ذی قعدہ وہ ماہ مبارک ہے جس میں دنیا کے چپہ چپہ سے اللہ کے چاہنے والے جوق در جوق مکہ مکرمہ کی طرف ادایگی حج کے لیےکھنچے چلے آتے ہیں ۔ حج فرض عبادات میں ایک اور تمام انبیاء کی سنت ہے ۔
شہر مکہ مکرمہ کا جاہ و جلال اورعظمت و توقیر کعبتہ اللہ سے ہے ۔ یہ سارے جہاں کے مسلمانوں کے نزدیک مقدس ترین اور عزت واحترام والا شہراورنزول ملائکہ کا مرکز ہے۔ یہ مقدس سر زمین پیغمبروں کی جائے پیدائش ہے اور اسی سر زمین پر خاتم المرسلین حضرت محمد صلی االلہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہوئے اور معلم انسانیت صل اللہ علیہ السلام کے لیے اسلام کی تبلیغ و ترویج کے مرکز بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ شہربےحد محبوب تھا۔ مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے مکہ ! تو کتنا ذیشان شہر ہے اور مجھے کس قدر محبوب ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکا لتی تو میں تیرے سوا کسی دوسری جگہ قیام نہ کرتا ۔‘‘
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ ’’میں نہیں جانتا کہ مکہ مکرمہ کے سوا زمین پر کوئی ایسا شہر ہو جس میں نیکیاں سو گنا بڑھ جاتی ہوں اور نماز کی ایک رکعت کے بدلے سورکعت کا اجر ملتا ہو ۔ بیت اللہ کی طرف ایک نظرڈالنے سے ایک سال کی عبادت کا ثواب نصیب ہوتا ہو ۔ ایک درہم صدقہ کرنے سے ایک ہزار درہم کا بدلہ ملتا ہو ۔‘‘
قرآن مجید کا فرمان ہے:’’بے شک پہلا اللہ کا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر ہوا وہ مکہ المکرمہ میں ہے جو اس میں داخل ہوا اسے امن مل گیا۔ برکت والا، جہاں والوں کے لیے، اس میں نشانیاں ہیں ۔ اوراللہ کا حق ہے لوگوں پراس گھر کا حج کرنا،جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی۔‘‘
اس مقدس شہر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی تعمیر کے لئےحضرت ا براہیم علیہ السلام کوآزر کے گھر، جو بت بنانے کے فن کا ماہر تھا، مبعوث فرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بتوں سے بیزاری کا اعلان کیا تو بابل کا حکمراں خفا ہو گیا۔ پاداش میں ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیاجو مشیت الٰہی سے گلزاربن گئی اور پھرابراہیم علیہ السلام اپنے بھتیجے لوط علیہ السلام اور اپنی بیوی کو لے کر بابل سے نکل گئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کوئی اولاد نہ تھی۔ ابراہیم علیہ السلام اور بی بی ہاجرہ نےاولاد کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی جسے شرف قبولیت بخشا گیا۔
ابراہیم علیہ السلام کی زندگی آزمائشوں اور قربانیوں سے عبارت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کے لیے حکم دیا کہ آپ علیہ السلام بی بی ہاجرہ اور شیر خوار بچے کوبے آب و گیاہ بیابان میں چھوڑ آئیں۔ وہ بیوی وبچہ کولے کر چلے ۔ پانی کا ایک مشکیزہ اور کھجور کی ایک تھیلی حوالے کی اور واپسی کی تیاری کرنے لگے تو بیوی نے صرف یہ سوال کیا: کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا ’’ہاں۔‘‘ اس پر شاکرو فرماں بردار بیوی کا جواب تھا: ’’پھر اللہ تعالیٰ ہمیں ضائع نہیں کرے گا ،اسی کا بھروسہ اور سہارا ہے اور وہی محافظ اور نگہبان ہے۔‘‘ نہ گلہ نہ شکوہ نہ وا ویلا ، صبر و شکر کا پیکر ، حکم الٰہی پر سر تسلیم خم کیے بچہ کو گود میں لے کر بیٹھ گئیں ۔
