عصرِ حاضر میں خطبات جمعہ کا کردار

علاالدین مصطفی

اس میں کوئی شک نہیں کہ جمعہ کا خطبہ بڑی اہمیت اور کئی افادیتوں کا حامل ہے۔ معاشرے کی اصلاح اور انسانی نفوس کے سدھار میں اس کا بہت بڑا کردار ہے۔ ان خطبات کے ذریعے معاشرے میں بسنے والے لوگوں تک اپنی بات پہنچائی جاسکتی ہے، دعوت و اصلاح کی راہ پر انہیں لگایا جاسکتا ہے، کفروشرک اور بدعات و خرافات سے ان کو روکا جاسکتا ہے۔
اسی اہمیت کے پیشِ نظر علماء کرام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایسے فرض کو ادا کرنے والا خطیب بذاتِ خو د ان تمام اوصافِ حمیدہ اور علمی واخلاقی سطح میں اونچا اور نمایاں ہو، گفتار اور کردار میں یکساں ہو، شریعت کا پابند اور علم و فن کا ماہر ہو۔ زمانے کے حالات اور معاشرہ کی ضروریات پر گہری نظر رکھنے والا اور حالات سے باخبر ہو تبھی وہ سامعین کو ان کے مسائل کے مطابق ہدایت دے سکتا ہے اور ان کی نصیحت کے فریضے کو انجام دے سکتا ہے۔ مگر کچھ ایسے خطیب حضرات بھی ہیں جو صرف قصہ، کہانیوں اور ہنسی مذاق اور ادھر ادھر کی ہانکنے میں ہی ماہر ہوتے ہیں، جن کا مطلوب لوگوں کا دل جیتنا ہی ہوتا ہے، اور لوگوں میں اپنی واہ واہ سننا چاہتے ہیں۔ جنھیں دینی علوم سے کوئی گہرا ربط نہیں ہوتا، شرعی مسائل، فقہی احکام اور معاشرے کے سدھار کی فکر ہی نہیں ہوتی۔ فقہ، ترجیحات دین اور اسلامی تعلیمات سے کوئی خاص لگاؤ اور تعلق نہیں ہوتا۔ وہ لوگ صرف نمازیوں کو اپنی آواز اور انداز سے مسحور کرنے اور ان کی آنکھوں کو اشکبار کرنے میں ہی ماہر ہوتے ہیں۔ ایسے تمام خطیب حضرات خود اپنی غلطی اور کمزوری کے ذمہ دار ہیں۔ جن کو منبر پر چڑھنا تو آتا ہے مگر اس کا حق ادا کرنا نہیں آتا، جنھیں نہ شریعت سے کوئی آگاہی ہے اور نہ ہی زبان سے کوئی تعلق ہے اور ان بے صلاحیت خطیبوں کے ساتھ ساتھ ان اداروں اور ذمہ داران مکاتب کا بھی قصور ہے جوان ناقص خطباء کو تیار کرتے ہیں اور ان کو بحیثیت خطیب کسی مسجد میں متعین کرتے ہیں،البتہ اس کے باوجود کچھ ایسے خطیب بھی موجود ہیں جو اپنے اس فرض کو بخوبی انجام دے رہے ہیں، اور منبرِ رسول اکرمﷺ کی اہمیت سے واقف بھی ہیں اور اس کا حق بھی پورا پورا ادا کررہے ہیں۔ جمعہ کی اہمیت کی قدر کرنا اور اس کا پورا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں چند نکات پیش ہیں:
خطبہ جمعہ عبادت ہے
علماء کرام جانتے ہیں کہ خطبات جمعہ دراصل عبادت ہیں اور ان کا مقصد لوگوں کو دینی معلومات فراہم کرنا اور ان کی اصلاح کرنا، سامعین کے لیے مفید اور کارآمد وعظ اور حالاتِ حاضرہ میں ان کے مسائل کا حل پیش کرنا اور ان تمام چیزوں سے بڑھ کر لوگوں کے عقیدے کی اصلاح کرنا، ان کو دعوتِ توحید، پیغامِ رسالت اور فکرِ آخرت دینا، اعمالِ صالحہ کی ترغیب اور گناہوں سے ترہیب، روحانیت کی طرف میلان اور مادیت پرستی سے بیزاری اور بے نیازی پیدا کرنا، قرآن و حدیث کی تعلیم دینا اور اس کی تفسیر و تشریح کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔ اگر کوئی خطیب ان مقاصد کو لے کر منبر پر کھڑا ہوگا تو ضرور بہ ضرور ان شاء اللہ ایک فرض شناس خطیب کہلائے گا اور اپنے فریضے میں کامیاب قرار پائے گا۔
خطیب کو چاہیے کہ مذکورہ امور ومقاصد کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پھیلی ہوئی خرابیوں اور برائیوں سے سامعین کو باخبر کرے، انھیں ان سے باز رہنے کی تاکید کرے، ان کو وعید سنائے، شرک وبدعت، بے حیائی، خیانت، جھوٹ، غیراسلامی تہذیبوں کی مشابہت جیسی تمام برائیوں سے لوگوں کو روکے، انھیں قرآن و حدیث سے عقل و نقل سے دلائل دے اور معاشرے سے ان تمام برائیوں کو ختم کرنے پر زور دے اور معاشرے کو درپیش ضروریات اور نت نئے مسائل کا جائزہ لے اور ان کا اسلامی اورعلمی حل پیش کرے، دلائل کی روشنی میں جواب دے اور لوگوں کو مطمئن کرے۔ بہرحال خطیب ایک بہت بڑا ذمہ دار ہے، کئی لوگوں پر وہ امین ہے ان تمام کے حقوق کا ادا کرنا اس کا فرض منصبی ہے، وہ اپنے معاشرے کا مسؤل ہے، خطبہ صرف ایک نوکری نہیں بلکہ ایک اہم فریضہ ہے۔
موضوعات
خطباتِ جمعہ کے فوائد اور ثمرات کے لیے خطیب کو جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں سرِفہرست خطبہ کا عنوان اور اس کا موضوع ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کبھی ایک جمعہ کوایک خطیب خطبہ دے اور دوسرے جمعہ اسی مسجد میں دوسرا خطیب خطبہ دے اور ایسا ہی کیا جاتا رہے تو افادیت کم ہوتے ہوتے ختم ہوجائے گی۔ خطبے کے مفید ہونے کی وجوہ تو بہت ساری ہیں جن میںاندازِبیان، اپنی بات کو پیش کرنے کا طریقہ، سحر بیانی، شائستہ اور سلیس زبان، علم کی گہرائی اور گیرائی اور سامعین کے لیے مفید باتیں ہیں اور ان سب سے بڑھ کر اور اہم’’خطبہ کا موضوع‘‘ ہے۔ اگر خطیب ہر جمعہ نیا موضوع لائے اور اس کا حق ادا کرے تو سامعین شوق و ذووق سے آئیں گے اور خطیب کو اپنے سر وچشم پر بٹھائیںگے۔ خطیب اس بات کا خیال رکھے کہ موضوع، حالات حاضرہ سے متعلق ہو اور اس کے ذریعے سے فرد اور معاشرے کی اصلاح مقصود ہو، اندرونی برائیاں، اخلاقی برائیاں، معاشرتی مسائل، نفس کی اصلاح، اسلام دشمن نظریات اور ان کے پیدا کردہ شبہات اور ان کا ازالہ جیسے عناوین پر خطبہ ہو اور ان تمام برائیوں کا قلع قمع کیا جائے، نوجوان نسل کے اشکالات اور شبہات کو دور کیا جائے، ان کا ذہن صاف کیا جائے اور ان کی اسلامی طرز سے ذہن سازی کی جائے۔ تمباکو نوشی،گٹکا، سگریٹ، بیڑی، نشہ آور دوائیں اور مشروبات اور حرام کاریاں، ان تمام خبائث سے دور رکھا جائے اور ان غلط عادات واطوار کے نفس پر، خاندان اور معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو واضح کیا جائے، جن سے معاشرہ کمزور ہوتا ہے ایسی برائیوں میں تنبیہ کی جائے، ان تمام بیماریوں اور برائیوں کا سب سے آسان اور مفید علاج’’خطبۂ جمعہ کا مناسب استعمال‘‘ ہے۔ دیگر پروگراموں کی طرح خطبۂ جمعہ بھی کوئی عام پروگرام نہیں، بلکہ اس کی خصوصیت تو یہ ہے کہ لوگ بذاتِ خود خطبہ سننے مسجد میں آتے ہیں اور شرعاً ان کو آنا بھی چاہیے۔ یہ ایک قیمتی موقع ہے جس کو گنوانا نہیں چاہیے، یہ خطبات جمعہ فی الحقیقت ایک مسلمان کے مکمل ہفتے کا’’زاویہ عمل‘‘ ہیں۔
ان خطبات ہی کے ذریعے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی نہایت آسانی کے ساتھ انجام دیا جاسکتا ہے، اس کے لیے خطیب خود متقی اور پرہیز گار ہو، برائیوں سے روکنے میں وہ کسی کی ملامت کا ڈر نہ رکھتا ہو، وقت اور مواقع کی مناسبت سے موضوع منتخب کرے اور ہر مسئلے کا نہایت خوش اسلوبی اور حکیمانہ انداز سے حل پیش کرے اور ایسا طرز اختیار کرے کہ سامعین مسحور ہوں اور وہ بات کو اچھی طرح سمجھ جائیں، ایک بات کو مختلف پیرائے میں الگ الگ طریقے سے پیش کرے تاکہ ہر ادنیٰ اور اعلیٰ آدمی، اس کی بات سمجھ سکے اور خطبے میں زیادہ تر استشہاد قرآنی آیات اور احادیث شریفہ سے ہو، اس کا بھی ایک اچھا اثر پڑتا ہے۔
علمی مسائل
خطباتِ جمعہ ایک دینی فریضہ ہے، اس کی مشروعیت کی بہت ساری مصلحتیں اور حکمتیں ہیں۔ ان میں سب لوگوں کو ایک اللہ کے ذکر کے لیے جمع کرنا اور اسی اجتماع کی مناسبت سے ان کی دینی تربیت اور تزکیہ ہوجائے تاکہ مسلمان ساری زندگی اللہ کے اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کے مطابق گزارنے کی جستجو کریں۔ ’’مومنو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کی یاد (یعنی نماز) کے لیے جلدی کرو اور خریدوفروخت ترک کردو، اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘‘ (الجمعہ: ۹)
لہٰذا خطیب اس کا پورا فائدہ اٹھائے اور سامعین کی اصلاح اور تربیت کا انتظام کرے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ کیا کرتے تھے۔ خلاصۂ کلام یہی ہے کہ آج کے دور میں ہمارے خطبات بے سود اور بے کار ثابت ہورہے ہیں۔ ان کا کوئی اثر نظر نہیں آرہاہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146