کوئی بیس سال پہلے کی بات ہے، مولانا محمد فاروق خاں صاحب لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد میں تربیت ذات کے موضوع پر تقریر کررہے تھے، مجھے اس تقریر کی ایک بات یاد رہ گئی، مولانا نے کہا تھا: ’’ہرعمارت کی ایک کرسی (Plinth) ہوتی ہے۔ کرسی نیچی ہوتی ہے تو عمارت کا حسن دب جاتا ہے، کرسی اونچی ہوتی ہے۔ تو عمارت کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ دہلی کی جامع مسجد کی امتیازی شان اس کی اونچی کرسی سے ہے۔ انسان کی زندگی بھی ایک عمارت ہے، اور اس کی بھی کرسی ہوتی ہے۔ آپ اپنی زندگی کی عمارت کی کرسی اونچی رکھیں‘‘۔
میں نے اپنے گردوپیش کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ عمارت کی کرسی عمارت کے حسن کو بڑھاتی ہے، ساتھ ہی گلی کوچے کی گندگی سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ برسات میں نالی کا گندا پانی ان گھروں میں نہیں گھستا ہے جن کی کرسی اونچی ہوتی ہے۔ بہت سے کیڑوں مکوڑوں کی رسائی سے بھی مکان محفوظ رہتا ہے۔ سیلاب آجائے تو اونچی کرسی والے مکان لوگوں کے لئے پناہ گاہ بھی بن جاتے ہیں۔
مولانا نے دہلی کی جامع مسجد کی مثال دی اور میں اونچی کرسی والی انسانی عمارتوں کی تلاش میں نکل گیا۔ اس سفر میں ایسی بہت سی اونچی کرسیوں والی عالیشان عمارتیں نظر آئیں کہ جن کی عظمت اور وقار کے سامنے دل ونگاہ احترام سے جھک جائیں ایک نمایاں شخصیت حضرت یوسف علیہ السلام کی ہے۔ مصر کی حسیناؤں نے سارے حربے آزما ڈالے، لیکن ان کی شخصیت کی کرسی اتنی اونچی تھی، کہ سارا زور لگا کر بھی وہ اس عمارت کی چوکھٹ تک نہیں پہونچ سکیں، کجا کہ اس عمارت کو داغ دار کرپاتیں۔ آخر بے بس ہوکر پکار اٹھیں کہ یہ انسان نہیں ہے، شرافت اور گناہ بیزاری کا یہ پیکر تو ایک فرشتہ ہی ہوسکتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن جفر سخاوت کے سمندر تھے، اور اس سخاوت کی عمارت جس کرسی پر تھی وہ بھی بہت اونچی تھی، ایک بار ان کے سامنے ایک غریب عورت نے دست سوال دراز کیا، آپ نے اچھی خاصی رقم دے دی، لوگوں نے کہا یہ آپ کو نہیں جانتی ہے، اور یہ تو تھوڑی رقم سے بھی بہت خوش ہوجاتی، آپ نے کہا: ’’وہ تو تھوڑی رقم لے کر خوش ہوجاتی لیکن مجھے تو زیادہ دے کر ہی خوشی مل سکے گی، اور وہ مجھے نہیں جانتی تو کیا ہوا، میں تو اپنے آپ کو جانتا ہوں‘‘۔
شام کے مشہور عالم شیخ سعید حلبی ایک بار درس دے رہے تھے اور تکلیف کی وجہ سے پیر پھیلاکر بیٹھے تھے، درس کے دوران شام کا گورنر ابراہیم پاشا آنکلا۔ اس کی دہشت پورے ملک پر چھائی ہوئی تھی، لیکن شیخ حلبی پر اس کی آمد کا کوئی اثر نہیں ہوا، انہوں نے اپنے پاؤں نہیں سمیٹے، اور درس کو اسی طرح جاری رکھا۔ پاشا کو غضب ناک کرنے کے لئے یہ بہت تھا، مگر اس نے ضبط کرلیا، اور مجلس سے نکلنے کے بعد ان کے پاس اپنے کارندے سے اشرفیوں کی ایک تھیلی بھجوائی۔ شیخ نے اس تھیلی کو واپس کرتے ہوئے کہا: ’’یہ واپس لے جاؤ، اور پاشا سے کہہ دو جو اپنے پاؤں پھیلاتا ہے وہ اپنا ہاتھ نہیں پھیلاتا ہے‘‘۔ اونچی کرسی کی شان کو اس ایک جملے سے سمجھا جاسکتا ہے۔
اس دور کی عظیم شخصیت سید قطب کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، اور ان سے رحم کی اپیل لکھنے کو کہا گیا، انہوں نے عزیمت سے بھرپور لہجے میں کہا: ’’میری شہادت کی انگلی جو ہر نماز میں اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہے، وہ ایسا ایک حرف نہیں لکھ سکتی جس سے اللہ کے کسی باغی کی حکمرانی کا اقرار ہوتا ہو۔ میں رحم کی اپیل کیوں کروں، اگر میری سزا کا فیصلہ درست ہے، تو میں اسے خود قبول کرتا ہوں، اور اگر یہ فیصلہ باطل ہے تو میں اس سے برتر ہوں کہ باطل سے رحم کی التجا کروں‘‘۔ حق پرستوں کی زندگی کی کرسی اتنی ہی اونچی ہونی چاہئے کہ بڑے بڑے جابروظالم بے بسی سے اس کے سنگ دیوار سے اپنا سر پھوڑتے نظر آئیں۔
جب برائی فیشن بن جائے، مادہ پرستی اور بے حیائی کا گندا سیلاب ہر گھر میں گھسنے کے درپے ہو، اخلاقی اقدار کے پشتے ایک کے بعد ایک ٹوٹتے جارہے ہوں، ہر جانب انسانی عظمت داؤ پر لگی ہوئی ہو، بلند قامت شخصیتوں کو اپنی قامت کھوتے دیر نہیں لگتی ہو، باوقار مکانوں کی عزت واحترام خطرے میں ہو، تو زندگی کی عمارت کی کرسی کو اونچا رکھنا بہت زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔
یاد رہے کہ انسانی زندگی کی وہ عمارتیں مقام امامت کی سزاوار نہیں ہیں جو بظاہر اونچی نظر آتی ہوں لیکن ان کی کرسی اتنی نیچی ہو کہ کبھی بھی گندے پانی کا ریلا اندر گھس آئے، اور سب کچھ گندا کرڈالے، جن کی نالیوں سے باہر کی گندگی اندر آتی ہو، اور جن کی زمین چاٹتی چوکھٹیں حشرات الارض کی گزرگاہ بنی ہوئی ہوں۔lll