یہ مغل بادشاہ اکبر کے زمانے کا واقعہ ہے۔ پرتگالی پادریوں نے کسی آیت مقدسہ پر اپنے عقیدے کے مطابق اظہار خیال کرتے ہوئے کوئی اعتراض اٹھایا۔اکبر کے دربار میں جید علماء موجود تھے، انھوں نے آیت مقدسہ پر غور کیا مگر وہ کلامِ الٰہی کا مقصد نہ پاسکے۔ علماء نے پادریوں کو تو منطق کے زور پر ٹال دیا مگر یہ واقعہ بجائے خود ان کے لیے تازیانہ بن گیا۔ بات صرف اتنی تھی کہ یہ علما صرف فارسی داں تھے، پوری طرح عربی نہیں جانتے تھے اور فارسی زبان میں قرآن کریم کا کوئی ترجمہ موجود نہیں تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ انھیں فہم قرآن میں رہ رہ کر مشکلات پیش آتیں۔
اس مشکل کو بعد میں امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے حل کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’قرآن کریم اللہ کا کلام ہے۔ یہ کتاب انسانی زندگی کے حقائق بے نقاب کرتی ہے۔ اس کے نازل ہونے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اسے سمجھیں اور ان حقائق کو اپنی زندگی کا دستور العمل بنائیں۔‘‘
فہم قرآن میں سہولت کے لیے شاہ صاحب نے قرآن کا ترجمہ فارسی میں کیا جو ۱۷۳۸ میں مکمل ہوا۔ اس دور کے علماء کو ترجمے کی خبر ملی تو وہ تلواریں لہراتے ہوئے آپہنچے کہ یہ کلام اللہ کی انتہائی بے ادبی ہے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر شاہ صاحب کو دہلی سے باہر روپوش کردیا گیا۔ آخر کار ان کے ترجمے کی افادیت تسلیم کی گئی اور فارسی دانوں کے لیے قرآن فہمی میں سہولت پیدا ہوئی۔ آپ کے فرزند شاہ عبد القادر نے قرآن کا پہلا اردو ترجمہ ۱۷۹۰ میں مکمل کیا اور برصغیر کے لوگ ہدایت الٰہی سے براہِ راست متعارف ہونے لگے۔
سورہ فرقان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی چند صفات سلسلہ وار بیان فرمائی ہیں۔ ساتویں صفت آیت ۷۳ میں بتائی گئی ہے کہ اللہ کے بندے وہ ہیں، جب انھیں اللہ کی آیتیں سمجھائی جاتی ہیں تو وہ ان سے اندھے بہرے ہوکر نہیں گزرتے۔‘‘ (یعنی انھیں غور و فکر کے بعد اپناتے ہیں)۔ سبحان اللہ! گویا خالق کائنات کو بھی اپنی مخلوق سے اندھی تقلید مطلوب نہیں جب کہ ہم میں سے کئی انسان دین کے معاملے میں اپنے ہی جیسے انسانوں سے اپنی اندھی تقلید کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ زعم رکھتے ہیں کہ بس جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں، وہی مستند ہے۔
قرآن الحکیم علم ہے (بقرہ۱۴۵) یعنی خالق کائنات کا تخلیق کردہ علم جو اتنا ہی باقاعدہ اور مرتب ہے جتنا کہ کائنات کے قواعد و اصول!… اور یہ علم صرف انسان کی بہتری کے لیے اتارا گیا۔ کسی بھی علم کا حصول ایک دقت طلب، مرحلہ وار عمل ہوتا ہے۔ حصولِ علم میں کوئی مختصر راستہ نہیں ہوتا، اسی طرح علم القرآن میں بھی کوئی مختصر راہ نہیں… قرآن میں غور و تدبر کرنے کا حکم بار بار آیا ہے کیوں کہ متن سمجھے بغیر اس کی مکمل تعمیل ممکن نہیں۔
نتیجہ ہے کہ ملت آج ایسی تباہ کن برائیوں میں مبتلا ہے جنہیں جڑ سے اکھاڑ دینے کا حکم قرآن و سنت میں موجود ہے۔ ایسے جاہلانہ مسلم معاشرے کے بارے میں نبی کریمﷺ فرمائیں گے ’’اے رب! میری قوم نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔‘‘ (فرقان:۳۰) اور اللہ بھی نبی کریم کو ایسی نافرمان قوم سے لاتعلق رہنے کا حکم دیتا ہے۔ گویا آخرت میں نبی کریمؐ کو جاہل و غافل نافرمانوں سے کوئی سرورکار نہ ہوگا۔
قرآن چھوڑ دینے کا المناک عمل کوئی نئی وبا نہیں، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بارے میں حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے: ’’یہ شخص ایک برتن ہے جو علم سے بھرا ہوا ہے۔‘‘ ان ہی عبد اللہ ابن مسعودؓ نے فرمایا: ہم پر قرآن کے الفاظ حفظ کرنا مشکل اور ان پر عمل کرنا آسان تھا۔ بعد میں آنے والوں پر قرآن حفظ کرنا آسان اور اس پر عمل کرنا مشکل ہوگیا۔‘‘
حضرت انس بن مالکؓ نے فرمایا: ’’کتنے ہی تلاوت کرنے والے ایسے ہیں جن پر قرآن لعنت بھیجتا ہے۔‘‘ یہ قول حکمت ہے۔ اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو قرآن کی تلاوت تو کریں لیکن قرآنی احکام اور اصولوں پر عمل پیرا نہ ہوں۔
علامہ ابن قیم نے ترک قرآن کا مطلب یہ بتایا ہے:
۱- قرآن پر ایمان اور اس کی تلاوت کے باوجود اس کے حلال و حرام کو ترک کر دینا۔
۲- قرآن کے مطابق فیصلے کرنے کا عمل ترک کر دینا۔
۳- قرآن کے مفاہیم میں تدبر اور تفکر کو ترک کر دینا۔
تاریخ عالم میں قرآن الحکیم کا پہلا ترجمہ یورپ کے پادریوں نے لاطینی زبان میں کیا جو اس عہد میں یورپ کی مشترکہ علمی زبان تھی۔ اس ترجمے کا آغاز شاہ والی اللہ صاحب کے ترجمے سے بھی تقریباً ۶۰۰ سال قبل ۱۱۴۳ء میں شروع ہوا یعنی پہلی صلیبی جنگ کے بعد! یہ ترجمہ ۱۲۴۳ء میں چھٹی صلیبی جنگ کے بعد مکمل ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس ترجمے کا مقصد تلاوت برائے ثواب نہ تھا بلکہ تجسس یہ تھا کہ آخر مسلمان اپنی مذہبی کتاب کو کتاب دانائی (قرآن حکیم) کیوں کہتے ہیں؟ عیسائی علما کو قرآن شریف میں دانائی کی تلاش تھی۔ قرآنی اصول ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے(نجم:۳۹) ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو تمام لوگوں کے لیے دانش و بصیرت لیکن مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت قرار دیا ہے (حاشیہ۲۰، الاعراف:۲۰۳)۔
ترجمے کے لیے ایک بنیادی ضرورت یہ ہے کہ اصل متن کے ہر جملے کا مفہوم دیانت داری سے دوسری زبان میں منتقل کیا جائے۔ قرآن کریم کے لاطینی ترجمے میں یہ التزام برتا گیا۔ اس بامقصد ترجمہ قرآن کی بدولت یورپ کی علمی فضا علم و حکمت کے نور سے جگمگا اٹھی۔
سوال یہ ہے کہ یورپ کے پادریوں کو قرآن کے ترجمے کا خیال صلیبی جنگوں سے قبل کیوں نہ آیا جب کہ عرب چار سو سال قبل اسپین فتح کر کے اپنی عسکری برتری ثابت کرنے کے علاوہ اسے یورپ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور متمدن ملک بنا چکے تھے۔ اس کی یہی توجیہ ممکن ہے کہ فتح اسپین کو مقامی جنگ سمجھا گیا لیکن صلیبی جنگوں میں پورا یورپ مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ مسلمانوں سے نبرد آزما رہا۔ یہ پہلا بین الاقوامی نظریاتی تصادم تھا اسی لیے پادری اسلام کی بنیاد یعنی قرآن کی دانائی کو سمجھنے پر مائل ہوئے۔ بالکل اسی طرح جیسے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کے فورا بعد راقم نے خود دیکھا کہ امریکہ کے کتب خانے اسلامی کتب سے یکسر خالی ہوگئے۔ اسلام کے مطالعے کے بعد کئی امریکی نوجوانوں کے اسلام قبول کرنے کی اطلاعات بھی ملیں۔ پادریوں کا مساجد جانا اور اسلامی تعلیمات پر اماموں سے تبادلہ خیال کرنا ایک معمول بنا رہا۔ یقینا اسی تجسس کے تحت صلیبی جنگوں کے دوران پادریوں کو ترجمہ قرآن کی ضرورت پیش آئی تھی۔
یورپ کوعربوں کے مقابلے میں اپنی علمی اور تمدنی کم مائیگی کا احسا بھی صلیبی جنگوں ہی کے دوران ہوا۔ یورپ کی اولین یونیورسٹیاں بولون (اٹلی) پیرس، آکسفورڈ اور کیمبرج بھی صلیبی جنگوں کے دوران ہی قائم ہوئیں۔ صلیبی سردار محاذ جنگ سے واپس جاتے وقت مسلمانوں کی کتب ساتھ لے جاتے تھے۔ مسلم معاشرے میں مساوات کے مشاہدے کا اثر تھا کہ ۱۲۱۵ء میں (چوتھی صلیبی جنگ کے بعد) صلیبی سرداروں نے انگلینڈ کے شاہ جان کی مطلق العنانی پر میگنا کارٹا کی قدغن لگا دی۔ ساتویں صلیبی جنگ کے بعد ۱۲۵۸ء میں ارل لیسٹر نے شاہ ہنری کو پندرہ مشیروں کے مشورے کا پابند کر دیا۔ یہ عمل پارلیمنٹ کی طرف پہلا قدم شمار ہوتا ہے۔ اس کے صرف چھ سال بعد پہلی پارلیمنٹ بلائی گئی یعنی حکمرانی مشاورت کے تابع بنا دی گئی۔
یہ قرآن کریم کے ترجمے ہی کی برکت تھی کہ عیسائی اہل علم مذہبی معاملات میں معقولیت کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ قرآن پاک میں دین کو سمجھنے کی تاکید بار بار آئی ہے۔ اس تلقین نے عیسائی علما کو بائبل کے مقامی زبانوں میں ترجموں کی طرف مائل کیا۔ آکسفورڈ کے پروفیسر وائی کلف (۱۳۲۶… ۱۳۸۴ئٗ) نے بائبل کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور کیتھولک عقیدے پر کئی اعتراض اٹھائے۔ لوگ یہ معلوم کر کے حیران رہ گئے کہ بائبل میں پوپ کے منصب کا ذکر ہی نہیں ہے۔
اس کے بعد پادری مارٹن لوتھر (۱۴۸۳ء -۱۵۴۵ء) نے بائبل کا ترجمہ جرمن میں کیا اور پوپ کی دین پر اجارہ داری تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ چرچ (پوپ) انسان اور اللہ کے درمیان واسطہ نہیں اور وہ خود صرف بائبل اور عقل سلیم کا اتباع کرے گا۔ پوپ نذرانوں کے عوض لوگوں کے گناہ معاف کرتا تھا، لوتھر نے اس روایت کے خلاف آواز بلند کی کہ کوئی فانی انسان اللہ کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ پادریوں اور ننوں پر مجرد زندگی گزارنے کی پابندی تھی لوتھر نے اسے غلط اور غیر فطری قرار دیا اور خود ایک سابقہ نن سے شادی کی۔ جان لیکون (۱۵۰۹ء-۱۵۶۴ء) نے عیسائیت کے اصول نامی کتاب لکھی اور پروٹسٹنٹ فرقے کے عقائد وضع کیے۔ یہ اصلاحی تحریک قرآن پاک کی معقولیت اور سادہ تعلیمات کی مرہون منت تھی۔
چھاپہ خانہ ایجاد ہوا، تو قرآن پاک کا (۱۵۴۳ء) میں لاطینی ترجمہ شائع ہوا۔ یہ اتنا مقبول ہوا کہ صرف سات سال بعد اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا گیا۔ شاہ ولی اللہ کا فارسی ترجمہ معرض وجود میں آنے تک یورپ کی پانچ زبانوں میں قرآن کریم کے ساتھ مختلف تراجم شائع ہوکر اہل علم تک پہنچ چکے تھے۔
انقلاب فرانس نے یورپ کی کایا پلٹ دی۔ اس انقلاب کی بنیاد والٹیر (۱۶۹۴-۱۷۷۸ء) نے رکھی جسے مغربی دنیا انقلابی رہبر کے علاوہ ایک عظیم معلم اور دانشور بھی قرار دیتی ہے۔ اس کے عہد میں فرانس کلیسائی جبر کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا بلکہ کلیسا شاہ فرانس پر بھی حاوی تھا۔ کلیسائی تنگ نظری پروٹسٹنٹ مسلک کو بھی برداشت نہ کرتی تھی۔ ۱۵۷۲ء میں بیس ہزار سے زائد پروٹسٹنٹ قتل کردیے گئے اور لاکھوں جان بچا کر وطن سے بھاگ گئے۔ کلیسا کی علم دشمنی مسلم تھی۔ ایسے جبر کے ماحول میں دالٹیر نے نہ صرف مذہبی تعصب کے خلاف آواز بلند کی بلکہ ایک عجیب نظریاتی کارنامہ سر انجام دیا۔ اس نے (حضرت) محمدؐ کے نام سے ایک ڈرامہ تحریر کیا اور اسے شدید مذہبی تعصب کے ماحول میں پیرس میں اسٹیج پر پیش بھی کیا۔ وہ نبی کریمؐ کی انقلاب آفریں جدوجہد کا معترف اور اخلاقیات و تعلیمات نبوت کا بہت بڑا مداح تھا۔
والٹیر ایک مورخ ہونے کے ناطے تاریخ اسلام سے بھی آشنا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ دسویں صدی کے آخر میں جب مسلم فلسفی اور عالم زیر عتاب آئے تو انھوں نے اخوان الصفا کے نام سے ایک خفیہ تنظیم بصرہ میں قائم کی تھی۔ فروغ علم کی اس تحریک نے عامۃ الناس کے لیے فلسفہ، ریاضی، سائنس، فلکیات، نفسیات، اخلاقیات اور تعلیم پرتقریبا پچاس رسالے تحریر کیے۔ یہ دنیا کی پہلی انسائیکلو پیڈیا تھی جسے مسلمانوں نے مرتب کیا۔ والٹیر نے تعصب، جبر اور علم دشمنی کے ماحول میں اخوان الصفا کے مانند ایک جماعت قائم کی۔ اس کا نام بھی اخوان (Les Frers) رکھا اور ایک باکمال دانشور دیدیرو کو اس کا نگران مقرر کیا۔ دیدیرو نے اپنے ایک خط میں انکشاف کیا کہ اس نے قرآن کریم کا مطالعہ بڑی باریک بینی سے کر رکھا ہے۔
والٹیر نبی کریمؐ کی خوشہ چینی کے باعث بلا کا جامع الکلمات تھا۔ اس کے ادا کیے ہوئے حکمت آموز جملے آنا فانا یورپ بھر میں پھیل جاتے تھے۔ ان ضرب المثل حکمت پاروں پر نظر ڈالی جائے تو اکثر اقوال میں کسی نہ کسی حدیث نبوی کی حکمت کا پرتو صاف جھلکتا ہے۔
ایک انگریزی ضرب المثل ہے کہ معلم کا اثر کبھی ختم نہیں ہوتا (یعنی نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے) قرآن حکیم اللہ کا عطا کردہ علم ہے (بقرہ:۱۴۵) اور نبی کریمؐ قرآن کریم اور دانائی کے معلم ہیں (بقرہ: ۱۵۱-۱۶۴)۔ بلاشبہ نبی کریمؐ دنیا کے عظیم ترین معلم یعنی معلم انسانیت ہونے کے علاوہ دنیا کے عظیم ترین اسلامی انقلاب کے بانی بھی ہیں۔
انقلاب فرانس عہد حاضر کا ایسا انقلاب تھا جس نے مغرب پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کیے۔ اس کے دونوں مرکزی محرکین والٹیر اور دیدیرو نے اعتراف کیا کہ وہ قرآن حکیم اور معلم انسانیت کے زیر اثر تھے۔ علاوہ ازیں والٹیر کے زمانے تک قرآن کے چار عدد فرانسیسی تراجم بھی موجود تھے یعنی فرانس کے دانشوروں تک نور ہدایت بہ تمام و کمال پہنچ چکا تھا۔
عہد حاضر میں قرآن کے درجنوں تراجم جملہ یورپی زبانوں میں موجود ہیں اور دین اسلام پر کتب کا شمار مشکل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نور ہدایت کی برکات ہیں کہ مغربی ممالک میں مساوات کا چلن ہے، مطلق العنان حکمرانی قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ نمائندہ حکومتیں قائم ہیں۔ بندہ و آقا کی تمیز مشکل ہے۔ ہر شہری حکمرانوں اور عمال حکومت سے اسی طرح باز پرس کرسکتا ہے جس طرح خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے عہد مبارک میں ایک بدو بے خوفی سے چادر کا حساب مانگتا تھا۔ کوئی شخص قانون سے بالا نہیں۔ ایک کا نسٹبل شہزادی کا چالان کرتا ہے۔ بلدیہ بادشاہ کی درخواست مسترد کرتی ہے۔ عدالتیں آزاد ہیں۔ داد رسی یقینی ہے۔ ہر شہری کو بنیادی لوازم زندگی میسر ہیں۔ سکینڈے نیویا کے ممالک دنیا کی بہترین فلاحی ریاستیں ہیں۔ وہاں کے دانشور برملا اعتراف کرتے ہیں کہ کفالت عامہ کا یہ نظام قانون عمرؓ کی بنیاد پر قائم کیا گیا۔ گویا ایک اعتبار سے خلافۃ النبیؓ کی وراثت نے ان دور دورا زممالک تک رسائی حاصل کرلی۔ بقول علامہ اقبال:
لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل
خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز
لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر وہ برائی اور فساد کھلے بندوں موجود ہے جسے مٹا دینے کا حکم قرآن میں واضح طور پر آیا ہے۔ اگرچہ تلاوت قرآن کم و بیش ہر گھرانے میں روزانہ کا معمول ہے، مساجد آباد ہیں، قال اللہ، قال الرسول کا چرچا رہتا ہے، ہر تقریب کی ابتدا تلاوت قرآن سے ہوتی ہے لیکن بحیثیت ملت اسلامیہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ بقول اقبالؒ:
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
ہم پر یہ آیت پوری طرح صادق آتی ہے۔
٭ جن لوگوں کو کتاب دی گئی ان میںسے ایک جماعت نے اللہ کی کتاب کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا۔ (البقرہ:۱۰۱)
بقول علامہ ابن قیم ہم نے قرآن پر ایمان اور اس کی تلاوت کے باوجود اس کے تمام احکام حلال و حرام کو ترک کر رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں نبی کریمؐ ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے یہی عرض کریں گے ’’یارب! میری اس نافرمان امت نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔‘‘ گویا ترک قرآن کا نتیجہ آخرت میں بھی رسوائی ہے اور دنیا میں بھی بے بسی،ذلت اور ہلاکت ہے۔
دنیا میں سرفراز اور غالب رہنے کا وعدہ بھی مومن ہونے کی شرط یعنی قرآن کے احکام کی مکمل تعمیل سے مشروط ہے (آل عمران:۱۳۹) مسلم شریف کی ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت عمرؓ ہیں فرمایا گیا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب کی مطابقت والی قوموں کو اٹھائے گا اور دوسری اقوام کو ذلیل کرے گا۔
اس شہ پارۂ حکمت کی رو سے صاف ظاہر ہے کہ معلم انسانیت نے عروج و زوال اقوام کے لیے دین کی تخصیص نہیں کی بلکہ قرآن (یعنی ترک قرآن اور تعمیل قرآن) کو میزان بنایا ہے۔ یوں عہد حاضر میں عروج مغرب اور زوال مسلم کی بنیادی وجہ صرف فہم قرآن اور ترک قرآن ہی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسانی اعمال انسانی سوچ کے تابع ہوتے ہیں۔ جب تک ہمارا فکر وعمل قرآن کریم کے تابع رہا ہم ساری دنیا پر غالب رہے۔ جب ہم اپنی غفلت اور بدعملیوں کی وجہ سے قرآنی تعلیمات سے دور ہوگئے تو ہم سے ہماری خوش بختیوں نے بھی پردہ کرلیا۔ اگر ہم دوبارہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلیں تو ہمارا زوال دوبارہ مبدل بہ اقبال ہوجائے گا۔
٭ اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو، اس نہایت اچھی کتاب کی پیروی کرو جو تم پر تمہاری رب کی طرف سے اتاری گئی۔ (الزمر:۵۵)
(مرسلہ: اقبال احمد ریاض، وانم باڑی)