عفو ودرگزر اور اسوئہ رسولؐ

ظفر حجازی

عفو کا مطلب ہے معاف کردینا، درگزر کرنا، انتقام نہ لینا یعنی کسی دوسرے شخص کی برائی یا زیادتی پر، باوجود طاقت رکھنے کے انتقام نہ لیا جائے اور معاف کردیا جائے۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ طاقت رکھتا ہے، اسے ہر چیز پر قدرت حاصل ہے، لیکن وہ لوگوں کی غلطیوں پر انہیں فوراً سزا نہیں دیتا، معاف کرتا رہتا ہے۔ اس کا بندہ توبہ کرتا ہے تو وہ توبہ قبول کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی ایک دوسرے کے قصور معاف کردیا کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

ولیعفوا وا لیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللّٰہ لکم واللّٰہ غفور رحیمo (النور:۲۲)

’’انہیں معاف کردینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے۔‘‘

حضور اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ بنی نوعِ انسان کے لیے ہر حیثیت سے بہترین نمونہ ہے۔ آپﷺ نے عفو و درگزر کی تعلیم دی اور خود اس پر عمل کرکے نمونہ پیش کیا۔ حضور اکرم ﷺ کی ساری زندگی عفو ودرگزر، معافی اور تحمل اور برداشت کا حسین مرقع ہے۔ قرآنِ مجید میں معاف کردینے، دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کرنے اور صبر و برداشت کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ عفوودرگزر سے کام لیتا ہے اگر وہ انسانوں کی خطاؤں پر سزا دینے لگے اور فوراً پکڑنے لگے تو یہ دنیا ویران ہوجائے گی۔ اللہ کی صفات میں معاف کردینے کی صفت عظیم شامل ہے۔ اللہ کے بندوں کو بھی حکم ہے کہ اللہ کی صفات اپنے اندرپیدا کرو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

خذ العفو وامر بالمعروف واعرض عن الجاہلین۔ (الاعراف:۱۹۹)

’’اے نبی! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے معاف کرنے والوں کو اپنے نیک بندوں میں شمار کیا ہے:

والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس۔ (آل عمران: ۱۳۴)

’’جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کو معاف کردیتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے معافی کا خاص طور پر ذکر کیا ہے:

واذا ما غضبوا ہم یغفرون۔ (الشوریٰ: ۳۷)

’’اور اگر غصہ آجائے تو درگزر کرجاتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق عفو و درگزر کی تعلیمات پر عمل کا بہترین نمونہ حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں ملتا ہے۔ کفارِ مکہ نے حضور اکرم ﷺ پر ظلم و ستم ڈھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ وہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے حضور اکرم ﷺ کے خلاف جو کچھ کرسکتے تھے، انھوں نے کیا۔ انہیں کوئی روکنے والا نہ تھا۔ انھوں نے حضور اکرمﷺ کی دینی دعوت کو ٹھکرادیا۔ آپؐ کی توہین و بے حرمتی کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، اور تمام ہتک آمیز اور تخریبی سرگرمیوں کی انتہا کردی کہ ایک رات حضورِ اکرم ﷺ کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے کے لیے ان کے مکان پر پہنچ گئے۔ حضور اکرم ﷺ نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور صرف ایک دو روز کے لیے نہیں بلکہ سالہا سال یہ اذیت ناک سلوک برداشت کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر انہی میں سے وہ لوگ بھی تھے جو حضور اکرمﷺ کے سامنے خوفزدہ کھڑے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ عمر بھر وہ حضور اکرمﷺ کے ساتھ برا سلوک کرتے رہے تھے، انہیں احساس تھا کہ آج ان کی گردن اڑا دی جائے گی۔ لیکن حضور اکرم ﷺ نے یہ کہہ کر انہیں معاف فرمادیا: لا تثریب علیکم الیوم۔

معاف کردینا تقویٰ کی بہت بڑی نشانی ہے۔ حکمِ خداوندی ہے کہ معاف کردیا کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ حضور اکرمﷺ کے متعلق حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسولِ اکرم ﷺ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ لیا ہو۔ حضوراکرمﷺ نے طائف والوں کو بھی معاف کردیا حالانکہ انھوں نے آپ ﷺ کو سخت پریشان کیا تھا اور آپ کی دعوتِ دین کا نہ صرف انکار کیا بلکہ اوباشوں نے آپؐ کو پتھروں سے زخمی بھی کردیا تھا۔

ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ ایک درخت کے نیچے آرام فرمارہے تھے، آپﷺ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ ایک کافر نے آپ ﷺ کی تلوار آپ ﷺ پر سونت لی اور کہا: ’’آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’میرا اللہ۔‘‘ کافر کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اور وہ کانپنے لگا۔ آپؐ نے عفو ودرگزر سے کام لیا اور اسے معاف کردیا۔

