عفو و درگذر کا نبوی اسوہ

حافظؔ کرناٹکی

حضور ﷺ کی پوری زندگی اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ نے دشمنوں کو خود بھی معاف فرمایا اور دوسروں کو بھی عفوودرگذر سے کام لینے کی تلقین کی۔ حضور ﷺ نے تو اپنے جانی دشمنوں کو بھی خندہ پیشانی اور دریادلی کے ساتھ معاف کردیا۔ نہ صرف معاف کردیا بلکہ ان کے ساتھ اچھا سلوک بھی کیا۔ حضور ﷺ نے اپنی پوری زندگی اس بات کی کوشش کی کہ سماج و معاشرے میں امن و امان اور بھائی چارہ قائم رہے۔ لوگ ایک دوسرے سے محبت اور احترام کا برتاؤ کریں تا کہ سکون دل کے ساتھ ہر انسان زندگی گذار سکے۔ حضورﷺ نے تو صاف صاف کہا ہے کہ سماج اور معاشرے کا سب سے براانسان وہ ہے جو فساد پھیلاتا ہے جھگڑے کرتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا ’’لوگوں میں سب سے برا آدمی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو جھگڑالو ہے۔‘‘
خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کی جو پہچان بتائی ہے اس میں یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ وہ لوگ ظلم و زیادتی کا بدلہ بھی اتنا ہی لیتے ہیں جتنا کہ ان پر ظلم ہوا ہے۔ فرمان خداوندی ہے کہ؛
’’ان لوگوں پر جب زیادتی کی جاتی ہے تو وہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں، برائی کا بدلہ اتنی ہی برائی ہے۔ پھر جو شخص معاف کردے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
بدلہ لینے میں احتیاط پر اتنا زور دیا گیا ہے کہ صحابہ کرام محض اس خوف سے کہ کہیں بدلہ لینے میں ایک رائی برابر بھی زیادتی نہ ہو جائے معاف کردینے میں ہی عافیت محسوس کرتے تھے۔ انسانی فطرت کے مطابق خود پر ہونے والے ظلم اور زیادتی کا بدلہ لینا انسان کا حق ہے مگر انصاف کا تقاضہ اور پیمانہ اتنا سخت اور مشکل ہے کہ معاف کردینا ہر طرح مفید ہے۔ ایک تو معاف کردینے سے سماج اور معاشرے میں محبت و مروّت کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کا اجراور بدلہ اللہ تبارک وتعالیٰ عطا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کے دیے گئے بدلے اور اجر سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے۔
حضورﷺ نے امت مسلمہ کا مزاج اسی انداز میں تشکیل دیا تھا۔ حضورﷺ نہ خود جھگڑے کو پسند کرتے تھے اور نہ جھگڑالو انسان کو پسند کرتے تھے۔ یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی جھگڑے سے اور بدلہ لینے سے ہمیشہ گریز کرتے تھے۔ حضورﷺ کے بہت سارے واقعات سیرت کی کتابوں اور احادیث مبارکہ میں بکھرے پڑے ہیں جن کے دیکھنے اور جاننے سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ جھگڑوں سے کس طرح گریز کرتے تھے۔ اور اپنے دشمنوں کو کس طرح معاف فرمادیا کرتے تھے۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ ایک دیہاتی انسان جسے عربی زبان میں بدوی کہتے ہیں آپؐ سے ملنے آیا اور آپؐ سے بڑی بدتمیزی سے پیش آیا، اس نے اپنی موٹی اور کھردری چادر آپؐ کی گردن مبارک میں ڈال دی اور اسے لپیٹ کر اس شدّت سے کھینچا کہ آپ ؐکی گردن مبارک پر نشان پڑ گئے اور آپؐ تکلیف میں پڑگئے۔ اس نے بڑی سختی سے کہا کہ محمدؐ! جو مال اللہ نے دیا ہے اس میں سے مجھے دو! اس کی اس نازیبا حرکت اور جرأت پر غصّہ آنا فطری بات تھی۔ صحابہ کرامؓ کو غصّہ بھی آیا، مگر حضورﷺ نے اپنے ساتھیوں کو غصّہ ہونے سے منع فرمادیا۔ اور مسکراکر کہا کہ اس کو غلّہ سے بھردو، چنانچہ اس دیہاتی کو غلّہ دیا گیا، وہ بہت خوش ہوا اور آپﷺ کی تعریفیں کرتا ہوا رخصت ہوگیا۔
حضور ﷺنے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ سارے کاموں میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ جو شخص نرمی سے محروم ہو جاتا ہے وہ ساری بھلائی سے محروم ہوجاتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نرمی حلاوت اور درگذر ایسی حکمت ہے جس سے دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔ جبکہ غصّہ، سختی اور بدلہ لینے سے دلوں میں دوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
عمیر بن وہب حضورﷺ کے ان دشمنوں میں سے تھا جو حضورﷺ کو نعوذ باللہ قتل کردینا چاہتا تھا۔وہ حضورﷺ کے ایک اور جانی دشمن صفوان بن امیہ کا چچا زاد بھائی تھا غزوہ بدر میں عمیر بن وہب کا بیٹا مسلمانوں کی قید میں چلا گیا تھا۔ اپنے بیٹے کو مسلمانوں کی قید میں دیکھ کر اس کا خون کھولتا تھا۔ سارا مکہ دشمنی اور بدلے کی آگ میں جل رہا تھا۔ اسے تو یہی بات ہضم نہیں ہورہی تھی کہ وہ مسلمانوں سے شکست کھاچکے ہیں۔ اس پر سے ستم یہ کہ ان میں سے کئی لوگوں کے رشتے دار مسلمانوں کی قید میں تھے۔ عمیر بن وہب نے حضورﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ایک دن اس نے صفوان بن امیہ سے کہا کہ مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں چھپ چھپا کر مدینہ جاؤں اور محمدﷺ کو قتل کردوں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ میرے اوپر قرض چڑھا ہوا ہے۔ اور بال بچوں کی کفالت کی ذمہ داری بھی ہے۔ عمیر بن وہب کا منصوبہ سننے کے بعد صفوان نے کہا کہ اگر تمہارا یہ ارادہ پکّا ہے تو تم مدینہ جاؤ اور محمدﷺ کو قتل کردو۔ اس کے بعد اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو میں تمہارا قرض بھی ادا کردوں گا اور تمہارے بال بچوں کی کفالت بھی کروں گا۔
عمیر بن وہب کو جب یہ لگا کہ اب اس کے بچوں کا انتظام ہوگیا ہے تو وہ اپنے منصوبے کو تکمیل تک پہونچانے کے لیے خفیہ طور پر مدینہ روانہ ہوا۔ مگر اتفاق سے حضرت عمرؓ کی نظر اس پڑ گئی اور حضرت عمرؓ نے یہ بھی بھانپ لیا کہ عمیر بن وہب کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے ہیں۔ لہٰذا اسے پکڑ لیا اور حضورﷺ کے سامنے پیش کردیا، اور یہ بھی احتیاط برتی کہ حضورﷺ پوری طرح محفوظ رہیں۔ حضورﷺ نے بہت ہی نرمی اور محبت سے عمیر بن وہب سے پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ تم مدینہ کس ارادے سے آئے ہو؟ عمیر بن وہب نے کہا کہ میرا بیٹا آپ لوگوں کا قیدی ہے۔ میں فدیہ اداکرکے اسے قید سے رہائی دلانے کے ارادے سے مدینہ آیا ہوں۔حضورﷺ نے فرمایا؛ اے عمیر بن وہب، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم نے صفوان بن امیہ کے ساتھ مل کر میرے قتل کا منصوبہ بنایا اور جب اس نے تم سے وعدہ کرلیا کہ وہ تمہارا قرض ادا کردے گا۔ اور تمہارے بال بچوں کی پرورش اپنے بچوں کے ساتھ کرے گا تو تم یہاں میرے قتل کے ارادے سے چلے آئے؟ عمیر بن وہب کا منصوبہ صفوان بن امیہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ وہ حیران رہ گیا کہ آخر اتنے خفیہ منصوبے کا علم حضور ﷺ کو کیسے ہوگیا۔ اس نے جب یہ دیکھا کہ اب کوئی راستہ نہیں ہے اور یہ بھی کہ واقعی محمدﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں تو اس نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا اور اپنی جان بخش دینے کی گذارش کی۔ حضور ﷺ نے اسے معاف کردیا پھر عمیر بن وہب ؓ نے فوراً اسلام قبول کرلیا اور مکہ واپس آگئے اور دین اسلام کی تبلیغ میں لگ گئے۔
حضورﷺ کو اختیار تھا کہ وہ عمیر بن وہب کو قتل کر ڈالتے، کیوں کہ وہ حضورﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔ مگر آپ نے کمال شفقت ورحمت سے کام لے کر انہیں معاف فرمادیا۔ اس محبت اور عفوودرگذر کا یہ اثر ہوا کہ اس نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کرلیا بلکہ وہ دین کے سچے داعی بن گئے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی یہی حکم دیا ہے کہ برائی کا بدلہ نیکی سے دو۔ چنانچہ قرآن کریم میں حکم دیا گیا ہے کہ ؛
’’نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ برائی کو اچھے طریقے سے دور کرو، پھر تم دیکھو گے کہ جس شخص سے تمہاری دشمنی ہے گویا وہ تمہارا گہرادوست بن گیا ہے۔ مگر یہ بات انہیں لوگوں کو سمجھ آتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور انہیں لوگوں کو سمجھ آتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں۔‘‘
حضورﷺ نے ایسے کتنے ہی لوگوں کو معاف فرمادیا اور وہ اسلام کے داعی بن گئے وہ واقعہ بھی یاد کیجئے جب ایک شخص حضورﷺ کا مہمان ہوا۔ اور محض اس ارادے سے سارا کھانا کھاگیا کہ گھر میں سبھی بھوکے رہیں، اور پھر اسے بدہضمی ہو گئی اور اس نے سارا کمرا اور بستر گندا کردیا، اور اس خیال سے کہ صبح میں اسے شرمندگی اٹھانی ہوگی منہ اندھیرے چپکے سے نکل گیا، مگر کچھ دور جانے کے بعد اسے یاد آیا کہ جلد بازی اور عجلت میںوہ اپنی بیش قیمت تلوار وہیں بھول آیا ہے چنانچہ وہ واپس آیا۔ اور جب اس نے دیکھا کہ اس کی گندگی حضورﷺ خود صاف کررہے ہیں تو ڈرگیا کہ پتہ نہیں کیا ہوگا۔ مگر حضورﷺ نے نہایت نرمی اور محبت سے ان کا حال پوچھا، اور اس کی تلوار لا کر اس کے حوالے کردی اور اس نے حضورﷺ کے عفو و درگذر اور محبت کے اس برتاؤ کو دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کو رحمت عالم بنا کر بھیجا تھا۔ انہیں ایک آئیڈیل انسان بنا کر بھیجا تھا۔ تا کہ لوگ آپﷺ کی سیرت مبارکہ کو دیکھ کر آپ جیسا بننے کی کوشش کریں۔ آپﷺ کے عادات و اطوار اور اخلاق و کردار کو اپنائیں۔ اور اپنی دنیا و آخرت سنواریں۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے بارے میں سورہ آل عمران میں فرمایا ہے کہ؛
’’اللہ کی رحمت کے باعث آپﷺ ان لوگوں کے لیے نرم ہیں، اگر آپﷺ تندخو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپﷺ کے آس پاس سے منتشر ہو جاتے، آپﷺ ان لوگوں کو معاف کردیجئے اور ان کے لیے مغفرت طلب کیجئے۔‘‘
اگر ہم آج سے عفوودرگذر کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں تو کل سے ہمیں تلاش کرنے پر بھی دشمن نہیں ملے گا۔ یہ ایسا ہتھیار ہے جس سے سارے دشمن شکست کھاجاتے ہیں۔ اللہ ہمیں سنت نبوی کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے……آمین!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں