اسلام میں جن عقائد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، ان میں ایک عقیدۂ آخرت بھی ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں آخرت کا ذکر موجود ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت ہی انسان کی منزل ہے اور وہی اس کا ٹھکانا۔ آخرت کے عقیدہ کو مسلمانوں کے دل و دماغ میں راسخ کردینے کے لیے قرآن مجید میں مختلف انداز اختیار کیے گئے اور آخرت کو مختلف نام سے یاد کیا گیا ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں’’یوم القیامہ‘‘ آیا ہے، جس سے مراد آخرت ہے۔ ایسے ہی ’’یوم الحاقہ‘‘ ، ’’یوم التناد‘‘، ’’یوم التغابن‘‘، ’’یوم الآزفۃ‘‘، ’’یوم الفصل‘‘ اور ’’یوم الدین‘‘ سے مراد بھی آخرت ہی ہے۔
آخرت کو مختلف ناموں سے بیان کرنے سے دو باتیں واضح طور سے سمجھ میں آتی ہے۔ ایک یہ کہ آخرت انتہائی اہم ہے۔ اس پر مضبوط عقیدہ کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ اس طرح آخرت کی تشریح ووضاحت ہوتی ہے۔ یعنی آخرت کیا ہے؟ اس میں کیا ہوگا؟ وغیرہ۔ جیسے: الحاقۃ کا مطلب ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے اور اسے قائم ہونا ہے۔لہٰذا انسان کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ آخرت کے سلسلہ میں تردد و شک میں پڑکر اسے نظر انداز کردے۔ آخرت کے وقوع پر یقین دلانا اس لیے ضروری ہے کہ اس پر یقین کامل کی صورت میں کوئی بھی شخص اللہ کے احکام سے قطعی انحراف نہیں کرسکتا۔
’’یوم التناد‘‘ کے معنی ایک دوسرے کو پکارنے والے دن کے ہیں۔ آخرت کو ’’یوم التناد‘‘ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس دن لوگ ایک دوسرے کو اپنی مدد کے لیے پکارتے ہوں گے، مگر وہاں نفسی نفسی کا عالم ہوگا، سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی، کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا۔ اس نام سے آخرت کو بیان کرکے اللہ نے اپنے بندوں کو بتلادیا ہے کہ آخرت میں جب لوگ پریشان حال ہوں گے تو وہ ایک دوسرے کو پکاریں گے، لیکن کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا، اس لیے جو لوگ گمان رکھتے ہیں کہ وہ صالح خاندان کے ہیں، یا ان کے آباء و اجداد اولیاء و صلحاء ہیں، ان کے طفیل میں کام چل جائے گا، ان کے لیے انتباہ ہے کہ وہ اس گمان میں نہ رہیں، بلکہ خود نیک اعمال کریں۔
آخرت کو ایک جگہ ’’طامۃ الکبری‘‘ کہا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے بڑی آفت کا دن۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت بڑی مصیبت کا دن ہے، مگر ان لوگوں کے لیے جو بداعمال تھے یا جنھوں نے شرک کیا ہوگا۔ اس روز جنت اور دوزخ کے فیصلے سنائے جائیں گے جس کی نیکیوں کا پلڑا جھک جائے گا اس کو جنت میں داخل کردیا جائے گا اور جس کے بائیں ہاتھ میں بداعمال کی وجہ سے نتیجہ ملے گا، اسے جنہم میں جھونک دیا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑا ہولناک دن ہوگا اور مشرکوں، کافروں کے لیے بڑی آفت ہوگی۔ عقیدۂ آخرت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر زندگی سے آخرت کا عقیدہ نکال دیا جائے تو دیگر عقائد کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ کیوں کہ اگر دنیا کی زندگی گزارنے کے بعد کسی وقت انسان کے اعمال کی باز پرس نہ ہو تو پھر ایمان کے تقاضوں کی تکمیل کون کرے گا، کون جنت کے حصول کے مقاصد کے لیے اللہ رب العزت کی عبادت میں مشغول ہوگا۔
آخرت کے تصور کی بنیاد پر ہی لوگ گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں، ان کے دل میں ہمیشہ یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہوا، تو یوم آخرت میں مالک حقیقی سخت باز پرس کرے گا اور سزا دے گا۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو اس عقیدہ پر یقین ہی نہیں رکھتے، وہ جرائم اور بدعنوانیوں سے ذرا بھی نہیں گھبراتے۔ ایسے لوگوں کا مطمح نظر صرف حصول دولت ہوتا ہے۔ کیونکہ دولت کی بنیاد پر وہ دنیا کے تعیشات کو فراہم کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ خلق خدا کو اگر ان سے نقصان اور دکھ پہنچتا ہے تو پہنچے انہیں اس کی کوئی فکر نہیں۔ انہیں تو صرف اپنی خوشی مطلوب ہوتی ہے، اور وہ ہر طرح اسے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
آج دنیا اگر جرائم وبدعنوانیوں سے پاک ہونا چاہتی ہے،تو لوگوں کے دلوں میں عقیدہ آخرت کو راسخ کرنا ضروری ہے۔ اگر لوگوں کے دل میں آخرت کی فکر ہوگی تووہ بھیانک گناہوں میں بھی ملوث نہ ہوں گی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج بہت سے مسلمان بھی طرح طرح کے گناہوں میں ملوث نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا آخرت پر ایمان کمزور ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آخرت پر لوگوں کا ایمان ہو، پھر بھی وہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسے فرائض میں کوتاہی کریں، جھوٹ بولیں، مکروفریب سے کام لیں، وعدوں کو توڑیں، اللہ کے بندوں کو ستائیں۔
مسلمانوں کے لیے آخرت پر ایمان کامل رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ ان کا مقصد آخرت کی کامیابی ہے۔ دنیا کی زندگی تو چار دن کی ہے، اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جو ہمیشہ رہے گی۔ اگر اس زندگی میں کوئی کامیاب ہوگیا تو وہ ہمیشہ کے لیے کامیاب ہوگیا اور جو آخرت میں ناکامی سے دوچار ہوا، اس کے لیے بڑی محرومی ہے۔ آخرت میں کامیابی دنیا کی زندگی پر مبنی ہے، یعنی اگر دنیا میں انسان نے اچھے کام کیے ہوں گے، تواس کا بہتر اجر اسے آخرت میں ملے گا اور جس نے دنیا میں برے کام کیے ہوں گے، اللہ کے احکام سے انحراف کیا ہوگا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا ہوگا تو وہ اس دن خسارے میں ہوگا اور ہمیشہ اسے پچھتانا پڑے گا۔ آخرت کے عقیدہ کا تقاضہ ہے کہ مسلمان پورے طور پر دنیا میں آخرت کی تیاری کریں، اس چار روزہ زندگی میں کوئی کام ایسا نہ کریں، جو آخرت میں پچھتاوے کا سبب بنے۔