ریّہ عیسلی ایک عراقی ڈاکٹر ہے، جو قیم کے محصور شہر میں دوسری عورتوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ عراق کی دیگر ہزاروں خواتین کی طرح اس کی زندگی کے حالات بھی افسوسناک ہیں۔وہ کہتی ہیں میں کبھی محسوس نہیں کرتی کہ ہمارا آج گزرے ہوئے کل سے بہتر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آج کی بہ نسبت گزرا ہوا کل زیادہ بہتر تھا۔ بم سے تباہ ہسپتال کے ملبے کو دیکھ کر، جہاں وہ پہلے کام کرتی تھیں، یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ امکانات نہ ہونے کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ پتالگانا کہ قیم جیسے شہروں میں گھروں کی چہار دیواری کے اندر عورتوں پر کیا بیت رہی ہے، بہت ہی مشکل کام ہے۔ کیونکہ قیم وہ شہر ہے جہاں گذشتہ سال امریکیوں نے زبردست بمباری کی تھی اور یہاں کی زندگی کو جیل میں تبدیل کردیا ہے ۔ یہاں پابندیوں کا عالم یہ ہے کہ مغربی صحافیوں کے لیے بھی وہاں تک رسائی ناممکن سی معلوم ہوتی ہے۔ ہاں ہم نے خوش قسمتی سے ایک عراقی عورت کے توسط سے اس زندگی کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھی ہے۔ اس کے لیے مجھے ضرور اس کا شکر گزار ہونا چاہیے وہ ایک فلم ساز ہے جو کہ پورے ملک کا دورہ کرچکی ہے۔ عراق میں اپنی ہی جیسی عورتوں کے متعلق حقائق سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے اس نے وہاں کی بیوہ عورتوں، ان کے بچوں، ڈاکٹروں اور طلبا سے بھی گفتگو کی۔
فلم ساز جو کہ بغداد میں قیام پذیر ہیں وہ اپنی شناخت کو مخفی رکھنا چاہتی ہیں کیونکہ وہ انتظامیہ کی کارروائی سے ڈرتی ہیں۔ اس لیے ہم ان کو زینہ کا فرضی نام دے دیتے ہیں اور آئندہ ان کو زینہ ہی کے نام سے لکھیں گے۔ جب میں نے ان سے فون پر بات کی تو میرا پہلا سوال ان سے شناخت چھپانے کے سبب سے متعلق تھا۔ انھوں نے اس کے جواب میں کہا کہ سرکار اور باغیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ کیونکہ حکومت اور باغی دونوں ہی کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں اور مخالفت کی صورت میں گرفتاری اور اغوا کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
جن حالات و واقعات کو آج کی عراقی عورت اپنی روز مرہ کی زندگی میں جھیل رہی ہے ان سے دوسرے لوگ یکسر ناآشنا ہیں اور کوئی بھی نہیں جانتا کہ ہم پر کیا گزرر ہی ہے۔ اس وقت تمام ہی عراقی نفسیاتی طور پر عدم توازن کا شکار ہیں ان کو ذہنی سکون قطعاً میسر نہیں ہے اور اس کی وجہ وہ واقعات ہیں جو ان کی روزانہ کی زندگیوں میں پیش آرہے ہیں۔
میں نے ایک آٹھ سالہ کم سن لڑکی کو دیکھا ہے۔ وہ بہت زیادہ ڈری ہوئی ہے۔ جب کبھی وہ کسی ہوائی جہاز کی آواز سنتی ہے یا کسی امریکی فوجی کو دیکھتی ہے تو ایک دم سہم جاتی ہے او راکثر خوف سے رونے اور چیخنے لگتی ہے۔ میں نے بہت سارے خاندانوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے دیکھا ہے ۔میں نے یہ بھی دیکھا کہ بہت سی عورتیں غریبی کے باعث یا اپنے خاندان کی تباہی کی وجہ سے جسم فروشی پر مجبور ہوگئی ہیں۔ ریہ عسیلی صدام حسین کے نظام حکومت کی حمایتی نہیں تھیں اس زمانے میں وہ ایک صحافی اور ادبی تنقید کی ترجمہ نگار کی حیثیت سے کام کرتی تھیں۔ جنگ سے پہلے صدام کے دور میں بھی وہ خوش نہیں تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’’اس زمانے میں بہت ساری چیزیں صحیح نہیں تھیں۔ ہمیں اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی نہ تھی، یہ صحیح ہے لیکن میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میرے وطن عزیز کی حالت اس قدر بدتر ہوجائے گی کہ میں سابقہ حکومت کی تمنا کرنے لگوں گی یہ بات تو میرے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آئی تھی۔‘‘
فلم کی شروعات کے اول روز سے اس فلم کے سلسلہ میں میرے ارادے کو جاننے والے پچاس سے زائد صحافی حضرات نے یہ بات کہی تھی کہ اس میں زبردست خطرہ ہے۔ اور واقعی ان کے اندیشے درست ثابت ہوئے اور ہمیں زبردست خطروں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم لوگ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں عام گاڑیوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔ جب ہم لوگ قیم شہر میں داخل ہوئے اس وقت، ہر طرف خطرات کے بادل ہم لوگوں پر منڈلارہے تھے۔ قیم تک کا سفر ہم نے ریگستان سے ہوکر طے کیا تھا کیونکہ امریکیوں نے تمام راستے بند کردیے تھے۔ ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی اسی دوران ہم نے اپنے ٹھیک سامنے گرد کے بادل کو اڑتے ہوئے دیکھا۔ اسی گرد میں سے روشنی کی ایک چمک نظر آئی کچھ دیر بعد ہمیں احساس ہوا کہ ہم لوگ ٹھیک بندوقوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ڈرائیور ہوشیار تھا وہ سمجھ گیا کہ ان پر فائر ہوا ہے اس نے اچانک گاڑی تیزی سے روڈ کے کنارے اتاردی اور ایسا لگا جیسے گاڑی پلٹنے ہی والی ہے۔
اسی دوران دوسرا واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہم اس اسپتال کی فلم بنارہے تھے جس کو بموں سے تباہ کردیا گیا تھا۔ جیسے ہی ہم لوگ اسپتال کی چھت پر پہنچے امریکی فوجیوں نے ہم پر گولیاں چلانا شروع کردیں وہ ہمیں مارنا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ اپنا اقتدار اور اپنی طاقت دکھاناچاہتے تھے۔
وہ سین جس میں کہ فلم ساز فائرنگ سے بچنے کے لیے تباہ شدہ اسپتال میں پناہ لیتا ہے فلم کا آخری حصہ ہے۔ زینہ کی فلم سازی کی یہ کوشش اگرچہ کوئی بہت معیاری فلم تیار نہ کرسکی لیکن پھر یہ بھی ایک جبر کی داستان ہے جسے فلمالیا گیا ہے اور یہ مشاہدات ہیں جو عراقی خواتین کی زندگی کی گہرائی میں بھی اترتے ہیں اور اس کے باہر کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔
حالات کا علم حاصل کرنے اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے سلسلہ میں اکثر لوگ خود کو بیچارہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ مغربی صحافیوں کو بھی سیکیورٹی کے ذریعہ انتہائی پابند بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ملک کے بہت سے گوشوں کے حالات سے ناآشنا رہتے ہیں ایسے میں لوگوں کو کیا بتاسکیں گے اور کس صورت حال سے آگاہ کرسکیں گے؟
اس فلم میں ایک ایسی فیملی کی کہانی بھی ہے جو اسی طرح کے غیر محفوظ حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔ اس میں ایک نہایت ہی موثر حصہ ایک آٹھ سالہ کمسن لڑکی کی کہانی ہے جس کو امریکی فوجی دستے نے ایک کار پر حملہ کرکے اسے اس وقت اپنے قبضے میں لے لیا تھا، جب وہ اپنے والد اور دوسرے لوگوں کے ساتھ سفر کررہی تھی۔ امریکی پہلے تو اس کو فوجی اسپتال لے گئے اور پھر اس سے فوٹو میں موجود عراقی فوجیوں کی شناخت کے لیے کہا گیا۔ اس کے خاندان والوں کے بیان کے مطابق اسے تین مہینے تک امریکیوں نے اپنی قید میں رکھا اور اس کے بارے میں اس کے گھر والوں کو کوئی اطلاع نہیں دی کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ بالآخر اس کے دادا نے اس کو تلاش کرتے کرتے بغداد میں ایک جگہ پالیا۔ اس وقت اس کو اپنے دادا کی گود میں بے تحاشا روتے ہوئے دیکھ کر اس کے اہل خانہ کے درد و غم کو سمجھا جاسکتا ہے اور اس بے چارگی کو بھی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ اس صورت حال میں عراقی عوام کیا کریں۔ ’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟‘‘
زینہ اس کو بھی اپنے طریقے سے واضح کرتی ہے کہ یقینا یہ چیز لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرے گی یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی جو برطانیہ میں رہتے ہیں اور عراق میں جنگ کے حامی ہیں کہ کس طرح سے اتحادی فوجوں نے ایک طرف مذہبی اور بنیاد پرستوں نے دوسری طرف عورتوں کی زندگیوں کو تلخ کردیا ہے اور ہر وقت ٹی وی پر اخباروں میں عورتوں سے ہی متعلق خبریں رہتی ہیں۔ مذہبی بنیاد پرستی کی جانب سے جو کچھ ہورہا ہے وہ بڑا ہی ناخوشگوار ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ہر چیز عورتوں کو گھروں میں قید کررہی ہے اور ان کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کررہی ہے۔ ان کی ترقی کے ذریعہ عورتوں پر پڑنے والے منفی اثرات کو ظاہر کرنے کے لیے زینہ نے بصرہ کا سفر کیا۔
