عظیم غلام

بنتِ مسعود

وہ گھڑ سواروںکا پورا دستہ تھا۔ گھوڑے دوڑنے کے بجائے دلکی چال چل رہے تھے۔ سوار آپس میں افسوس کا اظہار کررہے تھے کہ آج ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ اچانک ایک ساتھی نے گھوڑے کی باگ کھینچی اور ساتھیوں کو رکنے کا اشارہ کیا۔
’’کیوں بھئی! رک کیوں گئے؟‘‘ ساتھیوں نے پوچھا۔
’’وہ دیکھو شکار!‘‘
سب نے ادھر دیکھا جس طرح اشارہ ہوا تھا۔ ایک چھوٹی سی بستی میں ایک خیمے کے باہر آٹھ نو برس کا ایک بچہ کھڑا تھا۔ ایک کہنے لگا: ’’بھائیو! یہ بھی خوب رہی، ڈاکا نہ ڈال سکے، تو اب اس بچے پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ رکھتے ہو؟‘‘
وہ غراتے ہوئے بولا: ’’تمہارے سر کی قسم! بڑا اچھا شکار ہے… بڑی اچھی قیمت دے گا۔‘‘
’’تمہاری ماں خوشی منائے… یہ بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ شکار کام کا ہے، کسی کے آنے سے پہلے ہی اس پھول کو توڑ لیتے ہیں۔‘‘ تیسرے نے کہا اور ساتھیوں کو جھاڑیوں کی اوٹ میں ہونے کی ہدایت دی۔ پھر اکیلا ہی خیمے کی طرف گھوڑا بڑھانے لگا۔ اس نے بڑی احتیاط سے گھوڑا خیمے کے پاس کھڑا کیا۔ نیچے اترا، پھر کسی چیل کی طرح جھپٹا اور ایک ہی ہاتھ سے بچے کو اٹھا لایا۔اسے گھوڑے کی زین پر پٹخ کر ایک ہاتھ اس کے اوپر رکھا تاکہ وہ نہ گرے اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر خود بھی بڑی مہارت سے اس پر سوار ہوگیا۔ ساتھ ہی اس کاگھوڑا بگٹٹ بھاگنے لگا۔ ساتھی خوشی سے نعرے لگاتے اس کے پیچھے ہولیے۔ معصوم بچے کی چیخ و پکار گھوڑے کے ٹاپوں اور غارت گروں کی ہاہاکار میں دب گئی۔
خیمے کے اندر بچے کی ماں اور اس کی نانی باتوںمیں مصروف تھیں۔ ماں کو پتا ہی نہ چلا کہ بچہ کب کھیلنے کے لیے باہر نکلا۔ وہ تو گھوڑے بھاگنے کی آوازیں سن کر ہی سہم گئی تھی مگر جب اسے بچے کا خیال آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ روتی پیٹتی باہر نکلی تو دیکھنے والے چند ایک لوگوں نے بتایا کہ گھوڑے والے دراصل ڈاکو تھے اور وہ بچے کو اٹھا کر چلتے بنے۔
اب ماں پر غشی کے دورے پڑنے لگے۔ اغوا ہونے والا بچہ اس کا اکلوتا بیٹا اور اپنے باپ کا تو بہت ہی پیارا تھا۔ باپ کو بچے کے بغیر چین ہی نہیں آتا تھا۔ وہ تو بڑی ضد کرکے یمن سے اپنی والدہ سے ملنے آئی تھی، لیکن اسے کیا خبر تھی کہ یہاں یہ الم ناک حادثہ پیش آجائے گا۔ بے چاری سوچنے لگی کہ معلوم نہیں شوہر اس کے ساتھ کیا سلوک کرے؟
باپ کو خبر ہوئی تو سر میں خاک ڈالنے لگا۔ اس کے غم کا کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا تھا۔ مرد ہوکر بھی وہ بیٹے کی جدائی میں پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔
حارثہ کو اچھی طرح علم تھا کہ یہ ڈاکو اس کے لخت جگر کو کہیں دور دراز علاقے میں بیچ دیں گے۔ یوں لاڈ پیار سے پلنے والا ساری زندگی نہ جانے کس حال میں رہے گا۔
باپ نے چاروں طرف گھڑ سوار دوڑادیے۔ قریب کے تمام علاقوں میں بھی پیغام بھجوائے اورمنادی کرائی۔ ماں نے منتیں مانیں کہ بیٹا مل جائے۔ پورا خاندان اس کام میں جت گیا تھا۔
ڈاکو بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ انھوں نے کسی اونچے خاندان کا چشم و چراغ اڑایا ہے، اس لیے انھوں نے بچے کو باہر ہی نہ نکالا۔ اس کی حفاظت یوں کرتے رہے جس طرح قصائی اپنے بکرے کی کرتا ہے۔ اس تلاش میں کئی برس گزرگئے مگر حارثہ نے ہار نہ مانی۔ اس کا دل کہتا تھا کہ بیٹا ضرور مل جائے گا۔
حارثہ ایک دن اپنے گھر میں بیٹے کی یاد میں غمگین بیٹھا تھا کہ اس کے عزیزوں میں سے کچھ لوگ اس سے ملنے آئے۔ یہ لوگ اس سال حج کرکے آئے تھے۔ انھوں نے کہا : ’’حارثہ خوش ہوجاؤ، ہم تمہارے بیٹے سے مل کر آئے ہیں۔‘‘
’’کہاں ہے میرے دل کا ٹکڑا؟ مجھے پوری بات سناؤ۔‘‘ حارثہ ابن شرجیل اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے بولا۔ رشتہ داروں نے بتایا: ’’اے ہمارے چچا کے بیٹے‘‘ ہم اس سال حج کرنے گئے تھے۔ وہاں ہم نے تیرہ چودہ برس کے ایک لڑکے کو دیکھا۔ ہمیں تو وہ تمہارا کھویا ہوا لعل ہی لگا۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ اے شریف باپ کے بیٹے‘‘ تم کس قبیلے سے ہو؟ اس نے بتایا کہ بنی کلب سے۔ہم نے پوچھا کہ تم یہاں اکیلے کیوں ہو؟ اس نے بتایا کہ کچھ برس قبل مجھے ڈاکوؤں نے اٹھالیا تھا۔ پھر مجھے مکہ میں لگنے والے ایک میلے میں بیچ دیا۔ اب میں ایک شریف اور اونچے خاندان کا غلام ہوں۔‘‘
’’کیا تم نے اسے اس کے باپ کی حالت نہ بتائی؟ یہ نہ کہا کہ آنسو بہا بہا کر میری آنکھوں کا پانی خشک ہوگیا ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں، ہم نے تمہارا سارا حال اُس کے سامنے بیان کیا۔ اس نے کہا کہ میرے والد کو تسلی دینا اور کہنا کہ حوصلہ رکھے، غم نہ کرے۔ میں یہاں بہت آرام اور سکون سے ہوں۔‘‘
’’ہائے میری قسمت! پتا نہیں بے چارا کس حال میں ہوگا اور میرا دل بہلانے کو کہہ دیا کہ اچھا ہوں۔ ارے دوستو! کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ میرا ہی بیٹا تھا؟‘‘
’’ہاں، ہاں! اس معاملے میں تو ہمیں ذرا بھی شک نہیں۔ اس نے اپنا اور تمہارا نام بالکل ٹھیک ٹھیک بتایا۔ اسے یہ بھی یاد تھا کہ اسے خیمے کے باہر سے ڈاکوؤں نے اٹھایا تھا۔‘‘
حارثہ اپنے بھائی کعب سے کہنے لگا: ’’اے میرے ماں جائے، چلو ابھی اور اسی وقت چلو۔ مجھے تو بیٹے کو دیکھے بغیر ایک پل چین نہیں۔ ہم مکہ چلتے ہیں۔‘‘
چنانچہ ایک چھوٹا سا قافلہ اسی وقت مکہ روانہ ہوگیا۔ منزلوں پر منزلیں مارتے یہ لوگ مکہ پہنچ گئے۔ انہیں معلوم ہوا کہ بیٹے کو عکاظ نامی میلے میں فروخت کیا گیا تھا اور ان کے خریدار کا نام ’حکیم‘ تھا۔ حکیم ایک معزز قبیلے کا شریف آدمی تھا۔ وہ اس کے گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حکیم نے اسے خریدا ضرور تھا، لیکن پھر اپنی ہمشیرہ کو تحفے میں دے دیا۔ اب وہ حکیم کی بہن کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔
انہیں بتایا گیا کہ وہ جس گھر کی طرف جارہے ہیں، وہ بڑے معزز لوگوں کا گھر ہے۔ وہاں پہنچ کر ان کی ملاقات ایک نہایت پروقار شخص سے ہوئی۔ حارثہ اپنے بیٹے کے آقا کو دیکھتے ہی مطمئن ہوگیا۔ اس شخص کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اس سے کسی کو نقصان ہی نہیں پہنچ سکتا!
حارثہ نے میزبان سے اپنے آنے کا مطلب بیان کیا اور کہا: ’’اے معزز سردار! آپ اور آپ کا خاندان اللہ کے گھر کا نگہبان ہے۔ آپ مصیبت زدوں کی مدد اور قیدیوں کو کھانا کھلانے کے سلسلہ میں شہرت رکھتے ہیں۔ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں کہ میرا بیٹا آپ کی ملکیت میں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ جس قدر رقم چاہیں لے لیں مگر میرے بیٹے کو آزاد کردیں۔ میری آنکھیں اس کا چہرہ دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔‘‘
’’معزز مہمان، آپ کس کی بات کررہے ہیں؟‘‘ میزبان نے انتہائی میٹھے لہجے میں پوچھا۔
’’میں حارثہ کے بیٹے زید کی بات کررہا ہوں۔‘‘
’’اچھا!‘‘ انھوں نے کہا اور کچھ سوچ میں پڑگئے۔
حارثہ نے میزبان کے چہرے پر کچھ بے چینی سی دیکھی۔ وہ منزل کے اس قدر قریب آکر عجیب کیفیت محسوس کررہا تھا۔ تبھی اس کے کانوںمیں آواز آئی: ’’کیا اس کے علاوہ آپ کے یہاں آنے کا کوئی مقصد نہیں؟‘‘
’’نہیں مہربان سردار! ہم تو بیٹے کو منہ مانگی قیمت پر لینے آئے ہیں۔‘‘
’’تو پھر سنئے! ہم زید کو بلائے لیتے ہیں۔ اگر وہ آپ کو پہچان لے اور آپ کے ساتھ جانے کو راضی ہوجائے تو اسے لے جائیے۔ میں اس کے عوض ایک پائی بھی نہ لوں گا، لیکن اگر وہ آپ کے ساتھ جانے پر رضا مند نہ ہو تو پھر مجھے پسند نہیں ہوگا کہ آپ لڑکے سے زبردستی کریں۔‘‘
حارثہ اور اس کا بھائی کعب ایک ساتھ بولے: ’’اے شریف زادے، اس سے بڑھ کر اور اچھی بات کیا ہوسکتی ہے۔ آپ نے تو حق اور انصاف سے بڑھ کر بات کہی ہے۔‘‘
اب زید کو بلایا گیا۔ وہ باپ کو دیکھتے ہی ان سے لپٹ گیا۔ اس سے پوچھا گیا ’’کیا تم ان بزرگوں کو پہچانتے ہو؟‘‘
وہ بولا: ’’کیوں نہیں آقا، یہ میرے پیارے والد ہیں اور یہ محترم چچا!‘‘
’’تو زید، تم مجھے بھی پہچانتے ہو۔ میرا خاندان بھی تمہیں معلوم ہے۔ میں نے تم سے جو معاملہ رکھا، اس سے بھی تم بخوبی واقف ہو۔ فیصلہ تمہارے اختیار میں ہے۔ تم پر کوئی زبردستی نہیں، تم چاہو تو خوشی کے ساتھ اپنے باپ کے ساتھ جاسکتے ہو۔ چاہو تو یہاں بھی ٹھہر سکتے ہو، تم پر کوئی زور نہیں۔‘‘
زید کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آگئی۔ وہ بولا: ’’میں نے آپ کا حسنِ سلوک دیکھا ہے… خدا کی قسم اس کے بعد میں ہرگز آپ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔‘‘
زید کے لہجے میں ایک جذبہ اور محبت کا ایک سمندر تھا۔ باپ اور چچا نے حیرت سے بیٹے کی طرف دیکھا۔ باپ، جو نہ جانے کب سے بیٹے کی محبت کا چراغ سینے میں جلائے، اسے وادی وادی تلاش کرتا پھر رہا تھا، حیرت اور دکھ سے بیٹے کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر بولا:
’’اے زید! تم پر افسوس، تم آزادی پر غلامی کو قربان کررہے ہو؟ خدا کی قسم تمہاری تلاش میں کون سا ایسا پتھر ہوگا جو میں نے نہیں الٹا اور اب تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
زید بولے: ’’اے والد محترم! آپ درست فرماتے ہیں۔ لیکن میں نے ان کی ذات میں جو کچھ دیکھا ہے، انہیں جس طرح کا خوب پایا ہے، اس کے بعد یہ میرے بس سے باہر ہے کہ میں انہیں چھوڑدوں۔‘‘
زید کا فیصلہ اٹل تھا۔
باپ اور چچا حیرت سے بیٹے کا فیصلہ سن رہے تھے کہ وہ عظیم ہستی… حضرت محمد ﷺ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے زید کا بازو پکڑا اور اس کے چچا اور والد کو بھی ساتھ آنے کے لیے کہا۔ کعبہ میں پہنچ کر انھوںنے کہا : ’’میں تم سب لوگوں کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ آج سے زید میرا بیٹا ہے۔ یہ میرا وارث ہے اور میں اس کا وارث۔‘‘
اس اعلان سے زید کے والد اور چچا کا چہرہ کھل اٹھا۔ سوچنے لگے کہ انہیں تو بیٹے کی عزت اور بہتری سے غرض ہے۔ اگر وہ یہاں خوش ہے تو میری خوشی بیٹے کی خوشی کے ساتھ ہے۔ گویا انہیں احساس تھا کہ بچوں کے معاملات میں ان کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے۔
محمدﷺ نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ جب چاہیں یہاں آکر اپنے بیٹے سے مل سکتے ہیں اور زید کو بھی نصیحت کی کہ وہ اپنے والدین کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے ان کے ہاں جایا کریں۔ یوں حضرت زیدؓ بن حارثہ نے اپنے حقیقی باپ کے بجائے محمدﷺ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ چند برس بعد جب محمد ﷺ کو اللہ نے اپنا رسول مبعوث کیاتو زیدؓ آزاد کردہ غلاموں میں سب سے پہلے شخص تھے جو مسلمان ہوئے۔
انہیں حضرت خدیجہؓ کے بھائی حکیم نے عکاظ کے بازار سے خریدا اور تحفے میں ام المؤمنین خدیجہؓ کے حوالے کردیا تھا۔ تب سے زیدؓ کو آپ ﷺ کی خدمت میں لگادیا گیا تھا۔ زیدؓ چند ہی دن بعد آپﷺ سے اس قدر مانوس ہوگئے تھے کہ ساری زندگی آپﷺ کے پاس رہے۔ حضرت زیدؓ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ساری زندگی کبھی نہیں ڈانٹا!
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146