جونہی گاڑی جھانسی کے اسٹیشن پر رکی، ڈبے میں کھانے پینے کی مختلف اشیاء بیچنے والے آگئے۔ انہی میں وہ نابینا بھی شامل تھا جو ادھیڑ عمر کا تھا۔ ایک ہاتھ میں بیساکھی تھی اور دوسرے کندھے پر ایک تھیلا۔ سر اور داڑھی کے بال قدرے بے ترتیب اور کپڑے بھی معمولی سے تھے۔ چائے، پھل اور سوڈا واٹر بیچنے والے، اترتے چڑھتے مسافروں میں سے رستہ بناتے آوازیں لگا رہے تھے، لیکن وہ ایک طرف کھڑا تھا۔ جب گاڑی چل پڑی، اشیائے خوردنی بیچنے والوں میں سے اکثر دوسرے ڈبوں میں چلے گئے اور مسافر اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تو پہلی مرتبہ اس نے آواز لگائی۔ وہ میٹھی گولیاں اور ٹافیاں بیچ رہا تھا اور خریدار سے پیسے لے کر گنے بغیر جیب میں ڈال لیتا اور مطلوبہ تعداد میں پیکٹ نکال دیتا۔ اس کا بایاں پاؤں مڑا ہوا تھا۔ وہ معذور تھا مگر مانگنے کے بجائے محنت کرکے روزی کما رہا تھا۔ اسی بات نے مجھے اس کی طرف متوجہ کیا۔جبکہ تھوڑی دیر پہلے اسی ڈبے سے چند ہٹے کٹے مانگنے والے اترچکے تھے جنہیں ہاتھ پھیلانے میں کوئی عار نہ تھی۔
یہ ایکسپریس گاڑی تھی اور دہلی تک اس کے پانچ چھ اسٹاپ تھے، تاہم اندر ہی اندر دوسرے ڈبوں میں جایا جاسکتا تھا۔ چند پیکٹ ہمارے ڈبے میں فروخت کرنے کے بعد وہ اگلے ڈبے میں چلا گیا اور میں بھی وقتی طور پر اسے بھول گیا۔ دوسرے اسٹاپ کے بعد وہ پھر ہمارے ڈبے میں آگیا، لیکن گولیاں ٹافیاں بیچنے کے بجائے دروازے سے ذرا ہٹ کر فرش پر خاموش بیٹھ گیا اور بیساکھی بھی ایک طرف ٹکا دی۔ گاڑی میں بھیڑ نہیں تھی اور کئی نشستیں خالی تھیں۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے برابر والی خالی نشست پر بیٹھ گیا اور ایک پیکٹ کے لیے پیسے دینا چاہے۔ دراصل میں اس بہانے اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے معذرت کی کہ پیکٹ ختم ہوگئے ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ برابر والی نشست خالی ہے، لیکن اس نے شکریہ کے ساتھ فرش پر ہی بیٹھے رہنے کو ترجیح دی۔ اس نے کہا: ’’بابوجی! یہ تو ٹکٹ والوں کا حق ہے۔ ریلوے والوں کی یہی بڑی مہربانی ہے کہ روزی کمانے کے لیے بلا ٹکٹ سفر کرنے پر منع نہیں کرتے۔‘‘ اس سے پہلے میں نے کبھی بلا ٹکٹ سفر کرنے والوں کے اس پہلو پر غور نہیں کیا تھا۔ میں قانون پسند شہری کی حیثیت سے ہر بے ٹکٹ مسافر کو قومی مجرم سمجھتا تھا۔
میں نے پوچھا : ’’بابا جی! کیا آج کم پیکٹ لائے تھے؟‘‘
’’میں روزانہ بیس پیکٹ لاتا ہوں اور وہ عموماً دہلی تک بکتے ہیں۔ آج اگلے ڈبوں ہی میں سارے بک گئے۔ دہلی سے واپسی پر مزید بیس پیکٹ لے لیتا ہوں۔ اگر اس دن وہ سب نہ بکیں گے تو اگلے روز اتنے کم خریدتا ہوں۔ یہی میرا تقریباً روز کا معمول ہے۔‘‘ اس نے وضاحت سے بتایا۔
’’آپ بیس سے زیادہ پیکٹ کیوں نہیں لاتے؟‘‘مجھے اس کی یہ قناعت پسندی عجیب سی لگی۔
’’میری اکیلی جان ہے۔ ہر پیکٹ پر ایک روپیہ بچ جاتا ہے۔ اس طرح تیس چالیس روپئے روزانہ مل جاتے ہیں جو میری ضرورت کے لیے بہت ہیں۔ اللہ کا شکر ہے اچھی گزر بسر ہوجاتی ہے۔‘‘
’’باباجی! کیا آپ نے شادی ہی نہیں کی یا اولاد نہیں ہوئی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اولاد ہی نہیں ہوئی۔ گھر والی کو فوت ہوئے ابھی چند ہی سال ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا۔
’’کیا آپ نابینا پیدائشی طور پر ہیں اور یہ پاؤں کو کیا ہوا تھا؟‘‘ میں نے دوسرا سوال کیا۔
اس نے چند لمحے توقف کے بعد کہا : ’’پیدائشی طور پر تو میں دیکھ سکتا تھا، مگر بچپن میں بیماری کی وجہ سے بینائی جاتی رہی۔ اور چند سال پہلے سڑک سے ذرا ہٹ کے کھڑا تھا کہکار نے پاؤں بری طرح کچل دیا۔‘‘
گاڑی کی رفتار کم ہورہی تھی۔ غالباً اسٹاپ نزدیک آگیا تھا۔ پلیٹ فارم پر گاڑی کے رکتے ہی اشیائے خوردو نوش بیچنے والے اندر آگئے۔ چند مسافر اترے اور کچھ سوار ہوئے۔ میں نے ایک پیالی چائے لی اور پینے لگا۔ وہ اسی دوران پلیٹ فارم پر اترچکا تھا۔ میں ڈبے سے باہر دیکھنے لگا تو دیکھا کہ پلیٹ فارم پر وہ پانی پی رہا ہے۔ پانی پینے کے بعداس نے ایک بوڑھی بھکارن کو کچھ پیسے دئے اور واپس آکر اپنی جگہ آبیٹھا۔ میں نے اس سے چائے کا پوچھا تو اس نے بڑی نرمی سے انکار کردیا اور سر جھکا کر زیر لب کچھ پڑھنے لگا۔
گاڑی پھر چل پڑی۔ اچانک ڈبے میں دو بھکاریوں کی آوازیں گونجیں۔ وہ دونوں نابینا تھے اور اپنی اسی معذوری کے حوالے سے بھیک مانگ رہے تھے۔ میں اس کے چہرے کے تاثرات کو دیکھنے لگا لیکن وہ بدستور سرجھکائے کچھ پڑھ رہا تھا۔ جب وہ بھکاری میرے نزدیک آگئے تو اس نے جیب سے چند روپے نکالے اور ان کی طرف بڑھا دئے۔ ’’اللہ تیری خیر کرے۔ سدا آنکھیں سلامت رہیں۔ آنکھیں بڑی ’’نیامت‘‘ (نعمت) ہیں۔‘‘ بھکاریوں نے دعا دی۔
’’بابا جی! آپ نے بینائی جانے سے پہلے کچھ پڑھا لکھا تھا؟‘‘ میں نے اسے ایک بار پھر مخاطب کیا۔
’’میرا باپ تعلیم دلانا چاہتا تھا اور اس نے مجھے اسکول میں داخل بھی کروادیا تھا، لیکن اسی برس میں بیمار پڑگیا اور بینائی جاتی رہی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ابھی آپ کیا پڑھ رہے تھے؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’اچھا، وہ! دراصل میری کٹیا کے نزدیک ایک مسجد ہے جہاں میں نماز پڑھتا ہوں، مولوی صاحب نے کچھ کلمے بتادئے تھے، بس وہی پڑھتا رہتا ہوں۔‘‘
مجھ سے نہ رہا گیا اور پوچھ ہی بیٹھا: ’’باباجی! آپ نے ان مانگنے والوں کو پیسے کیوں دئے جبکہ وہ بھی آپ کی طرح محنت کرکے کما سکتے ہیں؟‘‘
’’بابو! میں تو ان پڑھ ہوں۔ البتہ مولوی صاحب سے ایک روز وعظ میں سنا تھا کہ دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہوتا ہے۔ اور پھر شاید ان کے کھانے والے بھی زیادہ ہوں۔‘‘ اس نے ان کا دفاع کیا۔
’’لیکن آپ نے پلیٹ فارم والی بھکارن کو بھی پیسے دئے تھے۔‘‘ میں نے کہا۔
میری اس بات پر اس کے چہرے پر ندامت کے تاثرات ابھرنے لگے جیسے کوئی چوری کرتا پکڑا جائے۔ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا: ’’اچھا، تو آپ دیکھ رہے تھے! وہ بڑھیا روزانہ یہیں بیٹھتی ہے۔ معذور اور بے سہارا ہے، بمشکل پلیٹ فارم تک آتی ہے۔ یہ سب معلوم ہونے کے بعد سے میں روزانہ اس کی کچھ مدد کرتا ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