موجودہ دور میں خواتین کی علمی خدمات
یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ گزشتہ دو صدیوں میں تعلیم ِ نسواں کو فروغ ملا ہے اور خواتین کے لیے تحصیلِ علم کے مواقع بڑھے ہیں۔ دینی و عصری تعلیم کے مراکز، مدارس اور جامعات قائم ہوئے ہیں، جن میں طالبات کو داخلہ ملا ہے اور ان کے لیے مخصوص درس گاہیں بھی قائم کی گئی ہیں۔اس طرح خواتین کو اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور اپنے جوہر دکھانے کے لیے وسیع میدان ہاتھ آیا ہے۔ زیورِ علم سے آراستہ ہوکر انھوں نے درس و تدریس کا کام بھی سنبھالا ہے، اس طرح ان کا علمی فیض عام ہوا ہے اور امت کو ان سے فائدہ پہنچا ہے۔
قرآنیات اور سیرت نگاری کے میدان میں بیسویں صدی کی خواتین میں ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی (۱۹۱۳۔۱۹۹۸ء)کا نام بہت نمایاں ہے۔انہوں نے عربی زبان وادب کی اعلیٰ تعلیم قاہرہ یونی ورسٹی سے حاصل کی، پھر مختلف ممالک میں تدریسی خدمت انجام دی، لیکن پھر ان کا رجحان قرآنیات کی طرف ہوا۔ وہ جامعۃ القرویین مراکش میں شعبۂ تفسیر میں پروفیسر رہی ہیں۔ وہ پہلی خاتون ہیں جس کے جامع ازہر میں لیکچر ہوئے۔ انہیں بہت سے ایوارڈز سے نوازا گیا، جن میں سے ایک عالم اسلام کا اعلیٰ اعزاز کا شاہ فیصل ایوارڈ ہے، جو انہیں ۱۹۹۴ء میں اسلامیات اور خاص طور پر قرآنیات کے میدان میں اعلیٰ خدمات انجام دینے پر دیاگیا۔ بنت الشاطی کی تصانیف کی تعداد چالیس(۴۰) سے زائد ہے۔ خاندانِ نبوت کی خواتین پر ان کی تیارکردہ سیریز میں أمّ النّبي، نساء النبي،بنات النبي اور زینب بطلۃ کربلا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قرآنیات پر ان کی تصانیف میں التفسیر البیانی للقرآن الکریم، الاعجاز البیانی للقرآن الکریم ، القرآن والتفسیر العصري اور مقال في الانسان اہمیت رکھتی ہیں۔تفسیر ِقرآن میں ان کا ایک خاص منہج ہے ، وہ یہ کہ جس موضوع پر مطالعہ مقصود ہو اس سے متعلق قرآن کی تمام آیات جمع کرلی جائیں،پھر ان پر غور وفکر کیاجائے تو اس سے نئے نئے معانی مستنبط ہوتے ہیں۔علوم ِقرآن اور اصولِ تفسیر سے متعلق ان کی اور بھی آراء ہیں ،جو ان کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیاہے کہ یہ منہجِ تفسیر انہوںنے اپنے استاذ شیخ امین الخولی(۱۸۹۵۔۱۹۶۶ء)جو ان کے شوہر بھی تھے، سے حاصل کیاہے۔
زینب الغزالی (م۱۴۲۶ھ) کا شمار موجودہ دور کی ان خواتین میں ہوتا ہے جنھیں اپنی دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے۔ وہ اخوان المسلمون سے وابستہ سرکردہ خواتین میں سے تھیں۔ ان کی پوری زندگی اسلام کی راہ میں جدو جہد اور قربانی سے عبارت ہے۔ عرصہ تک انھوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ آزادی ملی تو اپنا سارا وقت درس و تدریس، وعظ و ارشاد اور تصنیف و تالیف میں گزارا۔ یوں تو دینی موضوعات پر ان کی متعدد تصانیف ہیں، لیکن ان میں سب سے اہم ان کی تفسیر ہے جو’ نظرات فی کتاب اللہ‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کی پہلی جلد سورۂ ابراہیم تک (۷۱۱؍ صفحات) ۱۴۱۴ھ میں دار الشروق قاہرہ سے شائع ہوئی تھی۔ مکمل تفسیر (۱۳۰۰؍ صفحات) دار التوزیع و النشر الاسلامیہ قاہرہ سے منظر عام پر آئی۔ اس تفسیر میں دعوتی اسلوب نمایاں ہے۔
