اسلام میں خواتین کا مقام و مرتبہ واضح ہے۔ انہیں علمی اور عملی ہرطرح کی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت ہے۔ ان کے حقوق اور فرائض سب متعین کردیے گئے ہیں۔لیکن مقامِ حیرت و افسوس ہے کہ ان کے بارے میں اپنے اور پرایے سب غلط بیانی اور غلط فہمی کا شکار ہیں۔ایک طرف اسلام کے مخالفین اوربدخواہ طرح طرح کے اعتراضات اور الزامات عائد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام نے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو پست درجہ دیا ہے۔ انہیں گھر کی چہار دیواری میں قیدی بناکررکھاہے۔ ان پر حجاب کی بندشیں عائد کرکے انہیں سماج سے بالکلیہ کاٹ دیاہے اور کسی کو ان کی علمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر اعتراضات اسلام کی صحیح تعلیمات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسلام کے نام لیوائوں نے اسلام میں خواتین کے مقام و مرتبہ کا صحیح تعارف نہیں کرایا ہے۔ یہی نہیں ،بلکہ ان کا عملی رویّہ مخالفینِ اسلام کے مذکورہ بالا اعتراضات کی تائید و توثیق کرتاہوانظر آتاہے۔
یہ واقعہ ہے کہ مسلمانوں کے دور ِ زوال میں مسلم خواتین کو ان کا صحیح مقام نہیں دیا گیا۔انہیں محض توالد و تناسل کا ایک آلہ سمجھاگیا۔صرف بچوں کی پرورش کرنا اور گھر گرہستی کے کاموں میں مصروف رہنا ان کا فرضِ منصبی قرار دیاگیا۔علم کے دروازے ان پر بند رکھے گئے۔ تحصیلِ علم کے مواقع سے محرومی ان کا مقدّر ٹھہری اور افسوس کی بات تویہ کہ اس ظلم و جبر اور حق تلفی کے لیے احادیث ِ نبوی سے سندِ جواز فراہم کی گئی۔ کہاگیا کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو ’ناقص العقل‘ قرار دیا ہے۔اور اس سے مراد یہ لی گئی کہ ان میں عقل و فہم اور غور و فکر کی صلاحیتوں کی کمی ہوتی ہے، حالاں کہ جس موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی وہ وعظ و ارشاد اور تعلیم و تلقین کی مجلس تھی، نہ کہ کوئی قانون بتانے اور حکم لگانے کا موقع۔ اور سب جانتے ہیں کہ دونوں مواقع پر اندازِ بیان الگ الگ ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ عورتوں پر عقل کے مقابلے میں جذبات غالب رہتے ہیں اور مردوںپر جذبات کے مقابلے میں عقل کا غلبہ رہتا ہے۔اور یہی دونوں کی ضروریات کے عین مطابق ہے۔اس حدیث میں درحقیقت جذبات کے مقابلے میں عقل کی کمی کی بات کہی گئی ہے۔[ملاحظہ کیجیے: محمد علی الصابونی، من کنوز السنۃ:دراسات أدبیۃ و لغویۃ من الحدیث الشریف، مکتبۃ الاقصیٰ مکۃ المکرمۃ، ۱۹۷۰ء ، ص۱۵۴، سمیعۃ نازش، مقالہ:دلالۃ سیاق بعض الاحادیث حول المرأۃ مقالاً و مقاماً، سہ ماہی الدراسات الاسلامیۃ، اسلام آباد، جلد۵۱، شمارہ۴، اکتوبر۔ دسمبر ۲۰۱۶ء] اسی طرح کہا گیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کو لکھنا سکھانے سے منع کیا ہے۔[اس کی روایت ابن حبان، حاکم اور بیہقی نے کی ہے]حالاں کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے انتہائی ضعیف، بلکہ موضوع ہے۔[ملاحظہ کیجیے: محمد ناصر الدین الالبانی،سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ و أثرھا السیٔ علی الامۃ، ۵/۳۰، حدیث نمبر۲۰۱۷، نیز سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، جلد اول، جز اول، ص۳۴۶۔ ۳۴۷۔ مزید ملاحظہ کیجیے:الشیخ شمس الحق عظیم آبادی کا رسالہ’ عقود الجمان فی جواز تعلیم الکتابۃ للنسوان‘۔]
خواتین کا امتیازی کردار
اسلامی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سماج کی تعمیر و ترقی میں خواتین کا کردار بڑا درخشاں اور مثالی نظر آتا ہے۔ ان کی خدمات ہمہ جہت ہیں۔ خاص طور سے علوم و فنون کی اشاعت کے میدان میں انہوں نے بہت سرگرمی سے حصہ لیا ہے۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ان کا یہ کردار بہت نمایاں نظر آتاہے۔