عراق کے حالات سے جو لوگ واقف ہیں ان کے لیے یہ بات نئی نہیں ہے کہ وہاں کس طرح عورتوں کو حجاب پہننے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔ آزادانہ زندگی گزارنے سے روکا جاتا ہے، نوجوان لڑکیوں کو یہ چیز پریشان کرتی ہے جب کہ انہیں گولیوںکی اور مارڈالنے کی دھمکی دی جاتی ہے صرف اس بات پر کہ وہ کھیلتی ہیں اور کھیلتے وقت سروں پر اسکارف نہیں لگاتی ہیں۔
دھمکی دئے جانے کے بارے میں محض اس وجہ سے کہ وہ کھیلتی تھیں اور وہ اسکارف نہیں پہنتی تھیں اس طرح کا معاملہ اکثر ان خواتین کے لیے ایک بالکل نئی چیز ہے جو امریکی حملہ سے پہلے پرلطف زندگی گزارتی تھیں اور جنگ سے قبل انہیں سماجی اورمعاشی آزادی حاصل تھی۔
کچھ دنوں قبل میں اپنی آنٹی کے فوٹو گرافس دیکھ رہی تھی جو کہ کالج کے زمانے کی تھیں انھوں نے پینٹ اور سلیولیس ٹاپ پہن رکھا تھا اسی طرح وہ اسکول کے احاطہ میں کھیلا کرتی تھیں اسی دوران میری نظر آج کل کے کالج کی لڑکیوں پر پڑی جو کہ سر سے پیر تک ڈھکی ہوئی تھیں یہاں تک کہ چہرہ بھی بند تھا۔ان تمام تبدیلیوں کا ذمہ دار صرف امریکہ کا غاصبانہ قبضہ ہے جس نے نسلی اختلاف کو جنم دیا ہے۔
جب میں اس سے یہ سوال کرتی ہوں کہ کیا وہ اس جمہوریت کی شکر گزار نہیں ہے تو وہ جواب دیتی ہے ’’جمہوریت؟ کیسی جمہوریت؟ تم کس جمہوریت کی بات کررہی ہو؟ کیا اسی کو جمہوریت کہتے ہیں؟ ہم کسی جمہوریت کو نہیں جانتے، کیا آپ اس جمہوریت کی بات کررہی ہیں جس کے بارے میں بش باتیں کرتا ہے وہ تو دھوکہ ہے دھوکہ۔ یہ جمہوریت تو نسلی اختلاف کو پروان چڑھانے کا نام ہے کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں کہ ہر وقت تم پر موت کا خطرہ منڈلاتا رہے اور اگر تم اپنے حقوق کی پامالی کا اظہار کرو تو تمہارے شوہروں اور بھائیوں کو موت کی نیندسلادیا جائے یہ تو ایک کھلا مذاق ہے۔‘‘
عراق میں تمام عورتیں اس امریکی قبضے کے خلاف نہیں ہیں۔ جس طرح مردوں کی اس سلسلہ میں دو رائے ہیں اسی طرح عورتیں بھی ہیں۔ ویسٹ میں لوگوں نے عراقی عو رتوں کو امریکی جنگ کی حمایت کرتے ہوئے سنا ہے۔ لیکن یہ جنگ عراق کو جس تباہی اور بربادی، انارکی اور لاقانونیت میں مبتلا کررہی ہے اس کے سلسلہ میں زینہ کے جذبات نہایت شدید اور ناقابل تردید ہیں اور اس نے اس تنگ ترین راستہ پر چل کر بھی عراقی عورتوں کی حالت زار کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور مستقبل میں بھی وہ نہایت معمولی امکانات کے راستے پر چلتے ہوئے اس کام کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ باوجود اس کے کہ میں اپنے آپ کو بندھا ہوا محسوس کرتی ہوں مگر میں لوگوں کو ان خاندانوں سے متعلق بتانا چاہتی ہوں جن کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جن کی اجتماعی لاشیں پائی گئی ہیں اور جن کو ٹارچر کیا گیا ہے لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کوئی ایسا صحافی ہو جو امریکیوں کے ساتھ کام کرتا ہو، یا پھر آدمی اپنے آپ کو مکمل طور پر ان خبروں کا پتہ لگانے کی خاطر اپنی زندگی کو موت کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہو۔خطرات کے باوجود وہ لوگوں کو ان حقائق سے واقف کرانے کی خواہش مند تھی جس کو وہ دیکھ رہی ہے اور لوگ اس کو دیکھنا اور سننا پسند کریں گے۔
میں برطانوی عوام کو یہ بات ضرور سمجھانا چاہوں گی کہ یہ جنگ نہ عراق کے لیے سود مند ہے اور نہ برطانیہ کے لیے فائدہ مند۔ تمہارے فوجی روزانہ قتل کیے جارہے ہیں اور عراقیوں کے لیے اس سے زیادہ بہتر کچھ نہیں ہے کہ وہ تمہارے فوجیوں کو ماریں۔ اس کے برعکس صورت حال بد سے بدتر کی طرف تیزی سے گامزن ہے خاص طور پر خواتین کے لیے۔