موجودہ دور کی مفسّرات میں ایک اہم نام محترمہ نائلہ ہاشم صبری کا ہے، جو فلسطین کے مشہور مفتی اور خطیب شیخ ڈاکٹر عکرمہ سعید صبری کی زوجہ ہیں۔ ان کی سرگرمیاں علمی اور عملی دونوں میدانوں میں ہیں۔ وہ بہت سے رفاہی اداروں اور سماجی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ ان کی متعدد تصانیف دینی موضوعات پر شائع ہوئی ہیں، جن میں سے ایک ’کواکب النساء‘ ہے، جس میں پانچ سو(۵۰۰) سے زائد خواتین کے تذکرے جمع کیے ہیں۔ ان میں امہات المومنین، صحابیات، محدثات، فقیہات، زاہدات اور حکوت و سیاست اور شعرو ادب سے دل چسپی رکھنے والی خواتین شامل ہیں۔ انھوں نے المبصر لنور القرآن کے نام سے ایک مبسوط تفسیر لکھی ہے ، جس کا پہلا ایڈیشن گیارہ (۱۱) جلدوں میں ، جب کہ دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۸ء میں سولہ (۱۶) جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ یہ تفسیر بالمأثور کی ایک نمائندہ تفسیر ہے ، جس میں حالات ِ حاضرہ سے ربط کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔
ان کے علاوہ خواتین کے ذریعہ تیار ہونے والی تفسیروں میں ماجدہ فارس الشمری کی التوضیح و البیان فی تفسیر القرآن (۸؍ جلدیں) فوقیہ ابراہیم الشربینی کی تیسیر التفسیر (۴؍ جلدیں)، فاطمہ کریمان حمزہ کی اللؤلو والمرجان فی تفسیر القرآن اور ترکی زبان میں سمرا کورون کی تفسیر القاری (۱۳؍ جلدیں) خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
خواتین نے جزئی تفسیریں بھی لکھی ہیں، مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے مکمل یا نامکمل ترجمے کیے ہیں اور علوم القرآن کے مختلف پہلوؤں پرکتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ ان میں قراء ت، تجوید، فصاحت و بلاغت، تدبر ِ قرآن،ا قسام القرآن اور لغوی و بلاغی موضوعات و مباحث شامل ہیں۔ قرآنیات کے علاوہ حدیث، سیرت اور فقہ میں بھی خواتین کی علمی کاوشیں اہمیت رکھتی ہیں۔ موجودہ دور میں عالم عرب میں علوم اسلامیہ میں تصنیف و تالیف کی خدمات انجام دینے والی خواتین میں حنان لحام ، عفاف عبد الغفور حمید ، لطیفہ قزامل ، ہیفاء عثمان ، علامہ محمد ناصر الدین الالبانی کی صاحب زادیاں: حسانۃ اور سکینۃ، امانی بنت عاشور ، عزیزہ یونس ، وسیمہ عبد المحسن ، ام معن، ربیعۃ الکعبی ، سعاد عبد الحمید ، آمال محمد عبد الرحمن ، صباح عبد الکریم ، منیرہ الدوسری ، سحر سویلم ، ہند شلبی ، عائشہ غلوم ، سحر عبد العزیز ، کاملہ ا لکواری ، صفیہ عبد الرحمن السحیبانی ، اسماء المرائط ، عصمۃ الدین کرکرا ، موینہ طراز، نادیہ شرقاوی ، فاطمہ ماردینی اور فاطمہ اسماعیل خصوصیت سے قابل ِ ذکر ہیں۔ ان کی تصانیف نے علوم اسلامیہ میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔
علمی کاموں کی سرپرستی
بر صغیر ہند میں بھی علوم ِ اسلامیہ کے فروغ میں خواتین کی زرّیں خدمات ہیں۔ انھوں نے اشاعت ِعلم کی سرپرستی کی ہے اور اعلیٰ معیار کے علمی کام انجام دیے ہیں۔