علم کی نسل در نسل منتقلی میں خواتین نے اہم کردار نبھایا ہے۔ انہوں نے قرآن کریم حفظ کیاہے اور حفظ کرایا ہے، تجوید اور علم قراء ت میں مہارت حاصل کی ہے اور دوسروں کو یہ فن سکھایا ہے،اپنے شیوخ سے احادیث ِنبوی کا سرمایہ حاصل کیا ہے اور پوری حفاظت کے ساتھ اسے دوسروں تک پہنچایا ہے، فقہ سے اشتغال رکھاہے اور اپنے فتاویٰ کے ذریعہ عوام کی رہ نمائی کی ہے، زہد وتصوف میں شہرت حاصل کی ہے اور وعظ وارشاد کی محفلیں سجائی ہیں ۔ الغرض علوم و فنون اور خاص طور پر اسلامی علوم کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو خواتین کا مرہونِ منت نہ ہو۔
علوم کی سرپرستی
فروغِ علم کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ تعلیم وتربیت کے لیے مکاتب، مدارس، رباطات، ادارے اور مراکز قائم کیے جائیں، ان کے لیے اوقاف خاص کیے جائیں، ان میں تعلیم دینے والوں کے لیے وظائف مقرر کیے جائیں اور تعلیم حاصل کرنے والوں کے مصارف برداشت کیے جائیں۔جن لوگوں نے خود کو علمی کاموں کے لیے وقف کررکھاہے انہیں معاشی تگ ودورکرنے سے آزاد رکھا جائے۔ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ حکم راں طبقے سے تعلق رکھنے والی اور دولت وثروت سے بہرہ ور خواتین نے ہر دور میں یہ خدمات انجام دی ہیں۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
عباسی خلیفہ ہارون رشید (م۱۹۳ھ)کی بیوی زبیدہ بنت جعفر (م ۲۱۶ھ) کو رفاہی کاموں کی انجام دہی کے معاملے میں بہت شہرت حاصل ہے۔ اسے قرآن مجید کی تعلیم سے بہت دلچسپی تھی۔ ابن خلکان نے لکھاہے کہ اس نے اپنی سو (۱۰۰) باندیوں کو اس کے لیے فارغ کررکھاتھا:
زمرّد خاتون(۵۵۷ھ)، جو دمشق کے حکم راں الملک دقّاق کی بہن تھیں، انھوں نے ایک مدرسہ قائم کیا تھا، جو المدرسۃ الخاتونیۃ البرانیۃ کے نام سے معروف تھا۔[الزرکلی، الاعلام،۳؍۴۹ ]عائشہ ہانم ( بارہویں صدی ہجری) نے ۱۱۵۴ھ میں ایک مسافر خانہ تعمیر کرایا تھا جس کو ’ سبیل عائشہ ہانم ‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے اوپر انھوں نے قرآن کی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم کیا تھا اور ان دونوں کے مصارف کے لیے بہت سی جائیدادیں وقف کر دی تھیں اور اپنے ورثاء کو ان کا متولّی بنا دیا تھا ۔[ عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۳؍۱۹۴ ]یمن کے سلطان الملک المظفر کی بیوی مریم نے زبید میں المدرسۃ المجاھدیۃ قایم کیا، اس میں یتیم اور غریب بچوں اور دیگر طالب علموں کو داخل کیا، اس میں امام، مؤذن اور معلّم کو رکھا اوراس کے مصارف کے لیے وقف کا معقول نظم کیا۔ [عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۵؍۴۰]السیدۃ ملکۃ بنت ابراہیم البعلیۃ الدمشقیۃ نے خواتین کے لیے مخصوص ایک رباط قائم کیا، جس میں قرآن مجید کے حفظ اور حدیث نبوی کی تعلیم کا نظم کیا۔[ عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۲؍۳]
صحابیات و تابعیات کی علمی خدمات
علوم اسلامیہ کی اشاعت و ترویج کا کام عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ ہی سے شروع ہو گیا تھا اور خواتین نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔۔امہات المومنین میں خاص طور پر حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سلمہؓ نے بڑے پیمانے پر امت کو علمی فیض پہنچایا ہے۔حضرت عائشہؓ نہایت ذہین اور غیر معمولی حافظہ کی مالک تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی ہر بات کو اس کی صحیح ترین اور کامل ترین شکل میں یادرکھا اور آپ کے جن اعمال کا مشاہدہ کیا ان کو بھی پوری طرح سمجھ کر اپنے ذہن میں محفوظ رکھا۔وہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد پچاس (۵۰) برس تک زندہ رہیں اور مسلمانوں کی دو نسلوں تک آپؐ کی تعلیمات کو پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔وہ ایک قسم کا’ زندہ ٹیپ ریکارڈ‘ بن کر تقریباًنصف صدی تک امت کے حق میں فیض رسانی کا ذریعہ بنی رہیں۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم، امہات المومنین، الرسالہ بک سینٹر ،نئی دہلی ۲۰۰۱ء، ص۹،۱۰)
حضرت عائشہؓ سے دوہزار دو سو دس(۲۲۱۰) احادیث مروی ہیں۔ان سے دو سو ننانوے(۲۹۹) صحابہ وتابعین نے روایت کی ہے، جن میںسڑسٹھ( ۶۷) خواتین تھیں۔ حضرت ام سلمہؓ کا شمار فقہائے صحابیات میں ہوتاہے۔علامہ ابن قیمؒ نے لکھاہے کہ اگر ان کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو ایک رسالہ تیار ہوسکتاہے۔ [اعلام الموقعین، ابن قیم، دار الکتب العلمیۃ، بیروت ، ۱۹۹۶ء،۱؍۱۰۔۱۲]ان سے ایک سو ایک (۱۰۱)صحابہ وتابعین نے روایت کی ہے، جن میںتیئس(۲۳) خواتین ہیں۔احادیث کی روایت میں صحابیات ، تابعیات اور بعد کی خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔یہاں صرف چند مشہور خواتین کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
سید التابعین حضرت سعید بن المسیبؒ (م۹۴ھ) بڑے علم و فضل کے مالک تھے۔ ان کے حلقۂ درس سے بے شمار لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور ان سے احادیث روایت کیں ۔ ان کی صاحب زادی ’درّۃ‘ نے ان سے مروی تمام احادیث حفظ کرلی تھیں۔خلیفۂ وقت عبد الملک بن مروان(م۸۶ھ) نے اپنے بیٹے اور ولی عہد ولیدکے لیے ان کا رشتہ مانگا، لیکن ابن المسیب ؒنے انکار کردیا اور ان کا نکاح اپنے ایک شاگرد ابن ابی وداعہ سے کردیا۔ نکاح کے کچھ روز کے بعد جب شوہر حضرت ابن المسیبؒ کی علمی مجلس میں جانے لگے تو بیوی نے کہا: اجلس أعلّمک علم سعید۔’’یہیں رہیے۔ (میرے والد) حضرت سعیدؒ کے پاس جو علم ہے وہ میںہی آپ کو دے دوں گی۔‘‘(ابن الحاج ،المدخل ،۱؍۲۱۵،ابن سعد،الطبقات ،۵؍۱۳۸، ابو نعیم ،حلیۃ الاولیاء، ۲؍۱۶۷)
امام مالک بن انسؒ (م۱۷۹ھ)کی صاحب زادی کو پوری مؤطا یاد تھی۔ان کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے والد کے حلقۂ درس میں دروازے کی اوٹ سے شریک رہتی تھیں۔ احادیث پڑھنے میں کوئی شخص غلطی کرتا تو وہ دروازہ کھٹکھٹادیاکرتی تھیں۔ امام مالک سمجھ جاتے اور پڑھنے والے کی اصلاح کردیتے تھے۔ [ابن فرحون ،الدیباج المذھّب فی أعیان علماء المذھب، ۱؍۸۶]
فاطمہ بنت منذر بن زبیر بن العوام عظیم محدثہ اور فقیہہ تھیں۔ انہوں نے بہت سی احادیث کی روایت کی ہے، خاص طور پر اپنی دادی حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے۔ان کی بیش تر روایات ان کے شوہر حضرت ہشام بن عروہ ؒ(م۱۴۶ھ) کے واسطے سے مروی ہیں۔
نفیسہ بنت الحسن بن زید بن الحسن بن علی بن ابی طالب(م ۲۰۸ھ)،جو امام جعفر صادقؒ کی بہو تھیں، بڑی صاحبِ علم و فضل خاتون تھیں۔ وہ ا پنے شوہر اسحاق مؤتمن کے ساتھ مدینہ سے مصر چلی گئیں تو وہاں ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ چنانچہ لوگ علم کی پیاس بجھانے کے لیے جوق درجوق ان کے گھر کا رخ کرتے تھے۔ان کے شاگردوں میں سب سے مشہورنام امام شافعیؒ کا ہے ،جو ان سے علمی استفادہ کے لیے برابر ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ سیدہ نفیسہ حدیث اور تفسیرِ قرآن دونوں کی بڑی عالمہ تھیں۔ انہیں پورا قرآن حفظ تھا۔ وہ احادیث بھی روایت کرتی تھیں۔ مورخین نے دونوں میدانوں میں ان کی عظمت ومہارت کا تذکرہ کیاہے۔زرکلی نے لکھاہے: عالمۃ بالتفسیر والحدیث[الزرکلی ،الاعلام، ۸؍ ۴۴ ]
’’وہ تفسیر اور حدیث کی عالمہ تھیں۔‘‘سیدہ نفیسہ کی علمی عظمت کا اعتراف ہی ہے کہ تاریخ میں ان کی شہرت ’نفیسۃ العلم‘ کے نام سے ہے۔lll