پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کاروبارِ مملکت سے فارغ ہوکر حسبِ معمول اپنی بیٹیوں کی خیریت معلوم کرنے گھر تشریف لے گئے۔ والد کی آہٹ پاکر بیٹیاں خیر مقدم کے لیے دروازے تک آئیں۔ ان کے چہرے کی زردی باپ کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی، لیکن یہ ضرور اچنبھا تھا کہ وہ اپنے منھ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھیں۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ حضرت عمرؓ نے پوچھا:
لڑکیاں کچھ نہ بولیں۔ ان کی انّا نے جواب دیا کہ ’’آج ان بچیوں نے صرف پیاز اور مسور کی دال سے پیٹ بھرا ہے۔ گھر میں کھانے کے لیے کچھ اور تھا ہی نہیں۔ یہ پیاز کی بُو چھپانے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
شفیق باپ کو معصوم بچیوں کا یہ ایثارِ نفس تڑپائے بغیر نہ رہ سکا۔ خلیفۂ وقت کی آنکھوں میں پانی آگیا اور دل بھر آیا۔ انھوں نے کہا: ’’اے میری بیٹیو! یہ کچھ مشکل نہیں کہ تمہارا دسترخوان انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں سے بھر دیا جائے؟ مگر کیا تم پسند کرو گی کہ اس کے بدلے تمہارا باپ دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے؟‘‘
باپ کا یہ کہنا صاحبزادیوں کے ضبط کا بند توڑ گیا۔ آنکھیں اشکوں سے تر ہوگئیں۔ یہ گریۂ غم نہیں تھا۔ اس میں شکایت کی تلخی بھی نہیں تھی۔ یہ تو خاموش جواب تھا۔ پدرِ بزرگوار کے سوال کا ہر آنسو پکار رہا تھا کہ ’’نہیں ہمیں وہ راحتیں درکار نہیں جن کے عوض ہمارا باپ دوزخ میں ڈالا جائے۔‘‘