مغل حکم راں اورنگ زیب (م ۱۱۱۸ھ )کی صاحب زادی زیب النساء نے شیخ صفی الدین ولی قزوینی سے قرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کروایا تھا۔ ساتھ ہی امام رازی (م ۶۰۶ھ) کی تفسیر کبیر کا بھی فارسی ترجمہ کروایا تھا۔ماضی قریب میں ریاست بھوپال کی حکم راں نواب خواتین نے علمی سرپرستی کی مثال قائم کی ہے۔انہوں نے خوب فیاضی سے تعلیمی اداروں کی مالی امداد کی ہے اور خطیر سرمایہ صرف کرکے علمی کام کرایے ہیں۔ نواب سکندر جہاں بیگم(م۱۸۶۸ء) نے شیخ احمد داغستانی سے ترکی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کروایا۔ ان کی صاحب زادی اور جانشین نواب شاہ جہاں بیگم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کا بھر پور مالی تعاون کیا۔ انہوں نے مولانا جمال الدین وزیر ریاست بھوپال سے پشتوزبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کروایا۔ان کی صاحب زادی اور جانشین نواب سلطان جہاں بیگم نے بہت سی دینی درس گاہوں اور تعلیمی اداروں کو مالی امداد فراہم کی، جن میں علی گڑھ، دیوبند اور ندوہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔انہوں نے ہی سیرۃ النبی کی تالیف کے لیے علامہ شبلی نعمانیؒ کو گراں قدر مالی تعاون دیا۔جس زمانے میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤکی مرکزی عمارت زیرتعمیر تھی،ریاست بہاول پور کی خاتون محترمہ فلک احتجاب نے اس مد میں اپنے جیبِ خاص سے پچاس ہزار روپے عطا کیے تھے ۔ علامہ شبلی نعمانیؒ نے انہیں ’زندہ زبیدہ خاتون‘ کا لقب دیاہے اور ان کی فیاضی اور علم دوستی کی تحسین کی ہے۔
چند اہم خواتین
بر صغیر میں خواتین کے ذریعے انجام پانے والے علمی کاموں کا دائرہ تفسیر ،حدیث، فقہ، سیرت نبوی، تاریخ اور اسلامیات کے دیگر مضامین پر محیط ہے۔ اردو تفاسیر میں ماضی قریب میں ہندوستان میں محترمہ ثریا شحنہ کی ’تبیین القرآن فی تفسیر القرآن‘ (طبع حیدرآباد، انڈیا ۲۰۱۲ء) اور پاکستان میں محترمہ شکیلہ افضل کی ’تسہیل البیان فی تفسیر القرآن‘ (طبع لاہور، ۲۰۱۳ء) شائع ہوئی ہیں۔ اہلیہ مولانا عزیز گلؒ (نو مسلمہ ، م ۱۹۶۶ء) نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر انگریزی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا تھا ، لیکن غالباً وہ زیورِ طبع سے آراستہ نہ ہو سکا۔ [عبد الصمد صارم، تاریخ التفسیر]ڈاکٹرفریدہ خانم (سابق پروفیسر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی) نے اپنے والد مولانا وحید الدین خاں کے انگریزی ترجمۂ قرآن پر نظر ثانی کی ہے اور ان کی تفسیر ’تذکیر القرآن‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے اپنے ادارہ’ الھدیٰ انٹرنیشنل‘ کے ذریعے قرآن فہمی کی ایک کام یاب تحریک برپا کی ہے۔ان کی قرآن کلاسز کو عالمی شہرت حاصل ہوئی ہے ۔ ترجمۂ قرآن اور تفسیر پر مشتمل ان کے لیکچرز کی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز اور کیسٹس خواتین کے درمیان دنیا بھر میں مقبول ہیں ۔ ان کا ترجمۂ قرآن بھی چند سال قبل (دو جلدوں میں) الہدیٰ پبلی کیشنز اسلام آباد سے شائع ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندو پاک میں علوم ِ قرآن کے مختلف پہلوؤں پر خواتین کی تصنیفات کی ایک معتد بہ تعداد ہے، جن کا یہاں تذکرہ کرنا ممکن نہیں۔
سیرت ِنبویؐ پر بھی خواتین نے محبت، عقیدت اور تحقیق کے ساتھ خامہ فرسائی کی ہے اور معیاری کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ڈاکٹر رؤفہ اقبال (علی گڑھ) کی کتاب ’عہد نبویؐ کے غزوات و سرایا‘ اور محترمہ نجمہ راجہ یٰسین (تلنگانہ) کی کتاب ’ عہد ِنبویؐ کا بلدیاتی نظم و نسق‘ ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہوں سے شائع ہوئی ہے ۔ محترمہ شہناز کوثر (لاہور) اور محترمہ نگہت ہاشمی (بہاول پور) نے سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے ۔ ڈاکٹر سعدیہ غزنوی کی کتابیں ’نبی کریم ﷺ بہ طور ماہر نفسیات‘ اور’ اسوۂ حسنہ اور علم نفسیات‘ سیرت کے ایک اہم موضوع پر روشنی ڈالتی ہیں۔ محترمہ عطیہ خلیل عرب نے مشہور عرب ادیب توفیق الحکیم کی کتابِ سیرت’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘ اور محترمہ عذرا نسیم فاروقی نے جدید دور کے مشہور سیرت نگار ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کی کتاب ’المجتمع المدنی فی عصر النبوۃ ‘ کو اردو کا جامہ پہنایا ہے ۔محترمہ ام عبد منیب نے سیرت نبوی پر ایک ضخیم انسائیکلو پیڈیا (۶۸۸؍ صفحات) سوال و جواب کے طرز پر تیار کیا ہے۔ جناب حافظ محمد عارف گھانچی نے سیرت پر اردو زبان میں لکھی جانے والی نئی تصنیفات کی جو کتابیات تیار کی ہے اس میں خواتین کے ذریعے لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد اسّی (۸۰) متجاوز ہے۔ظاہر ہے ، اس میں خواتین کی کتب ِ سیرت کا استیعاب ممکن نہ تھا ، دوسرے اس میں ایک محدود زمانے کا احاطہ کیا گیا ہے۔
محترمہ مریم جمیلہ(م۱۴۳۳ھ) نے اسلامیات کے میدان میں جو خدمت انجام دی ہے وہ انتہائی لائقِ ستائش ہے۔ انھوںنے مغربی فکرو تہذیب اور اس کی مادہ پرستانہ قدروں پر پورے اعتماد کے ساتھ بھرپور تنقید کی، سیکولرزم اور جدیدیت پر مبنی نظریات کا محاسبہ کیا اور فکر اسلامی کا کام یاب دفاع کیا ۔ ان کی تحریریں معذرت خواہانہ لب و لہجہ سے پاک ہیں۔انھوں نے اسلام کو موجودہ دنیا کے لیے بہ طور متبادل پیش کیا۔ انگریزی زبان میں ان کی تصانیف، جن کی تعداد تقریباً تین درجن ہے، اسلامی لٹریچر میں قابل قدر سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے متعدد کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اسلامی تاریخ میں لکھنے والی موجودہ دور کی خواتین میں ایک معتبر نام پروفیسر نگار سجاد ظہیر کا ہے۔ ان کے ادارہ’ قرطاس ‘نے اسلامی تاریخ پر دیگر مصنّفین کی متعدد طبع زاد کتابیں اور قدیم عربی کتابوں کے تراجم شائع کیے ہیں۔خود موصوفہ کی کتابیں(مطالعہ تہذیب، شعوبیت، عرب اور موالی، مختار ثقفی، حجاج بن یوسف ، خوارج،جدید ترکی وغیرہ) فن ِ تاریخ میں ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتی ہیں۔
دیگر ممالک میں بھی خواتین نے اہم دینی و علمی خدمات انجام دی ہیں۔ خاص طور سے مغربی ممالک میں خواتین کے قلم سے اسلامیات کے مختلف پہلوؤں پرقابل قدر تصانیف معرضِ وجود میں آئی ہیں۔ ان میں وہ خواتین بھی ہیں جن کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے ، لیکن انھوں نے اسلامیات سے دلچسپی لی ہے اور جو تحقیقات پیش کی ہیں انھیں عالمی پیمانے پر قبولِ عام حاصل ہوا ہے۔lll