کھجور اور پانی جلدی ہی ختم ہو گئے ۔ شیر خوار بچہ بھوک و پیاس کی شدت سے بلبلا اٹھا ۔ بیٹے کا بھوک و پیاس سے تڑپنا صبر و استقلال کا پیکر ماں کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا۔ بچے کو ایک طرف لٹایا، اضطراری حالت میں قریب کی پہاڑی صفا پر چڑھ کر کھوجتی نظریں ڈالیں کہ کوئی انسان نظرآجائے یا پانی۔ مایوس و نامراد بچے کی خاطردوڑتی ہوئی اترآئیں ۔ پھر دوسری پہاڑی ، مروہ پر مضطربانہ چڑھیں ۔ تجسسانہ نظریں چاروں طرف ڈالیں۔ مایوس نظریں پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس لوٹ آئیں ۔ تاقیامت ممتا کی ماری ماں کا اپنے لخت جگر کے لیے وارفتگی کا منظر آج بھی حجاج کرام حج کے موقع پر دہراتے نظر آئیں گے۔ یہ حج کا حصہ بنا ۔ وقفہ وقفہ سے بی بی حاجرہ نے سات مرتبہ صفا و مروہ کی پہاڑیوں پر چڑھنے اور اترنے کے عمل کو دہرایا۔ ساتویں مرتبہ بچہ کے قریب آئیں تو عجیب آواز نے چونکا دیا۔ دیکھا ! بچہ کے قریب ایک بزرگ کھڑے ہیں۔ آپ جبرایل علیہ السلام تھے۔ آپ نے اپنی ایڑی زمین پر ماری ۔ پانی کا چشمہ ابل پڑا ۔ بی بی حاجرہ نے بچہ کو فوراً پانی پلایا۔ خود پیا اورجلدی جلدی اردگرد کی مٹی سے باڑھ باندھنے لگیں اورساتھ ساتھ زبان سے بے اختیار زم زم، زم زم کے الفاط ادا ہو رہے تھے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت بی بی حاجرہ پررحم فرمائے ،اگروہ پانی کو اس طرح نہ روکتیں تو آج زم زم کنوئیں کے بجائے ایک جاری نہر کی شکل میں ہوتا۔ اضطراری حالت میں بی بی حاجرہ کے منہ سےنکلےالفاظ سے کنویں کو موسوم کردیا گیا ۔ زم زم کے معنی ہیں ’ٹہر جا‘۔
اللہ تعالیٰ کو شوہر کی فرمانبردار، ممتا کی پیکر، صبر کا غیر متزلزل پہاڑ بی بی ہاجرہ کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ تا قیامت بیت اللہ کی زیارت کرنے والے حجاج کرام صفا و مروہ کے درمیان اسی وارفتگی و بے تابی سے دوڑتے رہیں گے ۔ جسے سعی سے موسوم کیا گیا ہے ۔ اس سنگلاخ وادی میں صاف وشفاف و شیریں وافر مقدار میں ہزاروں سال سے پانی کی موجودگی معجزہ ہے۔ جولاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو سیراب کرتا ہے ۔
اسماعیل علیہ السلام بھاگ دوڑ و کھیل کود کے قابل ہو گئے تو ابراہیم علیہ السلام کو ایک اور آزمائش سے گزرنا پڑا۔ خواب کے ذریعے حکم ملتا ہے کہ وہ اپنی محبوب چیز کو اللہ کے نام پر قربان کر دیں۔ مسلسل تین رات خواب میں حکم ملا تو جان لیا کہ یہخواب من جانب اللہ ہے ۔ بغیر توقف کے ذبح کا عزم کر لیا۔ پدری شفقتیں نچھاور کرنے والے باپ صبر و استقلال کا پیکر بن گئے۔ رضاے الٰہی پر فوقیت دی۔ محبت الٰہی کے اس بے مثال مظاہرہ پر چشم فلک ششدر رہ گی۔ بیٹے سے مشورہ کیا۔ خود اپنے آپ میں حنیف اور صابر ماں کے تربیت یافتہ فرزند ایک لمحہ کے توقف کے بغیر خوشدلی سے تیار ہوگئے۔ کس نے سکھائے یہ آداب فرزندی ’’کہا، ابا جان جس کام کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے پورا کیجئے ۔ انشاء اللہ آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے ۔‘‘
دل تھام کے آنکھوں کے سامنے منظر کھینچیں۔ ابراہیم علیہ السلام ،اسماعیل علیہ السلام کا ہا تھ تھامے ذبح کرنے لے جا رہے ہیں۔ شیطان کوباپ بیٹے کی حکم ربانی کوعاجلانہ تکمیل کو پہنچا تے دیکھ کر بے حد مایوسی ہوئی تو وہ بی بی ہاجرہ کو ورغلانے چلا۔ کیونکہ اسے پتہ تھا کہ عموماً عورتیں نرم دل واقع ہوتی ہیں اور خصوصا اپنے جگر پاروں کے لئے۔ بی بی حاجرہ سے پوچھا ’’کہ باپ بیٹے کو لے کر کہاں جا رہے ہیں۔‘‘ بی بی ہاجرہ نے جوابا کہا ۔ ’’کسی کام کو گئے ہوئے ہیں ۔‘‘ اس نے کہا:’’باپ ، بیٹے کو ذبح کرنے لے جا رہے ہیں۔‘‘ پوچھا:’’کیوں ذبح کریںگے ؟‘‘ شیطان نے کہا: ’’اللہ نے انہیں حکم دیا ہے۔‘‘ تو بی بی ہاجرہ نے کہا:’’ حکم کو جلد پورا کرنا بہتر ہے۔‘‘ ادھر سے نامراد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف آیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوعلم ہو گیا کہ فریضہ انجام دینے سے روکنے کی کوشش شیطان ہی کی ہو سکتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ سات کنکریاں مار کر بھگا دیا۔ یہی وہ محبوب عمل ہے جو حج کے دوران منی میں تین جمرات پر سات سات کنکریاں مار کر ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں کیا جاتا ہے ۔
باپ اور بیٹے کی مثالی قربانی رہتی دنیا تک ایک نمونہ ہے، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والوں کے لیے۔ قربانی کی جگہ پہنچے تو بیٹا باپ سے فرماتا ہیں:’’ابا جان میرے ہاتھ پاؤں کو اچھی طرح باندھ دیں تاکہ تڑپ نہ سکوں۔ اپنے دامن کو بچانا کہیں میرے خون کے چھینٹوں سے رنگین نہ ہو جائیں۔اس طرح میرے ثواب میں کمی ہوجائے۔ میری والدہ خون دیکھ کر دل برداشتہ نہ ہو جائیں۔
باپ بیٹے کی نادر قربانی پر ساری کائنات محوحیرت دیکھ رہی تھی۔ ایسے ہوتے ہیں اللہ کی راہ میں قربانی دینے والے اور قربان ہونے والے، آزمائشوں پر پورا اترنے والے۔ باپ نے بیٹے کی فرمانبرداری پر فرط جذبات سے پیشانی چومی ، نم آنکھوں سے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی کہ پدری محبت عود کر نہ آئے اور قربانی میں خلل نہ پیدا ہو۔ فرض کی ادائیگی کے لیے جیسے ہی چھری گردن پررکھی ایک آواز نے انہیں روک لیا ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام ایک فربہ مینڈھا لیے کھڑے کہہ رہے ہیں کہ اسماعیل علیہ السلام کی جگہ یہ مینڈھا قربان کریں۔ اللہ کوآپ دونوں کی قربانی اسقدر محبوب ہوئی کہ اسے عظیم قربانی سے منسوب فرمایا اور رہتی دنیا تک قربانی نہ صرف حاجیوں پر فرض کر دی گی بلکہ ہر صاحب استطاعت پر بھی ۔ اسماعیل اعلیہ السلام کوذبیح اللہ کےعالیشان خطاب سے نوازا۔
اسماعیل علیہ السلام اورکچھ بڑے ہوئے تو باپ بیٹے نے مل کراذن خداوندی کے تحت اللہ تعالی کے گھر کی تعمیر شروع کی۔ جیسے جیسےکعبۃ اللہ کی بنیاد یں اونچی ہوتی گئیں، آپ ابراہیم علیہ السلام مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر دیواریں تعمیر کر نے لگے۔ دعا بھی کر تے جاتے تھے۔ جب کعبۃ اللہ بن کر تیار ہو گیا تو لوگ مناسک حج اداکر نے کے لیے جوق در جوق آنے لگے۔ یہ اس دعا کا ثمرہ ہے جو انہوں نے اللہ تعالی کے حضور خلوص دل سے کی تھی جب بیوی اور بچے کو سنگلاخ وادی میں لا کر بسایا تھا۔ واپسی پر ایک جگہ رک گیے اور بارگاہ رب العزت میں انکساری سےان کے لئے دعا کی: ’’اے ہمارے رب اپنی اولاد کو تیرے محترم گھر کے قریب ایک چٹیل میدان میں جو نا قابلِ زراعت ہے آباد کرتا ہوں تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں ۔ تو لوگوں کی دلوں کوا نکی طرف مائل فرما دے اورانھیں پھلوں سے رزق عطا فرما تاکہ تیرا شکر ادا کریں۔‘‘ رب العزت نے دعا کو شرف قبولیت سے نوازا۔ یہی دعائے ابراہیمی کی برکت ہے کہ مکہ مکرمہ میں دنیا بھر کے پھل ہر موسم میں ملتے ہیں ۔ تعمیل خداوندی کا ایساعدیم النظیر اور قابل رشک مظاہرہ چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا ہوگا ، جیسا باپ، بیٹے اور بیوی نے تعمیل حکم الہی میں کیا تھا۔ آپ علیہ السلام آزمائش کے ہر مرحلے میں پورے اترے اور ہر قربانی کو حسن و خوبی سے ادا کیا اورحنیف کہلائے۔ll