عفو و درگزر

سمیہ لطیف فلاحی

مسجد نبوی کے ستون سے جکڑا ہوا ایک مشرک قیدی وحشت زدہ اور اضطراب کے عالم میں سینے پر اپنا سر ڈھلکائے زندگی کی گھڑیاں گن رہا ہے۔ یہ انسان کون ہے؟ یہ ثمامہ ہے جو اسلام کا کوئی معمولی دشمن نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف مسلح بغاوت کا مرتکب ہے۔ لیکن اب جب کہ اس کی طاقت سلب ہوچکی ہے تو وہ سوچ رہا ہے کہ جب اس نے کبھی مسلمانوں پر ترس نہیں کھایا تو پھر مسلمان اس پر کیوں ترس کھائیں گے؟ یہی سوچ کر وہ گھبرا رہا ہے کہ تبھی کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ گھبرا کر نظر اٹھائی تو دیکھا کہ رسولِ خداﷺ اپنے دشمن کی طرف آرہے ہیں۔ مارے ڈر کے ثمامہ کانپنے لگتا ہے۔ حضور ﷺ پاس آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ثمامہ کہو کیا حال ہے؟ وہ چونک پڑتا ہے کہ اس نے اتنی مٹھاس، محبت اور نرمی بھری آواز کبھی نہیں سنی تھی۔

ثمامہ کے خوف سے ٹھٹھرے ہونٹوں سے امید کی ہکلائی ہوئی آواز نکلی: ’’اے محمد(ﷺ) جو کچھ ہوا بہت اچھا ہوا… اگر … تم مجھے … قتل کروگے تو ایک جاندار کو قتل کرو گے اور اگر احسان کرکے چھوڑ دو گے تو ایک احسان شناس پر احسان ہوگا۔‘‘

رسولِ خدا ﷺ نے سنا اور خاموشی سے واپس تشریف لے گئے۔

دوسرے دن پھر حضورﷺ ثمامہ کے پاس تشریف لاتے ہیں، آج بھی اُن کی آنکھوں سے محبت، شفقت، اور نرمی ٹپک رہی ہے۔ آج پھر آپؐ نے مجرم سے وہی سوال کیا اور پھر وہی جواب پاکر خاموشی سے چلے گئے۔ تیسرے دن پھر نبیؐ ثمامہ کے پاس آئے اور پھر سوال فرمایا: ’’ثمامہ کہو کیا ہوا؟‘‘ ڈرتے ڈرتے ثمامہ نے وہی جواب دیا۔

سوچیے! ایک طرف وہ ظالم تھا جس کی طاقت چھن چکی تھی اور دوسری طرف ایک مظلوم تھا جس کو خدا نے یہ موقع دیا تھا کہ ظالم سے ایک ایک ستم کا بھر پور انتقام لے سکے، لیکن دیکھئے اس مظلوم کا کردار اور اس کا عفو و درگزر کہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے بندش کھولتے ہیں اور فرماتے ہیں:’’جاؤ ثمامہ! تم آزاد ہو۔‘‘

عفو ودرگزر کی یہ عظیم الشان مثال دنیا نے نہ کبھی دیکھی نہ کبھی سنی۔ ثمامہ جیسے خطا کار کو ’معاف کرو اور بھول جاؤ‘ جیسی عظیم مثال نے بالکل بدل کر رکھ دیا۔ جرائم کو معاف کردینے کے اس اسوئہ حسنہ نے ثمامہ کو اندر تک ہلا کر رکھ دیا۔ احساس گناہ سے، چہرہ آنسوؤں سے تر ہوگیا، پلٹ کر فوراً واپس آئے اور آپؐ کے ہاتھوں پر مشرف باسلام ہوگئے۔

اب سوچیے کہ ہے کوئی ہم میں ایسا جو اپنا تمام تر وجود خدا کی خوشی اور نوع انسانی کی خیر اندیشی میں گم کردے۔ کیا ہے کوئی؟ کوئی نہیں ہم جو دنیا کے سامنے بڑے دیندار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم جو ان کے اسوئہ حسنہ کو نمونہ بتانے کو کہتے ہیں، ہم جو تقریروں اور تحریروں کے ذریعے لوگوں کو رلا دیتے ہیں، کیا ہے ہم میں اتنی برداشت کہ خطا پر کسی کو کچھ نہ کہیں اور معاف کردیں شاید نہیں۔

کیسے تھے وہ اور کیسے ہیں ہم کہ اپنے محسنِ اعظمﷺ کے اسوہ حسنہ کو بھول گئے، جنھوں نے ہماری خیرخواہی میں ترسٹھ سال کیسی کیسی مصیبتیں جھیلیں، ان کے لیے ہمارے وجود میں خون حیات کا ایک قطرہ بھی نہیں۔ کیسے مسلمان ہیں ہم!

کیا ہماری آنکھیں کبھی اپنی اس تہی دامانی اور بے حسی پر بھیگتی ہیں! سوچیے، کتنی روحیں ہیں جو حقیقت میں ان کو پڑھ کر ، ان کو سن کر کروٹیں بدلتی ہیں اور اپنے اندر ایک عظیم بدلاؤ لانے کا عزم کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں تو اگر ہمارا پڑوسی ہمارے بچے کو کچھ کہہ دے تو ہم لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں، ہمارے گھروں کی عورتیں کھانے میں اگر ذرا سی غلطی کردیں تو شوہر حضرات اس عظیم الشان انسانؐ کے اسوئہ حسنہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے عفو و درگزر کرنے کے بجائے کیسے بیویوں کی خبر لیتے ہیں۔ شوہروں سے ذرا سی شکایت ہوجائے تو بیویاں کیسی زبان درازی کرتی ہیں۔ احسان فراموش اور ناشکری ہوجاتی ہیں کہ مجھے تو اس گھر میں کبھی کچھ ملا ہی نہیں۔ اس وقت ہمارے اندر صرف بدلے، انتقام اور غصے کے جذبے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ بھول جاتے ہیں ہم اس عظیم انسان کے کردار کے نمونہ کو، اس کے اسوہ حسنہ کو صرف تاریخی واقعات سمجھ کر۔ بار بار تحریروں اور تقریروں کے ذریعے ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں یہ مثالی کردار جنھوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔

تحریروں اور تقریروں کو سجانے کے علاوہ کبھی کردار کو سجانے کی فکر کرتے ہیں ہم؟

سوچیے!! کتنے لوگ سوچتے ہیں؟

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146