اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے: ’’کہہ دو کہ کیا علم رکھنے والے اور وہ لوگ جو علم نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘
ہم جانتے ہیں قرآن پاک کی سب سے پہلی آیت جو نازل ہوئی وہ نہ تو کسی دینی حکم کے بارے میں تھی نہ ہی جنت اور دوزخ کا تذکرہ کرنے والی تھی، بلکہ وہ تو پڑھنے کی دعوت دینے والی تھی۔ ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔‘‘
کیونکہ عمل کا شعور علم ہی سے آتا ہے۔ اس لیے علم عمل کی بنیا دہے۔ اس پہلی وحی سے ہمیں علم کی اہمیت کا جو کہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک ہے بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔قرآن پاک حقیقی علم کا سرچشمہ ہے اورعلم کوئی بھی ہو وہ نفع بخش اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ وہ بندے کے لیے عمل کی راہیں کھولے اورخدا تعالیٰ کی معرفت اور قرب کا ذریعہ بنے۔ پیارے نبیؐ یہ دعا مانگا کرتے تھے :’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس دل سے جو تیرا خوف نہ کرے، اس علم سے جو نفع نہ دے، اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے اور اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو۔‘‘ علم کا عمل سے بنیادی رشتہ ہے۔ علم جسم ہے اور عمل اس کی روح۔ اگر علم کے ساتھ عمل نہ ہو تو وہ مردہ جسم کے مانند ہے جسے یا تو دفن کردیا جاتا ہے یا جلا کر دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔
علم اور عمل لازم و ملزوم ہیں۔ علم کا لازمی نتیجہ عمل ہونا چاہیے ورنہ وہ علم ہی بے کار ہے۔ اللہ تعالیٰ روز محشر جو پانچ سوالات اپنے ہر بندے سے کرنے والا ہے ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ ’’جتنا علم حاصل کیا تھا اس پر کہاں تک عمل کیا؟‘‘ یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ کتنا علم حاصل کیا بلکہ سوال عمل کے متعلق ہوگا وہ بھی ان اعمال کے متعلق جن کے بارے میں انسان علم رکھتا تھا۔
اس بات کو اس مثال کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے کہ آپ کو اس کا علم ہے کہ آگ گرم اور جھلسا دینے والی شئے ہے تو آپ یقینا آگ میں ہاتھ ڈالنے سے رک جائیں گے۔ اگر آپ کا یہ علم پختہ نہ ہوتا یا اس میں شک کی گنجائش رہتی تو آپ آگ سے اس قدر احتیاط نہ برتتے جتنا پختہ علم ہونے کی صورت میں برتتے ہیں۔
اسی طرح انسان کا اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان جتنا پختہ ہوگا، صالح اعمال اطاعت و بندگی میں اتنی ہی شدت ہوگی۔ذرا ایک ایسے آدمی کا تصور کیجیے جس نے زندگی کے پانچ قیمتی سال ڈاکٹری یا علم طب پڑھنے میں صرف کیے اور پھر کسی اچھے ہاسپٹل میں عملی تجربہ بھی کیا مگر ڈگری لینے کے بعد اس نے اپنے اس علم کا عملی زندگی میں کوئی استعمال نہ کیا۔ ایسے شخص کو ہر آدمی نا اہل اور بے وقوف گردانے گا۔ اس کے برخلاف خدائی علم کے ساتھ ہمارا معاملہ مختلف ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جھوٹ، غیبت، دوسروں کو تکلیف پہنچانا برائی ہیں۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ قیامت کے دن اس کی سزا ہمیں یقینا بھگتنا پڑے گی پھر بھی اپنی زندگی کو ان برائیوں سے پاک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے یہ ہرایک کے لیے غور کرنے کی بات ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی سے علم و عمل کی دو رنگی کو دور نہیں کرتے تو دنیا میں خواہ کچھ بھی ہو آخرت میں تو ہمیں نقصان اٹھانا ہی پڑے گا۔