اپنی زندگی کو گلزار بنانا ہر شخص کے اپنے بس میں ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ آپ کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں۔یہ وہ معیار ہے جو آپ کو یقین دلاتا ہے کہ آپ ایک آرام دہ اور خوشگوار زندگی گزارنے کے مستحق ہیں۔ ایک عرب شاعر نے کہا تھا: من لا یکرم نفسہ لا یکرم۔ ترجمہ: جو اپنی عزت و تکریم آپ نہیں کرتا اس کی عزت و تکریم نہیں ہوتی۔‘‘
بلاشبہ عزت نفس ایک بہت بڑی دولت ہے۔ یہ ایک ایسی حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان بھرپور اعتماد کی کیفیت میں رہتا ہے۔ عصرِحاضر کے حالات عزت نفس کو بہت متاثر کرتے ہیں۔
عزت نفس کیا ہے؟
عزت نفس سے مراد اپنے آپ کو اعلیٰ احترام میں رکھنا اور یہ ماننا ہے کہ آپ اچھے ہیں اور اپنے اعمال کی تعریف کے مستحق ہیں۔ عزت نفس پر عمل کرنے کے لیے، کسی کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ منصفانہ سلوک کے مستحق ہیں اور ان کے ساتھ جھوٹ بولنے یا ان کے ساتھ غیر منصفانہ برتاؤ کو برداشت نہیں کرتے۔ عزت نفس دوسروں کے لیے آپ کو ایک قابل شخص کے طور پر دیکھنا اور آپ کے ساتھ احترام سے پیش آنا آسان بناتا ہے۔
عزت نفس کو ہم علامہ اقبال کے الفاظ میں ’خودی‘ یا خوداری بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ خوبی انسانی زندگی کا لازمہ ہو تو وہ باوقار، بامقصد اور عزم و حوصلے کی زندگی جینے کے قابل ہوتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو انسان خود اپنی ہی نظروںمیں گر کر احساسِ ندامت اور ذلت کے ساتھ جیتا ہے۔
یہ خوبی بچوں میں ابتدائی عمر ہی سے پروان چڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ بچے کا احترام کیا جائے اور اسے عزت دی جائے اور یہ تصور دیا جائے کہ وہ عزت و احترام کا مستحق ہے اور کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اس سے یہ حق چھین کر اس کی خودداری اور وقار کو ٹھیس پہنچائے۔
جو بچے اس تصور کے ساتھ پروان چڑھتے ہیں، جن کے گھر کے افراد ان کا احترام و عزت کرتے ہیں وہ خوددار، حوصلہ مند اور جدوجہد پر آمادہ کار رہتے ہیں۔ مغلوبیت و پسماندگی اور دوسروں کے سہاروں پر زندگی گزارنے کے بجائے جہدوعمل کے ذریعہ اپنے راستے خود بناتے ہیں اور حقیقت میں ایک مسلمان کی زندگی میں یہی مطلوب و مقصود بھی ہے۔
مضبوط جسم کی ضرورت
خودداری اور عزتِ نفس کا صحت مند جسم سے گہرا تعلق ہے۔حالیہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ نوعمروں کے لیے جسمانی سرگرمی ان کی سوچ کو مضبوط اور مستحکم بناتی ہے۔ یہ پایا گیا ہے کہ جسمانی طور پر متحرک رہنے سے لمبی اور صحت مند زندگی گزاری جا سکتی ہے، اس کے علاوہ چھوٹی عمر میں موٹاپے، امراضِ قلب اور ذیابیطس کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔جو موجودہ نسل کا اہم ترین مسئلہ بن گیا ہے۔ اس صحت کے مسئلے نے ہمارے نو عمر بچوں سے خود اعتمادی، سیلف اسٹیم چھین لی ہے اور انہیں ایک احساسِ کمتری میں مبتلا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب نوعمروں میں بھی ڈپریشن اور ذہنی امراض کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ ہمارے رسولؐ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ’’ایک مضبوط اور طاقتور مومن کمزور مومن کے مقابلے اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ حالانکہ دونوں میں خیر ہے۔‘‘ اگر ہم اپنے بچوں کو جسمانی اعتبار سے مضبوط بنانے کی فکر کریں گے تو وہ مضبوط ذہن و دماغ اور خودداری کی صفت سے ہمکنار ہوں گے۔
دباؤ نہ ڈالیں
یقیناً، آپ یہ چاہیں گے کہ آپ کے بچے ستاروں تک پہنچیں اور اپنی پوری کوشش کریں، لیکن آپ جو سب سے زیادہ نقصان دہ کام اپنے بچوں کی عزت نفس مجروح کرنے کیلئے کر سکتے ہیں ان میں سے ایک ان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالنا یا ان کا دوسروں سے موازنہ کرنا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم سب میں مختلف صلاحیتیں ہیں اور صرف آپ ہی بتا سکتے ہیں کہ آیا آپ کے بچے کی صلاحیتیں ان کی صلاحیتوں سے ملتی ہیں۔ کسی شخص کی قابلیت پر سوال اٹھانا کم خود اعتمادی کی علامت ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ انسان کی حیثیت سے ان کی اپنی قدر پر سوال اٹھائے جائیں۔
حاصل کلام
عزت نفس کے بغیر، آپ کو فخر نہیں ہو سکتا، جو کہ بہت اہم بھی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ زندگی میں کیا ہوتا ہے، اگر آپ جانتے ہیں کہ آپ نے چیزوں کو بہتر بنانے کے لیے پوری کوشش کی ہے، تو یہی سب سے اہم ہے۔ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں۔یاد رہے کہ عزت نفس کے سوا محبت بھی ایک ایسا جذبہ ہے جس کے مجروح کر دیے جانے پر انسان اپنے آپ کو حقیر جاننے لگتا ہے۔
عزت نفس زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے، اور یہ صرف آپ کی مدد نہیں کرتا کہ آپ دنیا سے کیا چاہتے ہیں؛یہ دوسروں کے ساتھ آپ کے تعلقات کو زیادہ مضبوط بناتا ہے۔ عزتِ نفس کے بغیر، اپنی یا دوسروں کی کوئی عزت نہیں ہے، اور دوسروں کی عزت کے بغیر، معاشرہ نفرت اور تشدد کے نیچے گر جائے گا۔
اگر آپ اپنے لیے زندگی سے مزید کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو یقینی بنائیں کہ آپ کے پاس اتنی عزت نفس ہے جو آپ کو صحیح راستے پر گامزن رکھے اور اپنے مقاصد کو نظر میں رکھے۔ آپ کی عزت نفس آپ کو بلندی پر چڑھنے کی طاقت دے گی، اور یہ آپ کے فخر کو برقرار رکھنے میں آپ کی مدد کرنے میں انمول ہے۔