حضور اکرم ﷺ کے چہیتے چچا حضرت حمزہؓ کو وحشی نے شہید کردیا تھا۔ ان کی لاش کی سخت بے حرمتی کی گئی اور حضرت سفیانؓ کی بیوی ہندہ نے سید الشہدا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر وحشی کو معاف کردیا۔ فتحِ مکہ کے بعد ہندہ ایمان لے آئی، حضور اکرم ﷺ نے اس کو بھی معاف کردیا۔ صفوان بن امیہ لوگوں کو حضور اکرم ﷺ کے قتل پر اکساتا رہتا تھا، فتح مکہ کے موقع پر حضور اکرم ﷺ نے اس کو بھی معاف کردیا۔ حضرت ابوسفیانؓ نے فتحِ مکہ سے قبل حضورِ اکرم ﷺ کو اذیت دینے، نقصان پہنچانے اور مسلمانوں کو زک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی، متعدد لڑائیاں لڑیں، لیکن فتحِ مکہ کے موقع پر حضور اکرمﷺ نے انہیں نہ صرف معاف کردیا بلکہ ان کے گھر کو دارالامان قرار دے دیا۔ حضور اکرم ﷺ کا یہ حسنِ اخلاق اور عفوودرگزر کا معاملہ سب کے لیے تھا، یہ کسی خاص طبقے تک محدود نہ تھا۔ بلکہ آپ ﷺ نے میدانِ جنگ کے دشمنوں، یہودیوں، منافقوں اور کافروں سب کے ساتھ تحمل و برداشت اور معاف کردینے کا جو اعلیٰ کردار پیش کیا اس کی نظیر انسانی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ بعض یہودیوں نے خیبر کی جنگ میں شکست کے بعد مقتول مرحب کی بہن زینب بنت حارث کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مرحب کا بدلہ لے اور حضور اکرم ﷺ کو کھانے میں زہر دے دے۔ چنانچہ اس نے بکری کے شانے میں زہر ملا کر حضور اکرم ﷺ کو کھانے کی دعوت دی۔ چند صحابہ بھی حضور اکرمﷺ کے ساتھ کھانے میں شریک تھے۔ جب آپ ﷺ کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ کھانے میں زہر ملایا گیا ہے تو آپ ﷺ نے صحابہ کو کھانے سے ہاتھ روک لینے کے لیے کہا۔ زینب بنت حارث کو لایا گیا تو اس نے اعتراف کرلیا کہ کھانے میں زہر ملایا گیا تھا۔ تاہم حضور اکرم ﷺ نے اس خاتون اور اس کو ورغلانے والے یہودیوں کو معاف کردیا اور فرمایا کہ تم لوگ کبھی مجھ پر تسلط حاصل نہ کرسکو گے۔

حضور کا اسوئہ حسنہ اختیار کرنے ہی میں انسانی مسائل کا حل ہے۔ آج بھی انسان طرح طرح کی روحانی، مادّی، معاشی اور سماجی پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے اور اس کے مسائل روز افزوں ہیں۔ ہر طرف تعلیم و تہذیب کی ترقی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں لیکن معاشرتی مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ عدالتیں مقدمات سے بھری پڑی ہیں، انتقامی جذبات کی شدت اورعفو و درگزر سے کام نہ لینے کے باعث معاشرہ نفرتوں، کدورتوں اور دشمنیوں سے بھرا ہوا ہے۔ انسان کا صبر و قرار چھن گیا ہے۔ اللہ کے بندوں کے حقوق تلف ہورہے ہیں اور انسان خود غرضی و مفاد پرستی کے تحت انسانیت کا گلا گاٹ رہا ہے۔ سب سے خطرناک اور تکلیف دہ صورتِ حال ہمارے گھروں کی ہے جہاں نہ باپ بیٹے کی بات مانتا ہے اور نہ بیٹا باپ کی بات برداشت کرتا ہے۔ شوہر بیوی کے تنازعات اور مارپیٹ، بھائی بھائی کے درمیان عداوت و دشمنی، باپ بیٹے کے خراب تعلقات، ساس بہو اور نند بھاوج کی چپقلش اور گھروں میں لگے نفرت و عداوت کے انبار ہمارے معاشرہ کو دشمنی کی بھٹی میں دھکیلنے اور گھروں کو منتشر بنانے میں مسلسل مصروف ہیں۔ اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ ہمارے دلوںسے جذبہ عفو و درگزر ختم ہوگیا ہے اور ہم کسی کی بات کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ایسی صورتحال میں ہمیں حضور اکرم ﷺ کا اسوئہ حسنہ اپنانے اور عفو و درگزر کی تعلیم کو رگ و ریشے میں اتار لینے کی ضرورت ہے اور یہی ہمارے معاشرتی اور گھریلو مسائل کا حل بھی ہوسکتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں