عزم و عمل کی طاقت

قاضی عبدالغفار احمد

میرے ذہن میں تین خوبصورت لطیفے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ یہ لطائف سنتے ہی پورا ہال کشت زعفران بن جائے گا اور پھر میں اپنے مخصوص انداز میں جو مناسب ہوگا، سامعین سے کہہ سکوں گا۔ میں ان لطیفوں کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ دو نوجوان کمرے کے اندر داخل ہوئے۔ ایک نے کہا: ’’آپ کی آمد کا شکریہ ڈاکٹر شلر!‘‘ میں بظاہر مسکرا دیا مگر ذہن تپ اٹھا تھا۔ ایسے الفاظ سے میرا استقبال اسپتالوں، جنازوں، عدالتوں اور یتیم خانوں میں کیا جاتا تھا۔ مجھے یوں لگا کہ میں کنونشن کے بجائے کسی المیے پر ہونے والے اجتماع میں شریک ہورہا ہوں۔ میرے اس خیال کی تائید دونوں نوجوانوں کے چہرے بھی کررہے تھے۔
’’ساڑھے تین ہزار مندوبین آپ کے منتظر ہیں ڈاکٹر شلر!‘‘ ایک نوجوان بولا۔
’’اوہ!‘‘ میں نے کہا اور اپنا بیگ اٹھا کر ہال میں داخل ہونے والے راستے کی طرف گھوما۔
دوسرا نوجوان مجھے متوجہ کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’یہ لوگ آپ کی دلچسپ کہانیاں سننے نہیں آئے جو آپ ٹی وی پر سناتے رہتے ہیں۔ یہ آپ کی بھرپور ہنسی سے لطف اٹھانے آئے ہیں۔ نہ یہ رسمی جملہ سننے کے لیے کہ ’’سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ یہ لوگ مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ ان کے کھیت برباد ہوگئے ہیں۔ ان کے کاروبار دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ ان پر شادیوں اور خاندانوں کا خوفناک بوجھ ہے۔ انہیں مدد کی ضرورت ہے۔ مدد سے بھی زیادہ ان کو امید کی ضرورت ہے۔ انہیں یہی کچھ دیجیے گا۔‘‘
اتنا کہہ کر اس نوجوان نے ننھا سا مائیکروفون میرے کالر کے ساتھ لگا دیا۔ کنوینر میرا تعارف کروا رہا تھا: ’’خواتین وحضرات! مجھے خوشی کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے ہیں کہ میں آپ کا تعارف دورِ حاضر کے بہترین مبلغ، مفکر اور مقرر سے کرانے لگا ہوں۔ ڈاکٹر شلر گارڈن گروو، کیلے فورنیا میں کرسٹل کیتھیڈرل کے چیف ہیں۔ یہ نادر روزگار کیتھیڈرل ان کے عزم اور استقلال کی تصویر ہے۔ انھوں نے پانچ سو ڈالر سے ابتدا کرکے اس منصوبے پر بیس ملین ڈالر خرچ کیے اور اسے فقط دس برس میں پایہ تکمیل کو پہنچا دیا۔ آئیے! ڈاکٹر شلر کا گرمجوشی سے استقبال کریں۔‘‘
میں تالیوں کی گونج میں اسٹیج پر پہنچا تو میرے ذہن سے محنت کے ساتھ تیار کردہ تقریر نکل چکی تھی۔ تقریر کا سماں باندھنے کے لیے سنائے جانے والے لطیفے بھی ذہن سے محو ہوچکے تھے۔ میرے ذہن میں صرف بحرانوں کے مارے لوگ رہ گئے تھے۔ یہ ۱۹۸۲ء تھا اور امریکہ میں ایک طرح سے ۱۹۳۰ء والے حالات پیدا ہوگئے تھے۔ بیروزگاری، دیوالیہ پن اور کاروباری بدحالی کو ذرائع ابلاغ بڑھا چڑھا کر پیش کررہے تھے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات عائد کررہی تھیں۔ کچھ پارٹیاں اپنی صفائی پیش کررہی تھیں اور خوب لے دے ہورہی تھی۔ ہر کوئی مسائل کا ذکر کررہا تھا لیکن کوئی بھی ان کا حل پیش نہیں کررہا تھا۔ اس مشکل صورت حال پر غور کرتا میں اسٹیج کے آخری کنارے تک پہنچ گیا تاکہ لوگوں کے زیادہ سے زیادہ قریب ہوکر بات کرسکوں۔ میں نے حاضرین کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا:
’’مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ لوگوں پر مشکل وقت آپڑا ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟‘‘ یہ سوال کرکے میں نے اسٹیج پر چند قدم اٹھائے۔ دراصل میں اپنا اعتماد بحال کررہا تھا۔ تقریر کے فن کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے پاس واضح نصیحت کرنے کو کچھ نہ ہو تو ہم اپنی کہانی میں دوسروں کو حصہ دار بنالیتے ہیں۔ میں بھی مشکل اوقات سے گزرا تھا، چنانچہ انہی کی روداد حاضرین کو سنانا بہترسمجھا۔ میں نے کہا:
’’یہ سچ ہی ہوگا … ہر شخص مشکل وقتوں سے گزرتا ہے۔ کیا میں آپ کو اس وقت کی کہانی سناؤں جب آئیوا کی صفر سے بیس درجے نیچے ٹھنڈی رات میں برفانی طوفان نے آلیا تھا؟ دیہاتی گھروں کے ہر سوراخ اور ہر دراڑ میں سے پاؤڈر کے مانند اڑتی برف اندر داخل ہورہی تھی اور میرے بستر پربرف کی تہ جم گئی تھی۔ کیا میں آپ کو بتاؤں کہ ہمارے پاس گھر کو گرم رکھنے کے لیے کوئلے خریدنے کے لیے بھی رقم نہ تھی؟ آپ اس دوڑ کا اندازہ نہیں کرسکتے جو ہم نے بگولوں والی آندھی سے بچنے کے لیے لگائی تھی۔ کیا میں آپ کو اپنے خشک سالی کے وہ تجربات بتاؤں جب زمین سوکھ گئی تھی؟ دریا تک خشک ہوگئے تھے اور انسان پانی کی ایک ایک بوند کو ترس گئے تھے۔ ان کی حالت ’’گریٹ ڈپریشن‘‘ سے بھی بدتر ہوگئی تھی۔ میرے پاس تو کالج جانے کے لیے بھی رقم نہ تھی۔ میرا جو بھی اثاثہ تھا وہ اچانک لگنے والی آگ نے مجھ سے چھین لیا تھا۔‘‘
میں نے دیکھا کہ ہال میں سناٹا چھا گیا ہے اور لوگ آنکھوں کے ساتھ ساتھ اپنے منہ حیرت سے کھولے میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی:
’’مشکل وقت ہر شخص پر آسکتا ہے لیکن ایک بات یاد رکھیں، مشکل وقت آکر گزرجاتا ہے۔ اس کنونشن کے کنوینر نے کرسٹل کیتھیڈرل کی بات کی ہے۔ کیا میں آپ کو بتاؤں کہ میں نے دوستوں کی امداد، بھاری جائداد اور عوامی سرمایہ کے بغیر کس طرح یہ منصوبہ شروع کیا اور پانچ سو ڈالر کے سرمائے سے دنیائے کلیسا میں ایک عجوبے کا اضافہ کیا؟ کیا میں آپ کو بتاؤں کہ موٹر سائیکل کے حادثے میں میری نوجوان بیٹی اپنی ایک ٹانگ کھوچکی ہے اور ہم نے کن دشواریوں سے اسے زندگی کے حسین ہونے کا یقین دلایا ہے؟
’’میں آپ کو ساری کہانیاں سناکر آپ کا وقت برباد نہیں کرنا چاہتا…لیکن کٹھن دور کی حقیقتیں ضرور بیان کرنا اور یہ بتانا چاہوں گا کہ ہم نے وہ مشکل اوقات عزم اور اعتقاد سے کیسے گزارے؟ آپ پر یہ وقت ہمیشہ باقی نہیں رہے گا لیکن آپ جو کچھ اس دوران کرلیں گے وہ آپ کا سرمایہ حیات ہوگا… مجھے تو یوں لگتا ہے کہ اگر ہم پر مشکل وقت نہ آیا ہوتا تو میری تربیت میں شاید فرق رہ جاتا۔
ہمارا ایک چھوٹا سا فارم تھا۔ ہم وہاں فصل ہی نہیں اگاتے تھے بلکہ مرغیاں پالتے اور انڈے بھی حاصل کرتے تھے۔ ہم گائیں پالتے اور ان کا دودھ بیچتے تھے۔ بھیڑ بکریاں پالتے اور انہیں منڈی میں فروخت کرتے تھے۔ ہم موسم بہار میں جئی اور اناج کاشت کرتے اور خزاں میں اسے کاٹ لیتے۔ سردیاں بیکار گزارتے اس امید پر کہ بہار پھر آئے گی۔
میرے باپ نے فارم کس طرح خریدا تھا یہ بھی ایک جدوجہد سے بھر پور کہانی ہے۔ میرا باپ چھٹی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکا تھا۔ وہ مقامی زمیندار کے ہاں کھیت مزدور بن گیا۔ اس کا کام خوشے چننا اور ڈنٹھلوں کا بھوسہ بنانا تھا۔ اس کام سے چند سال میں اس نے اتنی رقم کمائی کہ ایک چھوٹا سا فارم خرید لیا۔ عشرہ ۱۹۳۰ء کی عظیم کساد بازاری نے امریکہ کو آن لیا، اس وقت میری عمر تین سال تھی۔ جب وال اسٹریٹ کے مشہور تاجر اور صنعت کار اس ڈپریشن کے ہاتھوں تنگ آکر خود کشیاں کررہے تھے، امریکی کسان اپنے ناخنوں سے مٹی کھود کھود کر جینے کی جدوجہد کررہے تھے۔ میرا باپ بھی ان جفاکش کسانوں میں سے ایک تھا۔
مجھے وہ سردیاں یا دہیں، جب ہم کوئلہ نہیں خرید سکتے تھے اور میرا باپ فارم میں کھڑے درختوں کو جاندار سمجھتے ہوئے کاٹنے کے لیے تیار نہ تھا۔ گھر کی انگیٹھی گرم کرنے کے لیے میں ٹوکری اٹھائے بچے کھچے ڈنٹھل تلاش کرتا۔جب ٹوکری بھر جاتی تو اسے ماں اور بھائی بہنوں کے پاس لے جاتا۔ دھوپ چمکتی تو کمروں کو گرم کرنے کے لیے چھت میں بنے سوراخ کھول دیے جاتے۔ انہیں سرشام بند کرنا میری ذمہ داری تھی۔‘‘
’’آپ شاید غربت کے ساتھ میرے تجربات سننا پسند کریں گے۔‘‘ میں خاموش مجمع سے کہہ رہا تھا اور واضح طور پر آگاہ تھا کہ وہ میری باتوں میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ’’ہم اس قدر غریب تھے کہ آگ جلانے کے لیے گوبر اور گھاس پھوس اکٹھی کرتے۔ ہم پر مشکل وقت آپڑا تھا۔ پھر ہمیں خشک سالی نے آن لیا۔ موسمِ بہار میں بارش معمول کے مطابق نہ ہوئی۔ جب یہ بارش ہوتی تھی تو ہم جئی اور اناج بوتے تھے۔ چند ڈالر جو میرے باپ نے بچائے تھے، وہ بیج خریدنے میں خرچ ہوچکے تھے جو خشک سالی کی وجہ سے ضائع ہورہا تھا۔ جب بارش ہی نہیں ہوئی تھی تو اور کون اسے خریدتا؟ میرے باپ نے خطرہ مول لیا اور بیج منڈی میں لے جاکر فروخت کرنے کے بجائے کھیتوں میں بودیا۔ میں نے باپ سے کہا کہ اس نے غلطی کی ہے، وہ بیج ضائع کررہا ہے۔ اس وقت میرے باپ نے جو کچھ کہا وہ زندگی بھر مجھے یاد رہے گا۔ اب بھی یاد ہے اور اسی کے سہارے میں نے کئی بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ میرے والد نے کہا:’’جو لوگ خطرہ مول نہیں لیتے، آگے نہیں بڑھتے۔‘‘ میں سوچتا ہوں ایک ان پڑھ کسان اس فطری اور بنیادی اصول کو سمجھتا ہے ، جب کہ پڑھے لکھے اس پر غور نہیں کرتے۔ میرا باپ ۱۹۳۱ء، ۱۹۳۲ء اور ۱۹۳۳ء کے موسمِ بہار میں اناج کا آخری دانہ اور جئی کا آخری بیج اسی امید پر بوتا رہا کہ بارش اب کے تو برسے گی اور بیج گیلا ہوکر کونپلیں نکالے گا اور سیاہ جلی ہوئی زمین پر ہریالی ہر طرف لہرا اٹھے گی۔
کسان کی کامیابی کے لیے بارش کا برسنا ضروری ہے۔ آئیوا کے کسان سال میں کم از کم ایک بار بارش کی امید ضرور رکھتے ہیں۔ اگر تین چار ہفتے کی دیر ہوجائے تو مٹی کی ایک انچ موٹی تہ سوکھ جاتی ہے۔ اگر بارش کو اور دیر ہوجائے تو خشک مٹی کی تہ پانچ سے چھ انچ تک ہوجاتی ہے اور ننھے بیجوں سے پھوٹنے والے پودوں کی جڑیں تک سوکھ جاتی ہیں۔ جڑ کی موت کے ساتھ پتے سرنگوں ہوکر کمہلا جاتے ہیں۔
متوقع بارش دو تین ہفتے نہ ہوتی تو میرا باپ فکر مند ہوجاتا۔ جب چار پانچ ہفتے گزر جاتے تو اس کا چہرہ سنجیدہ ہوجاتا لیکن وہ غصے میں ہرگز نہ آتا اور نہ خدا کی عبادت میں ناغہ کرتا۔ وہ صبح شام خدا کے سامنے سرجھکا کر دعا کرتا۔ اس دوران اس نے سوائے دعا کے اور کچھ نہ کیا۔ وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا؟ خاص عبادتوں کے لیے گردونواح سے بھی کسان جمع ہوجاتے۔ وہ اپنا بہترین لباس پہن کر آتے اور خدا سے دعا کرتے کہ وہ ان کے کھیتوں اور فصلوں کو بچالے۔ وہ بارش کی التجا کرتے، پھر انتظار کرنے کے لیے گھروں کو چلے جاتے اور نیلے آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے تلاش کرتے رہتے۔ کوئی اچانک کہتا کہ اس نے بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا ہے۔ خدا سب کی دعائیں قبول کرنے والا ہے۔ ایک دن بادل چنگھاڑتے ہوئے آئے لیکن چند چھینٹے ڈال کر گزرگئے۔ میرے باپ نے مٹھی بھر مٹی زمین سے اٹھائی۔ صرف انچ کا چوتھائی حصہ مٹی نم آلود ہوئی تھی۔
پھر آندھی چلنے لگی۔ آسمان کا رنگ خاکستری ہوگیا۔ تازہ ہوا میں گرد بھرگئی۔ سانس لینا دشوار ہوگیا۔ میرے باپ نے کہا: ’’بیٹے! یہ جنوبی ڈکوٹا کی ہوائیں ہیں، جہاں بدترین خشک سالی ہے۔ میں نے دیکھا کہ برف کی طرح گرد کی تہ ہمارے کھیتوں پر بیٹھ گئی۔ جب ہوا کے تھپیڑوں سے وہ گرد اڑتی تو چند بچے کھچے پودوں کو بھی اکھاڑ کر لے جاتی۔ ریت کے ٹیلوں پر پودوں کے تنکے مردہ مویشیوں کی ہڈیوں کے مانند پڑے نظر آتے۔
فلائڈ نامی دریا میرا بچپن کا ساتھی تھا۔ اس کے سرسبز و شاداب کناروں پر کھلی چراگاہوں میں لیٹے میں بادلوں کو شکلیں بدل بدل کر آسمان پر تیرتے دیکھتا رہتا۔ یہیں میں نے خدا سے ایک وجدانی قربت محسوس کی۔ اس کی قدرت کے نظاروں نے میرے اندر یہ خواہش بھردی کہ میں جب بھی خدا کی عبادت کروں، اس کی وسعت اور آسمان میرے سامنے ہو۔ میری یہی خواہش خدا نے ’’کرسٹل کیتھیڈرل‘‘ کی صورت میں پوری کی۔ مجھے خدا پر اعتماد جو تھا … خدا پر یہ اعتماد مجھے میرے باپ ہی نے سکھایاتھا۔
دریائے فلائڈ سوکھ گیا، تالاب کیچڑ میں تبدیل ہوگئے اور مچھلیاں مرگئیں۔ ان کو کھانے کے لیے پرندے بھی موجود نہ تھے۔ خشک سالی کے باعث وہ بھی نقل مکانی کرگئے تھے۔ تب مڈ ویسٹ کا علاقہ سرکاری طور پر آفت زدہ قرار دے دیا گیا۔ اگر یہ سال معمول کا سال ہوتا تو میرا باپ اناج کی بوریاں چھکڑوں پر لاد کر منڈی کا رخ کرتا مگر اب صرف ایک بوری اناج حاصل ہوا تھا۔ اس پر میرے والد نے شام کے وقت عبادت کرتے ہوئے، خدا سے کہا: پیارے خدا! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے اس برس کچھ ضائع نہیں کیا۔ تو نے میرا بیج مجھے واپس کردیا۔ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔
دوسرے کسانوں کو خدا پر اس قدر اعتماد نہیں تھا جس قدر میرے باپ کو تھا اور یہی اعتماد اس کی دعائیں سن کر میرے اندر پیدا ہوگیا۔ اس کی بنیاد وہ مشکل وقت بنا جو خشک سالی اور قحط کی صورت میں آئیوا اور ڈکوٹا کی ریاستوں پر وارد ہوا تھا۔ جب دوسرے کسان اپنے اپنے فارم ترک کرکے نقل مکانی کررہے تھے میرے باپ نے بینک سے قرض لے کر کچھ اور زمین خرید لی۔ مجھے اس بینک میںلٹکے ہوئے کیلنڈر پر لکھا ایک جملہ اب تک یاد ہے: ’’عظیم لوگ معمولی لوگ ہی ہوتے ہیں، لیکن ان کے ارادے کی قوت غیر معمولی ہوتی ہے۔‘‘
جلتی ہوئی زمین خریدنے کا مطلب یہ تھا کہ میرا باپ یقین رکھتا تھا کہ مشکل وقت ہمیشہ نہیں رہتا۔ مشکل وقت واقعی ہمیشہ نہیں رہتا لیکن جفا کش لوگ باقی رہتے ہیں۔ خشک سالی اور قحط گزرگیا تھا۔ ہم بچ گئے تھے۔ میں اپنے خواب پورے کرنے کے لیے کالج میں داخل ہوگیا تھا۔
کئی سال بعد میں پھر اپنے باپ کے ساتھ کھیتوں پر تھا۔ فضا میں بادل تیر رہے تھے۔ ان کے پیچھے ایسی گونج سنائی دے رہی تھی جیسے مال گاڑیاں جارہی ہوں۔ میرے باپ نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’یوں لگتا ہے جیسے اولے برسنے والے ہیں۔‘‘
جلدی جلدی ہم نے گلاب کے پودوں کو ڈھانپا۔ سورج گہری آندھی کے پیچھے چھپ گیا تھا، پھر بھی معلوم ہورہا تھا کہ وہ ابھی افق سے خاصا اونچا ہے۔ گھات میں بیٹھے شیر کی طرح آندھی ہماری طرف بڑھ رہی تھی۔ اچانک میرے باپ نے میری ماں کو آواز دی: ’’جینی! اٹ از اے ٹارنیڈو… رن!‘‘ میرے باپ نے جلدی سے گاڑی نکالی اور ہم آندھی کے رخ دو تین میل دور پہاڑ کی اوٹ میں نکل گئے۔ اچانک تاریک آسمان سے سورج کے برابر ایک سیاہ ٹکڑا سا نکلا اور گھومتے ہوئے لمبے بگولے کی شکل میں زمین کی طرف لپکا۔ لمحے بھر کے لیے وہ ہمارے فارم سے چھوا اور پھر اوپر اٹھ گیا۔ آسمان پر صرف بادل رہ گئے جن سے ہلکی ہلکی بوندیں گرنے لگیں۔ مجھے بڑی خوشی ہورہی تھی کہ میں کالج واپس جاکر اصلی بگولا دیکھنے کی روداد سب کو سناؤں گا۔ مجھے اس بگولا نما بادل کے ٹکڑے کے غیظ و غضب کا کوئی شعور نہ تھا۔
ہم اب واپس جاسکتے ہیں بشرطیکہ وہاں کوئی گھر باقی رہ گیا ہو۔ میرے باپ نے کہا اور گاڑی واپس موڑ لی۔ چوراہے پر پہنچ کر ہمیں گاڑیوں پر ارد گرد سے آئے بہت سے لوگ ملے جنھوں نے بگولا دیکھ کر اندازہ کرلیا تھا کہ کوئی غیر معمولی واقعہ ہوا ہے۔
ہم جب کبھی پہاڑی کا موڑ کاٹ کر گھر آیاکرتے تھے تو ہمیں اپنے گھر کی چمنی سب سے پہلے دکھائی دیتی تھی لیکن اب وہ نظر نہیں آرہی تھی۔ سڑک کے کنارے ٹیلی فون کے کھمبے اور تار اکھڑے پڑے تھے۔ میرا باپ ہمیں پہاڑ کی چوٹی کی طرف لے گیا کہ ہم وہاں سے اپنے گھر کا جائزہ لیں مگر نیچے کچھ بھی نہیں تھا۔ چند منٹ پہلے جہاں نئی روغن شدہ نو عمارتیں کھڑی تھیں وہاں اب کچھ بھی نہیں تھا اور موت کا سناٹا طاری تھا۔ صرف مکانوں کی بنیادیں نظر آرہی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے سب کچھ اوپر اٹھا لیا گیا ہو۔ بھیڑ کے تین بچے اپنی مردہ ماں کا دودھ پینے کی کوشش کررہے تھے۔ میرا سواری کا گھوڑا چودہ فٹ لمبے لکڑی کے شہتیر کے نیچے مرا پڑا تھا۔ ارد گرد مرتے ہوئے مویشیوں کی چیخ پکار سنائی دے رہی تھی۔
میرے باپ نے ہمیں اشارہ کیا اور ہم کار میں بیٹھ گئے۔ میرے باپ کی چھبیس برس کی محنت چند لمحوں میں ضائع ہوگئی تھی۔ میں نے غور سے باپ کو دیکھا۔ وہ سخت سراسیمہ تھا۔ بکھرے بالوں اور نیلے ہاتھوں کے ساتھ وہ اسٹیرنگ وہیل سنبھالے بیٹھا تھا۔ اس نے ایک سرد آہ کھینچی اور میری ماں کی طرف دیکھا جس کے رخساروں پر آنسو بہہ رہے تھے۔ ’’جینیٗ!‘‘ وہ آگے کچھ نہ کہہ سکا۔ اس نے کار روکی اور ہمیں انتظار کرنے کے لیے کہہ کر ایک سمت چلا گیا۔ جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں وہ ٹوٹا ہوا کتبہ تھا جو ہم نے باورچی خانے کے باہر لگا رکھا تھا اور جس پر لکھا تھا: ’’خدا پر بھروسہ رکھو!‘‘ … اب اس پر صرف ’’بھروسہ رکھو‘‘ کے الفاظ باقی رہ گئے تھے۔ میرے باپ نے کتبہ ہمیں دکھاتے ہوئے کہا: ’’یہ خدا کی طرف سے پیام ہے۔‘‘ اس نے اس پیام پر دل و جان سے بھروسہ کیا اور کیے رکھا۔
میرا والد تباہ شدہ فارم چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ شخص ٹوٹ پھوٹ جائے گا مگر نہیں… خدا پر اس کا اعتماد اس کی شخصیت کو قائم رکھے ہوئے تھا۔ ’’خدا پر اعتماد اور یقین سے پہاڑ ہل جاتے ہیں، معجزات جنم لیتے ہیں، زمین دہل جاتی ہے، مسائل حل ہوتے ہیں اور حالات بدل جاتے ہیں۔ خدا چاہتا ہے کہ میں یہیں رہوں‘‘ میرے باپ نے مجھے سمجھایا۔
چند روز بعد اس نے قریب ہی ایک ٹوٹا پھوٹا مکان خریدا۔ ہمارا پہلا گھر ملبے کے ڈھیر کی صورت کوئی آدھ میل کے فاصلے پر پڑا تھا۔ جو کچھ دونوں مکانوں سے مل سکا اس سے ہم نے آہستہ آہستہ چھوٹا سا نیا گھر تعمیر کرلیا۔ بگولے نے نوفارم تباہ کیے تھے لیکن صرف میرے باپ نے اپنا فارم دوبارہ آباد کیا۔ اس نے قرضے ہی نہیں ادا کیے بلکہ اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بہت سی نئی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ ہمارا چھوٹا سا فارم اب ایک سو ساٹھ ایکڑ کے فارم میں تبدیل ہوگیا۔‘‘
میں نے گم صم مجمع پر نظر ڈالی اور انہیں ذرا جوشیلی آواز سے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’آپ بھی مشکل اوقات سے گزر رہے ہیں لیکن کیا یہ وقت میرے باپ کے وقت سے زیادہ مشکل ہے؟ کیا آپ کو گوبراور گھاس پھوس اکٹھی کرنی پڑتی ہے؟ کیا کسی بگولے نے آپ کا سب کچھ چھین لیا ہے؟ کیا آپ کو قرضے ادا کرنے ہیں اور آپ کے پاس کچھ بھی نہیں؟کیا آپ اپنے فارم بیچنے اور کاروبار ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ … میں مشکل وقتوں سے گزرا ہوں، لہٰذا آپ کو پتے کی بات بتاتا ہوں۔‘‘
میں ان کو کیا بتانے والا تھا؟ میں ایک گوشے کی طرف ہٹ گیا اور خدا سے دعا کی۔ پھر میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا مجمع کی طرف بڑھا۔ اور اس وقت میری زبان سے جو فقرہ نکلا، میں خود اس پر حیران ہوں۔ یہ فقرہ مجھ پر القا ہوا تھا۔ میں پریقین ہوں کہ یہ فقرہ خدا نے میرے منہ میں رکھا اور تالیوں کی گونج نے اس کے تاثرات ہال کے چپے چپے میں بکھیر دیے۔ میں نے کہا: ’’مشکل اوقات ہمیشہ نہیںرہتے۔ یہ گزرجاتے ہیں لیکن جفاکش لوگ باقی رہتے ہیں۔‘‘
ساڑھے تین ہزار مندوبین جو امید کا دامن چھوڑ کر چہروں پر مایوسی سجائے ہال میں آئے تھے، وہ دوبارہ نشاط امید حاصل کرچکے تھے۔ انھوں نے ایک نیا ہیولا دیکھ لیا تھا اور انہیں دوبارہ سہانے خواب نظر آنے لگے تھے۔ ان کا اعتماد اپنی ذات پر اور خدا پر بحال ہوگیا تھا۔
جب میں اسٹیج کے پچھلے دروازے سے نکل رہا تھا تو وہی نوجوان میرے قریب آگئے۔ وہ مجھے ایک خصوصی کمرے میں چائے پلانے لے گئے۔ ایک نے کہا: ’’شکریہ ڈاکٹر شلر!‘‘ دوسرے نے کہا:’’ہمیں ایسی سچائیوں پر مبنی تقریر کی توقع نہ تھی۔‘‘ مجھے اس بات کی خوشی ہورہی تھی کہ میں المیے کو طربیہ بنانے میں کامیاب رہا تھا ماضی کے واقعات دہرا کر خدا پر میرے اپنے یقین اور اعتماد میں نئی روح درآئی تھی۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں