔ اس وقت تو اس نے امی کی ڈانٹ سے مجبورہوکر بچی کو دودھ پلادیا۔ لیکن رات کی تنہائی میں وہ سوچتی رہی کہ وہ امی سے کیا کہے کہ جس گھر میں اس کی شادی ہوئی ہے، وہاں ساری عزت، ساری قدر ومنزلت صرف بیٹے کی ماں کے لیے ہے۔ اس نے ننھی سی معصوم جان کو دیکھا۔ وہ نیند میں مسکرا رہی تھی۔ تب اس کا دل بھر آیا، وہ اس بچی کے اوپر منھ رکھ کر رونے لگی۔
نانی اماں اسے ملنے آئی تھیں۔ اماں نے انہیں ثانیہ کے ڈیپریشن کا سارا احوال بتایا، اور انہیں ثانیہ کو سمجھانے کے لیے کہا۔ لیکن نانی اماں کی جہاندیدہ نظریں ثانیہ کے کرب کو جان گئی تھیں۔ رات کو نانی اماں اسی کے کمرے میں سوئی تھیں۔ اور رات کو ہی انھوں نے ثانیہ کو وہ بات بتائی تھی۔ جسے سن کر ثانیہ کانپ گئی تھی۔ انھوں نے کہا تھا : ’’یہ تیری ماں جو تجھے تسلیاں دے رہی ہے۔ اسے کیا پتہ کہ بیٹا نہ ہونے کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔ اس کے تو پہلے پہل بیٹے ہوئے تھے۔ جن کی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ انہیں سسرال والے نہ جینے دیتے ہیں نہ مرنے دیتے ہیں۔ میری بھی پہلے پہل بیٹیاں ہوئی تھیں۔ تمہاری ماں اور خالہ، پھر جب میری تیسری بیٹی ہوئی تو کسی مائی نے مجھے بتایا تھا کہ اگر کسی طرح وہ مرجائلے۔ تو پھر میرا بیٹا ہوگا، پھر ایسا ہی ہوا۔ تمہاری اس خالہ کے مرنے کے بعد ماشاء اللہ بیٹوں کی لائن لگ گئی۔ اس کے بعد ہی تمہارے تینوں ماموں ہوئے تھے۔‘‘ ’’تو پھر نانی اماں دعا کریں کہ یہ مرجائے، اور اس کے بعد میرا بھی بیٹا ہو۔‘‘
’’بیٹی! کچھ دعا کرنی پڑتی ہے، اور کچھ دوا۔‘‘ ’’نانی اماں میں نے بہت کوشش کی کہ یہ کسی نہ کسی طرح مرجائے۔ میں اسے اپنا دودھ نہیں پلانا چاہتی تھی۔ میں جتنا چاہتی تھی کہ یہ بیمار ہوکر مرجائے۔ اتنا ہی یہ امی اور عافیہ کی توجہ سے صحت مند ہوتی جارہی ہے۔‘‘
’’چلو اب سوجاؤ کچھ نہ کچھ کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خرانٹے لینے لگیں، اور ثانیہ اپنی سوچوں میں ڈوب گئی۔ کسی وقت ممتا اس پر غالب آجاتی، لیکن زیادہ تر وہ اس خوف میں رہتی کہ پتہ نہیں سسرال سے اسے کوئی لینے آئے گا یا نہیں۔
صبح ثانیہ دھوپ میں بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے ہی بچی سوئی ہوئی تھی۔ نانی اماں آکر دوسری چار پائی پر بیٹھ گئیں، اور بچی کو دیکھتے ہوئے کہنے لگیں: ’’اس کے ابھی تو اس دنیا سے جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔‘‘ حالانکہ چاہتی تو وہ بھی یہی تھی۔ لیکن اسے نانی اماں کی بات بہت بری لگی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی، کہ نہ تو وہ اس بچی کی زندگی چاہتی تھی اور نہ ہی موت۔ ممتا اسے بچی کی طرف کھینچتی تھی، لیکن وہ اپنی اور بچی کی ناقدری سے خوف زدہ تھی۔ اسے پتہ تھا کہ یہ بچی اپنے گھر میں اپنے ماں باپ کے سائے تلے بھی کسی گناہ کی طرح پلے گی۔ اگرچہ اس کی دوسری بیٹی کے ساتھ بھی کوئی زیادہ اچھا سلوک نہیں ہوتا تھا۔ دادی ہر وقت اس کے کھانے پینے، اوڑھنے پہننے پر نظر رکھتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ اس کے لیے کوئی نیا کپڑا نہ بنایا جائے۔ وہ ہمیشہ بڑی بہن کی اترن اسے پہناتی تھیں۔ کھانے پر بھی دادی اسے ٹوکتی تھیں۔ ’’کیا سارا دودھ یہی پی جائے گی یا دوسروں کے لیے بھی کچھ بچے گا۔‘‘ دلہن اسے انڈا مت دو جلدی بڑی ہوجائے گی۔ اب بھی بڑی بہن کے برابر تو لگتی ہے۔‘‘اور اگر وہ کہیں باپ کے ساتھ لاڈ کرنے کی کوشش کرتی تو ثانیہ کی ساس ٹوکتی: ’’دلہن کبھی تو میرے بیٹے کو سکھ کا سانس لینے دیا کرو۔ ابھی ابھی تھکا ہوا آیا ہے، اور یہ اس کے سر پر سوار ہوگئی۔‘‘
نانی اماں نے اس کے ان احساسات کو خوب ہوا دی، اور اسے اس بات پر راضی کرلیا کہ بس اس تیسری بیٹی کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ لیکن کیسے؟ اس کا جواب بھی نانی اماں کے پاس تھا۔ ’’ایک چمچ افیون‘‘ اور بچی نیند میں ہی ختم ہوجائے گی، یہ سن کر ایک بار تو ثانیہ کے جسم سے جیسے روح نکل گئی۔ اس کا سارا جسم بے جان ہوگیا۔ شاید وہ اس کے لیے تیار نہ ہوتی لیکن اس دن نعیم کا خط آیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ ’’بیٹی کا سن کر اماں بہت روئیں اور بیمار ہوگئیں۔ اب بھی وہ بیمار ہیں۔ تمہارے یہاں آنے سے بچی کو دیکھتے ہی پتہ نہیں ان پر کیا گزرے گی۔ اس لیے تم ان کے نارمل ہونے تک وہیں رہو۔ میں بھی ابھی فارغ نہیں ہوں۔ مجھے کچھ مال لینے باہر جانا ہے۔ پتہ نہیں وہاں مجھے کتنے دن لگتے ہیں۔ اس لیے فی الحال تم وہیں رہو۔‘‘ ثانیہ کو پتہ تھا یہ سب اسے میکے بٹھانے کے بہانے ہیں۔ وہ سمجھ گئی کہ اب اس کی ساس اسے تیسری بیٹی کے ساتھ کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں وہ زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کے بعد اس کی بیٹیوں کا کیا ہوگا؟ اس سوال نے اسے زندہ رہنے پر مجبور کردیا۔ لیکن چھوٹی بچی اس کا زندہ رہنا وہ بھی اتنی نفرتوں کے بیچ فضول تھا۔ اس کی بہتری اسے اس کی موت میں نظر آرہی تھی۔
اور پتہ نہیں اس دن آسمان کیوں نہ گر پڑا یا زمین کیوں نہ پھٹ گئی کہ وہ اس میں سماجاتی۔ اس سے پہلے ہی نانی اماں نے چمچ اس کے ہاتھ میں پکڑاکر اس کا ہاتھ پکڑ کر جلدی سے بچی کو افیون کا چمچ پلادیا۔ اس وقت بچی نے جو سوئی ہوئی تھی نیند میں زور سے کلکاری ماری۔ پھر ثانیہ کو ہوش نہ ہرا۔ جب اسے ہوش آیا تو سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ نعیم اور اس کی والدہ پہنچے ہوئے تھے۔ جب ساس نے اسے گلے سے لگایا۔ تو اس کی ویران آنکھوں سے ایک آنسو نہ ٹپکا اور جب نعیم اسے تسلی دینی چاہی تو وہ بت بنی بیٹھی رہی۔ چھلے تک وہ امی کے گھر رہی۔ کیونکہ اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہ تھی۔
ایک رات اس نے ساتھ سوئی نانی اماں سے سپاٹ لہجے میں دریافت کیا تھا کہ انھوں نے افیون کا چمچ خود کیوں نہیں پلایا تھا۔ اس کے ہاتھ سے کیوں پلوایا تھا۔ تو نانی اماں نے بتایا کہ یہ ایک ٹونا ہے۔ یہ کام ماں کوہی کرنا پڑتا ہے۔ تیسری بیٹی کے بدلے اب تمہارا بیٹا ہوگا یعنی ایک طرح سے اس نے اپنی بیٹی کو خود مار کر خود کوبیٹے کا مستحق بنایا تھا۔
نعیم اسے آکر لے گیا تھا لیکن وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئی تھی۔ اس قدر بے حس ہوگئی تھی کہ ہر کام بغیر کسی احساس کے روبوٹ کی طرح کرتی رہتی۔ ڈیڑھ سال بعد اس کی گود میں چاند سے بیٹا آگیا۔ یہ قانونِ قدرت ہے کہ جو شیطان کو اپنا سرپرست بنالیتا ہے، اللہ بھی اس کی سرپرستی چھوڑ کر اسے شیطان کے حوالے کردیتا ہے۔
اب وہ دوبارہ سے پوری طرح زندگی میں شامل ہوگئی تھی بلکہ اب تو اس کی دو نندوں کی شادی ہوگئی تھی۔ اس کی ساس سارا وقت پوتے کو سنبھالتی رہتیں۔ اس لیے گھر کی اصل مالک وہی بنتی جارہی تھی، بیٹا انتہائی لاڈ پیار میں پل رہا تھا۔ بہنیں خود کو بھائی کی نوکرانیاں سمجھتی تھیں۔ ثانیہ اور نعیم کی تو اس میں جان تھی، اور دادی … ان سے اگر کوئی کہتا کہ اپنے پوتے کی بھلائی کے لیے اپنی جان بھی دے دیں تو وہ خوشی خوشی دے دیتیں۔ اگرچہ نانی اماں نے اس سے کہا تھا کہ اب بیٹوں کی لائن لگے گی۔ لیکن ثانیہ نے اس ڈر سے کہ کہیں دوبارہ بیٹی نہ پیدا ہو۔ بچے بند کرانے کا آپریشن کرالیا تھا۔ اگرچہ ساس نے اسے کئی بار کہا تھا کہ اگر ایک اور بیٹا ہوجاتا تو بھائیوں کی جوڑی بن جاتی لیکن اس نے یہ کہہ کر انہیں چپ کروادیا تھا کہ لیڈی ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ’’تمہیں بلڈ پریشر ہے، اس لیے آئندہ بچہ ہونے میں تمہاری جان کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔‘‘ یہ سن کر دادی راضی ہوگئی تھیں کہ اللہ نہ کرے ثانیہ کو کچھ ہو اور یوں یہ ہنستا بستا گھر اجڑ جائے۔
بیٹے سَنی کو وہ لوگ اپنی حیثیت سے بڑھ کر پال رہے تھے۔ اسے انھوں نے شہر کے سب سے اچھے اسکول میں داخل کروا رکھا تھا۔ جہاں شہر کے امیر ترین لوگوں کے بچے پڑھتے تھے۔ انہیں دنوں ثانیہ کو پہلی بار یہ خواب نظر آیا، وہ سمجھی یہ اس کی لاشعور کی گلِٹ ہے۔ جو خواب کی صورت اسے نظر آئی ہے، لیکن یہ خواب حقیقت سے اس قدر قریب تھا کہ جب ڈر کر اس کی آنکھ کھلی تو وہ پسینے میں شرابور تھی۔
اس کی دونوں بیٹیاں بہت سلجھی ہوئی سمجھدار اور پڑھائی میں بہت اچھی تھیں۔ جبکہ سنی کو سب کے لاڈ پیار نے بگاڑ رکھا تھا۔ ایک تو وہ اسکول میں امیروں کے بچوں کی برابری چاہتا تھا، اور جب کبھی اس کی کسی ضد پر ثانیہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتی، کہ اتنی فضول خرچی ٹھیک نہیں تو وہ آگے سے بدتمیزی سے جواب دیتا کہ ’’اگر آپ لوگ ایسے ہی کنگلے تھے تو مجھے ایسے اونچے اسکول میں پڑھانے کی کیا ضرورت تھی۔ اب میں کسی صورت اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز سے کم تو نہیں لگنا چاہتا۔‘‘ ایک بار تو حد ہوگئی۔ جب پیرنٹس ڈے پر نعیم اس کے اسکول گئے تو اس نے دوستوںکو یہ بتایا کہ یہ میرے ڈیڈ کے منیجر ہیں۔‘‘ جب گھر آکر نعیم نے اسے ٹوکا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ ’’سب کے والد سوٹ پہن کر بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر آتے ہیں اور آپ عام پینٹ شرٹ پہن کر اس چھوٹی سی صابن دانی میں بیٹھ کر آئے ہیں تو کیا میں اپنے دوستوں کے سامنے اپنی بے عزتی کروالیتا۔ یہ بتا کر کہ یہ مڈل کلاس کا بندہ میرا ڈیڈ ہے۔‘‘ جوں جو وہ بڑا ہورہا تھا سارے گھر کے لیے مسائل پیدا کررہا تھا۔ وہ ان سب سے لاشعوری طور پر نفرت کرتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے گھر جاتا، ان کے شاندار گھر، چمچماتی نئے ماڈل کی گاڑیاں، سفید وردیاں پہنے ادب سے سر جھکائے کھڑے ڈرائیور۔ کھانا اور چائے سرو کرتے نوکر، سلیپنگ گون پہنے منہ میں سگار دبائے پاپا یا ڈیڈ اور خوبصورت قیمتی ساڑھیاں اپنے بے ڈھنگے جسم پر لپیٹے سلیولیس اور ہاف بلاؤز کی مامز۔ وہ ان سب سے متاثر ہوکر آتا۔ وہاں سے اپنے گھرمیں داخل ہوتے ہی اسے اپنا گھر فقیروں کا گھر لگتا۔ محلے کی ایک گلی میں کالے رنگ کے چھوٹے سے گیٹ والا گھر، برآمدے میں پڑی ڈائننگ ٹیبل جو کسی مہمان کے آنے پر استعمال ہوتی تھی۔ برآمدے میں گرل اور جالیوں کے باوجود زیادہ نہ سہی چند مکھیاں ضرور بھنبھناتی رہتی تھیں، گیٹ کے ساتھ بنی ہوئی بیٹھک۔ پھر معمولی ساچھ کمروں کا گھر، جو اس گلی میں تو شاید سب سے بڑا گھرا تھا ،لیکن اس کے دوستوں اور کلاس فیلوز کے گھروں کے سامنے اس کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی، وہ بادلِ ناخواستہ گھر پر آتا۔
لیکن کالج پہنچ کر تو وہ گھر سے پیچھا چھڑانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ آخر اس نے ہوسٹل میں داخل ہونے کا اعلان کردیا۔ اسے پتہ تھا کہ اس کے اس اعلان کے سامنے کوئی چوں بھی نہیں کرے گا۔ وہ اتنا بدتمیز اور خود سر ہوچکا تھا کہ اپنی عزت بچانے کے لیے کوئی اس کی بات سے اختلاف کرنے کی جرأت نہ کرتا تھا۔ ہوسٹل جانے کے لیے اس نے اس پیٹی میں سے بستر اورکمبل وغیرہ نکالے جس میں اس کی بہنوں کے جہیز کے بستر بنے رکھے تھے۔ ثانیہ چیختی رہ گئی کہ گھر والی پیٹی میں بھی نئے بستر رکھے ہیں۔ وہ وہاں سے اپنی ضرورت کے مطابق بستر نکال لے۔ لیکن یوں لگتا تھا جیسے وہ کچھ سن ہی نہیں رہا ہو، اور جب ثانیہ نے اس کے ہاتھ سے جہیز کے لیے منگوائے گئے کمبل بیگ وغیرہ چھیننے کی کوشش کی تو اس نے ماں کو اس بری طرح دھکا دیا کہ ثانیہ کا سر دیوار سے جاٹکرایا، اور خون کی دھار اس کے سر کے پچھلے حصے سے نکل کر اس کی گردن پر بہنے لگی۔ اس کی بہنیں روتی ہوئی ماں کو سنبھالنے لگیں۔ جبکہ وہ سامان اٹھا کر وہا ںسے یوں چلا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ہوسٹل جاکر تواس کے رنگ ڈھنگ اور بھی بدل گئے۔ جب اس کا دل چاہتا گھر آتا، گھر والوں سے اس کا تعلق صرف پیسے کا رہ گیا تھا۔ ماہانہ خرچے کے علاوہ وہ جب بھی گھر آتا، دادی اور ماں سے بھی زبردستی پیسے بٹور لے جاتا۔ وہ بیٹے سے محبت سے بات کرتی تو بھی وہ اس کی کوئی بات سننے کو تیار نہ تھا، اور اگر سختی سے بات کرتی تو بھی اس کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ وہ سارا وقت یہی سوچتی رہتی کہ آخر سنی کا کیا بنے گا۔ کئی بار جب سنی گھر آتا تو اس کے جانے کے بعد اس کی بہنوں کی کوئی نہ کوئی چیز غائب ہوتی۔ ان کی گھڑیاں ان کی چینیں۔ اب وہ کھل کر کہہ بھی نہ سکتی تھیں کہ ان کی چیزیں کون چراتا ہے۔ لیکن دل میں وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ یہ سب کام سنی کا ہے۔ کئی بار وہ نعیم سے زبردستی زیادہ پیسے لے جاتا۔
وہ ماں اور دادی جو بیٹا پیدا ہونے کے لیے بے قرار تھیں۔ اب دعا کرتی تھیں کہ سنی گھر نہ آلے۔ سنی کی گھر آمدکا مطلب ایک ہنگامہ ایک طوفان تھا۔ ثانیہ کی بڑی بیٹی کا رشتہ طے ہوگیا تھا۔ شادی کی تاریخ مقرر ہوچکی تھی۔ وہ شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ اس دن وہ بیٹی کے ساتھ جاکر سنار سے چوڑیاں بنوا کر لائی تھی، اور کچھ شاپنگ بھی کرآئی تھی۔ ابھی واپس آکروہ یہ سب چیزیں دیکھ ہی رہی تھیں کہ سنی آگیا۔ ثانیہ نے چوڑیاں فوراً دوسرے سامان میں چھپانے کی کوشش کی۔ لیکن سنی کی ان پر نظر پڑگئی تھی۔ اس نے فوراً سامان الٹ پلٹ کرکے وہ چوڑیاں نکال لیں۔ ثانیہ نے اس سے چوڑیاں چھین لیں۔ لیکن سنی نے ماں کا بازو مروڑ کر دوبارہ ان سے چوڑیاں چھین لیں۔ ثانیہ نے اسے بہن کے جہیز اور اللہ رسول کے واسطے دیتی رہی، لیکن وہ سنی ہی کیا جو کوئی بات سنے۔ وہ دیدہ دلیری سے چوڑیاں لے کر چلتا بنا۔ اس دن ثانیہ کو ایک دورہ سا پڑا، جس کی عمر درازی کی وہ دعائیں مانگتی نہ تھکتی تھی۔ آج اس نے پہلی بار موت کی دعا دی تھی اس نے کہا تھا ’’سنی اللہ کرے تو مرجائے، پتہ نہیں وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب میں نے تجھے جنم دیا تھا۔ تجھے پیدا کرنے سے پہلے میں مرکیوں نہ گئی۔ بھائی توبہنوں کا جہیز بناتے ہیں، توکیسا بھائی، جو الٹا بہن کے جہیز کے زیور دوستوں پر اڑانے کے لیے لے جارہا ہے۔‘‘ وہ اسے بددعائیں دے دے کر اور رو رو کر نڈھال ہوگئی تھی۔
سنی یونیورسٹی میں ابھی داخل ہی ہوا تھا جب انہیں پتہ چلا کہ اس نے ایک دوست کے ساتھ مل کر کسی کی موٹر سائیکل چھین کر کہیں بیچ دی ہے۔ ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر پولیس انہیں پکڑ تو نہ سکی لیکن وہ پولیس کے مشکوک لوگوں کی لسٹ میں آگیا تھا۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد اس نے اور اس کے دوستوں نے اپنے ایک امیر کبیر کلاس فیلو کو اس کی کار چھیننے کی کوشش میں مار ڈالا تھا اب پولیس نے اس کے دوست اور اسے گرفتار کرلیا تھا۔ ثبوتوں کے ساتھ ویسے بھی اس نے اور اس کے دوست نے اقرارِ جرم کرلیا تھا۔
نعیم نے اسے چھڑوانے کے لیے بہت بڑا وکیل کیا تھا لیکن مرنے والے لڑکے کا والد بہت امیر آدمی تھا۔ اس مقدمے کے چکر میں نعیم کا کاروبار تباہ ہوگیا تھا۔ اسے مکان گروی رکھنا پڑا۔ پھر بھی وہ سنی کو سزائے موت سے نہ بچا سکا۔ اس کے دوست کو بھی سزائے موت ہوئی تھی۔ اگرچہ وکیل نے امید دلوائی تھی کہ سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہوجائے گی لیکن وہ لوگ کچھ زیادہ پر امید نہ تھے۔ ویسے بھی عمر قید کے بعد کیا بچنا تھا۔ ساری عمر تو تباہ ہوگئی۔ بدنامی الگ ہوئی، اور بیٹی کی جہاں شادی ہورہی تھی، وہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا۔
تقریباً ایک سال یہ مقدمہ چلتا رہا تھا، اور اس ایک سال میں اسے وہ خواب نظر نہیں آیا تھا، جس دن سنی کو سزائے موت سنائی گئی اس دن ثانیہ کو وہ خواب ایک بار پھر نظر آیا۔ خواب میں بھی ثانیہ اس قدر شکستہ دل اورٹوٹی ہوئی تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو اپنے سینے میں چھپا لے گی۔ اسے خود سے دور نہیں جانے دے گی۔ اس ننھی سی پری کو اڑنے نہیں دے گی۔ اپنی روح کی گہرائیوں کے ساتھ اس سے معافی مانگے گی۔ نہ صرف اس سے معافی مانگے گی بلکہ اسے کہے گی کہ وہاپنے رب سے بھی اپنی ماں کی سفارش کردے۔ کیونکہ اب تو وہ سچ مچ دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوچکی تھی۔ بلکہ دوزخ میں گرچکی تھی اب یہ دنیا اور ثانیہ کی باقی ماندہ زندگی اس لیے دوزخ ہی تو بن چکی تھی۔ اس ننھی پری کی اللہ سے معافی دلانے سے کم از کم وہ آخرت کی دوزخ سے تو بچ جائے گی۔ لیکن وہ اسے خواب میں نظر آئی بھی تو دور سے ہاتھ ہلاتی کلکاریاں مارتی وہ دور جنت کی خوبصورت فضاؤں میں کہیں گم ہوتی جارہی تھی۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ پہلے کی طرح پسینے میں شرابور نہیں تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیںآیا کہ یہ کیسا خواب تھا۔ کیا وہ ننھی پری اس کی اس پریشانی پر خوش تھی یا جنت کی فضاؤں میں گونجی اس کی کلکاریاں اس بات کا ثبوت تھیں کہ اس نے اپنی ماں کو اس قدر تکلیف میں دیکھ کر اسے معاف کردیا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں