حضرت عمران بن حطان سے روایت ہے کہ میں حضرت ابوذرؓ کے پاس آیا تو انھیں مسجد میں سیاہ چادر اوڑھے تنہا بیٹھا ہوا پایا۔ میں نے عرض کیا: ابوذر! یہ تنہائی کیسی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تنہائی برے ہم نشین کے مقابلے میں بہتر ہے، اور صالح ہم نشین تنہائی کے مقابلے میں بہتر ہے، اور خیر کی بات کرنا خاموشی سے بہتر ہے، اور خاموشی بری بات پھیلانے سے بہتر ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
کیسی عمدہ اور جامع نصیحتیں ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہونے والا اپنی جھولیاں نیکی سے بھرے گا اور برائیوں سے محفوظ رہے گا۔ تنہائی میں اللہ کا ذکر ہو یا پھر صالح ہم نشین ہو تو اس کی صحبت سے فیض یاب ہوکر ایمان اور عمل میں اضافہ کرے گا۔ اگر صالحین کی جماعت میسر ہوجائے جوتبلیغِ دین کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہو تو پھر انسان اس مقصد کو حاصل کرنے میں مصروف ہوجائے گا جس کے لیے انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے ہیں، پھر خیر کی اشاعت، نیکیوں کے پھیلانے کے بعد برائی سے روکنے میں مصروف رہنا وہ سعادت ہے جو انبیاء علیہم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس حدیث پر ہر مسلمان عمل کرے تو امت میں عظیم انقلاب برپا ہوجائے گا۔lll
غلام کا بلند مرتبہ
کسی دنیا دار نے حضرت لقمان سے پوچھا:
’’آپ فلاں خاندان کے غلام رہے ہیں تو پھر یہ مرتبہ، یہ عزت اور ناموری، وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے آپ کو یہ بلند مرتبہ ملا؟‘‘
آپ نے فرمایا:’’راست گوئی، امانت میں خیانت نہ کرنا، ایسی گفتگو اور ایسے عمل سے گریز کرنا جس سے مجھے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر حرام فرما دیا ہے ان سے قطعی گریز کرنا۔ لغو باتوں سے پرہیز کرنا۔ حلال رزق پیٹ میں ڈالنا۔۔۔جو ان سادہ باتوں پر مجھ سے زیادہ عمل کرے گا وہ مجھ سے زیادہ عزت پائے گا، اور جو آدمی میرے جتنا عمل کرے گا وہ مجھ جیسا ہوگا۔‘