’’عظیم‘‘ شخصیت سے انٹرویو

ایس۔ این، آکولہ

]ہمارے بھیا ایک بہت بڑی شخصیت ہیں۔ چھ فٹ ایک انچ لمبی شخصیت، اس طرح وہ بلا شبہ عظیم ہیں۔ اگر قطب مینار اس کی اونچائی کی وجہ سے عظیم عمارت کہا جاسکتا ہے تو انھیں بھی عظیم شخصیت کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ ان کا انٹرویو قارئین کے لیے یقینا لطیف ہوگا۔[

ایک دن بیٹھے بٹھائے اچانک ہی ہمیں انٹرویو لینے کا خیال آیا۔ مگر کس سے لیں؟ بیٹھے یہی سوچ رہے تھے کہ چھوٹے بھیا پر نظر پڑی۔ جو باہر جانے کی تیاری میں تھے۔ ان کی لمبائی چوڑائی سے تو ہم لوگ مرعوب ہیں ہی سوچا کہ کیوں نہ انہی سے انٹرویو لے لیا جائے اور جب ہم نے ان سے انٹرویو دینے کی درخواست کی تو وہ ہمیں حیرانی سے دیکھنے لگے۔ ’’میرا انٹرویو مگر کس خوشی میں؟‘‘

’’بھیا میں حجاب میں چھپوانے کے لیے دہلی بھیجوں گی نا۔‘‘

’’اچھا! وہاں تو اخباروں اور رسالوں میں بڑے بڑے لوگوں اور نیتاؤں کے انٹرویوز شائع ہوتے ہیں … شائع ہوگا؟؟‘‘

’’ارے بالکل اس کی فکر آپ نہ کریں۔‘‘ ہم نے انھیں اطمینان دلایا۔

’’اگر تم اچھے سوالات پوچھنے کا وعدہ کرو تو میں بھی انٹرویو دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

’’بالکل بھیا! ایسے سوالات پوچھوں گی کہ … چلئے بیٹھئے۔‘‘ ہم نے کاغذ قلم سنبھالا اور پھر ہم لوگ آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ ہم نے ان سے پہلا سوال پوچھا۔

ہم: بھیا پہلے تو آپ اپنا تعارف ہمارے قارئین سے کروائیں۔

بھیا: (گھورتے ہوئے) تعارف تم دوگی یا میں؟ میں اپنے منہ سے اپنی تعریف کروں؟

ہم: نہیں بھیا، تعارف آپ ہی کے منہ سے اچھا لگے لگا؟

بھیا: (روٹھتے ہوئے) دیکھ سلمیٰ! تجھے انٹرویو لینا آنہیں رہا۔ جانے دے کسی اور پر طبع آزمائی کر۔

بھیا کو اٹھتے دیکھ کر ہم گھبرا گئے فوراً ان کے سامنے جاکر کھڑے ہوگئے۔ ’’اب اچھے سوالات پوچھوں گی پلیز بیٹھئے نا!‘‘

بھیا: ٹھیک ہے تم اتنا ’’شدید‘‘ اصرار کررہی ہو تو بیٹھ جاتا ہوں مگر اب ڈھنگ کے سوال پوچھنا۔

ہم: جی بھیا! یہ بتائیے آپ کی پیدائش کب ہوئی؟

بھیا: مجھے نہیں معلوم۔ اس بات کو اکیس سال گذر چکے ہیں۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا۔

ہم: اپنی علمی قابلیت و صلاحیت کے بارے میں بتائیے؟

بھیا: (ہمیں گھور کر) کیوں؟ کیا تم نہیں جانتیں میں کتنا قابل ہوں؟‘‘

ہم: (جھنجھلا کر) بھیا قارئین کو بتائیے نا۔

بھیا: اوہو سوری، میں دسویں جماعت میں پڑھتا ہوں، پہلی جماعت سے لے کر اب تک میرا رینک ۱۵ کے اوپر ہی آیا ہے۔

ہم: (سوچتے ہوئے) مگر بھیا میں تو گیارہویں جماعت میں ہوں اور آپ مجھ سے خاصے بڑے ہیں۔ پھر دسویں جماعت میں کیوں ہیں؟

بھیا: (انگلیوں پر حساب لگا کر) میں تقریباً سات بار دسویں کے امتحان میں فیل ہوچکا ہوں۔

ہم: (خوش ہوکر) پھر تو بھیا آپ کو گولڈ میڈل ملنا چاہیے۔

بھیا: ہاں ملنا تو چاہیے مگر ملا نہیں اب تک۔ ہوسکتا ہے جب دس بار ہوجاؤں تب ملے۔

ہم: ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ تو فی الحال آپ کیا کررہے ہیں؟

بھیا: تمہارے سامنے کرسی پر بیٹھا انٹرویو دے رہا ہوں۔

ہم: ہمارا مطلب ابھی آپ کا کیا ارارہ ہے؟

بھیا: ابھی میرا ارادہ باہر جاکر کرکٹ کھیلنے کا ہے۔

ہم: ارادے تو نیک ہیں۔ اللہ آپ کو کامیاب کرے۔

ابھی ہمارے سوال و جواب کا سلسلہ یہیں تک پہنچا تھا کہ بھیا کی بہن جو کہ رشتہ میں ہماری سگی باجی ہوتی ہیں ایک چھوٹی سی ٹرے میں صرف دو کپ چائے لائیں جس کے ساتھ ’’وائے‘‘ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ ہم نے لوازمات کے لیے مختصر سی ٹرے پر نظریں گھمائیں مگر لاحاصل۔ بھیا نے فوراً لپک کر وہ کپ اٹھالیا جس میں دو گھونٹ چائے زیادہ دکھائی پڑ رہی تھی۔ ہم نے تھوڑا تکلف کیا اور شرماتے ہوئے باجی سے بولے ’’آپ نے خواہ مخواہ تکلیف کی اس کی بھلا کیا ضرورت تھی؟‘‘ اور اس سے پہلے کہ ہم کپ اٹھاتے وہ بولیں: ’’ٹھیک ہے تمہیں نہیں چاہیے تو میں ماجد بھیا کو دے دیتی ہوں۔‘‘ کہتے ہوئے وہ ماجد بھیا کی طرف بڑھ گئیں جو پلنگ پر پڑے کتاب میں منہ گھسائے پتہ نہیں مطالعہ کررہے تھے یا استراحت فرما رہے تھے۔

باجی کو آگے جاتے دیکھ کر ہم گھبرا گئے اور لپک کر جلدی سے کپ اٹھالیا اور بولے:

’’رہنے دیجیے اب آپ نے اتنی محبت سے بطور خاص ہمارے لیے بنائی ہے اس لیے انکار کرتے ہوئے اچھا نہیں لگتا۔ اب آپ اتنا اصرار کررہی ہیں تو ……‘‘

’’ایسی تو کوئی بات نہیں، چائے تو میں نے ماجد بھیا کے لیے ہی بنائی تھی جہاں تک اصرار کی بات ہے تو میں نے تو تمہیں ایک بار بھی نہیں کہا۔‘‘ باجی نے ہمیں شرمندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ہم نے کپ زور سے پٹختے ہوئے کہا: ’’تو دے دیجیے انھیں ہی۔‘‘

ویسے آپ کو یہ کیوں نہ بتادیں کہ باجی چائے ازحد کڑوی کسیلی اور کالی بناتی ہیں اور مذکورہ چائے بھی کچھ ایسی ہی دکھائی دے رہی تھی۔

ہم کلس کر بھیا کی طرف مڑے ۔ ’’ہاں تو بھیا اگلا سوال…‘‘

’’ارے ارے…‘‘ انھوں نے کپ لبوں سے جدا کرکے کہا: ’’پہلے چائے توپی لینے دو۔‘‘

ہم برے برے منہ بناتے ہوئے ان کے چائے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے… پھر پوچھا

ہم: آپ کا پسندیدہ شعر کون سا ہے؟

بھیا: مجھے شیر پسند نہیں۔

ہم: تو پھر آپ کیا پسند کرتے ہیں؟

بھیا: بکری کے بچے، مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔

ہم: خیر! یہ بتائیے آپ کے گھر میں کتنے افراد ہیں؟

بھیا: امی، ابو، دادی اور ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ سب سے بڑے بھائی ہیں پھر میرا نمبر ہے اور میرے بعد یہ جناب ہیں۔‘‘

انھوںنے ماجد بھیا کی طرف اشارہ کرکے کہا (انھوں نے باجی ہمیں اور شعیب کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینک دیا)۔

ہم: اپنے بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ کسے چاہتے ہیں؟

بھیا: ایک کو بھی نہیں۔

ہم: Big Bکے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

بھیا: وہ بہت ہوشیار اور ذہین ہیں اس لیے امی ابو کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ چھوٹے بہن بھائیوں سے بے حد پیار کرتے ہیں اور ان کے لاڈاٹھاتے ہیں اور ان کی یہی عادت مجھے پسند نہیں ہے۔ چھوٹے بہن بھائیوں سے پیار نہیں کرنا چاہیے ورنہ وہ بگڑ جاتے ہیں۔ بچوں کو ہمیشہ جھڑکتے رہنا چاہیے۔

ہم: اگر آپ کو ’’دنیا کا سب سے اچھا آدمی‘‘ ایوارڈ دینے کو کہا جائے تو آپ کس کو دیں گے؟

بھیا: (جھٹ سے) میں بھلا کسی کو کیوں دینے لگا؟ وہ ایوارڈ میں اپنے پاس ہی رکھوں گا۔

چونکہ انٹرویو لینے کا یہ ہمارا بالکل پہلا موقع تھا اور ہم باقاعدہ کوئی تیاری بھی کرکے نہیں بیٹھے تھے اس لیے سوچنے لگے اب کیا سوال کیا جائے؟

’’کیا ہوا پوچھونا؟‘‘ ہم نے وجہ بتائی تو اٹھ کھڑے ہوئے۔ ’’اچھا سوچ کر رکھنا میں گراؤنڈ پر جارہا ہوں یوں بھی میں بہت بزی شخص ہوں اور بڑی مشکل سے وقت نکال کر تمہیں انٹرویو دے رہا تھا۔‘‘

’’ارے بھیا رکیے ، رکیے۔ سوالات ذہن میں آگئے ہیں۔‘‘

’’ارے واہ ایکٹیو مائنڈ‘‘ وہ بیٹھ گئے۔ اس تعریف پر ہم حسبِ معمول شرما گئے اور اپنے ’’ایکٹیو مائنڈ‘‘ میں آنے والے سوال کو منہ کے ذریعہ باہر نکال دیا۔

ہم: دودھ والے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

بھیا: بہت اچھا سوال پوچھا تم نے وہ میرا اچھا دوست ہے۔

ہم: بھیا! اب آخری سوال… ہمارے بارے میں آپ کی رائے؟

بھیا: (گھورکر) اسے آخری سوال کہتے ہیں؟ میں تو سوچ رہا تھا تم ’’حجاب‘‘ کے بارے میں رائے مانگو گی یا پھر قارئین کے لیے پیغام۔

ہم: سوری بھیا ! اچھا آخری سے پہلے کا سوال۔ ہمارے بارے میں آپ کی رائے؟

بھیا: تم ایک اچھی لڑکی ہو۔ گھر بھر کی آنکھ کی ’’تاری‘‘ ہو۔ بے حد ذہین ہو اور مجھے بھی بہت اچھی لگتی ہو۔ (سب جھوٹ) اور کیا کہتے ہیں اسے۔ تمہاری تعریف کرنا ایمرجنسی لائٹ کو چراغ دکھانا ہے وغیرہ۔

اتنی تعریف سن کر پہلے تو ہم خوش ہوگئے مگر پھر ہمارے کان کھڑے ہوگئے۔ بھیا؟ اور ہماری تعریف! ہم نے کمر پر ہاتھ رکھ کر ان سے پوچھا۔

ہم: کیوں بھیا! یہ تعریف کہیں اس لیے تو نہیں کہ ہم آپ کا انٹرویو لے رہے ہیں؟

بھیا: بے شک! میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تم بے حد ذہین ہو۔

ہم: شکریہ! زرہ نوازی ہے آپ کی۔ اچھا بھیا! اب آخری سوال حجاب کے قارئین کو کوئی پیغام؟

بھیا: (سر کھجا کر) تم ذرا ایک ہفتے کا وقت دو مجھے تاکہ میں کوئی اچھا سا پیغام سوچ سکوں۔

ہم: اتنا وقت نہیں ہے ہمارے پاس۔ اب اس انٹرویو کو یہیں ختم کرتے ہیں۔ ہم آپ کے بے حد شکر گذار ہیں کہ اپنے ’’قیمتی‘‘ لمحات میں سے تھوڑا وقت اس انٹرویو کے لیے دیا۔ اب آپ جاکر کرکٹ کھیلئے۔ اللہ حافظ

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146