عورت، اسلام اور مسلم معاشرہ

شمشاد حسین فلاحی

المومنون والمؤمنات اولیاء بعضہم ببعض۔ (القرآن)
’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔‘‘
’’ڈھول، گنوار، شودر، پشو ناری
یہ سب تاڑن کے ادھیکاری‘‘
(تلسی داس)
’’تقدیر، طوفان، موت، جہنم، زہر اور زہریلے سانپ ان میں سے کوئی بھی اس قدر خطرناک نہیں جتنی عورت ہے۔‘‘
(سوامی دیانند سرسوتی ’’ستیارتھ پرکاش‘‘)
’’عورت تیرانام دھوکا ہے۔‘‘ (شیکسپئر)
النساء حبالۃ الشیطان۔
’’عورتیں شیطان کی رسی ہیں۔ ‘‘
(جمعہ کے ایک خطبے کا جملہ)
دنیا میں عورتوں اور مردوں کی اجتماعی زندگی کو معاشرہ تصور کیا جاتا ہے۔ دونوں برابر ہیں لیکن عملاً ایک کمزور ہے اور دوسرا طاقتور ، ایک حاکم ہے دوسری محکوم ایک رعایا ہے اور دوسری رعیت بلکہ بعض صورتوں میں ایک مالک ہے اور دوسری ملکیت۔ زمانوں اورتہذیبوں کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے۔ قدیم زمانوں کی بھی، ماضی قریب کی بھی اور حال کی کیفیت بھی۔ یہاں مذاہب بھی ایک ہی کے حامی نظر آتے ہیں اور جغرافیائی حدوں میں الگ الگ پائی جانے والی تہذیبیں اور ثقافتیں بھی۔ اس میں مشرق بھی ہے اور مغرب بھی، شمال بھی ہے اور جنوب بھی۔ مغرب کے روشن خیال مفکر و دانشور بھی ہیں اور مشرق کے مذہبی رہنما اور مفکرین بھی۔ قدیم زمانے کے تلسی داس بھی ہیں اور نئے روشن دور کے سوامی دیانند سرسوتی اور شیکسپئر بھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی فکر کی بنیاد محض ان کی سوچ ہے اور الٰہی احکام کی انہیں ہوا تک نہیں لگی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرے کے ایک بنیادی حصہ عورت کو صحیح طرح نہ سمجھ سکے اور اس کی معاشرہ میں وہ حالت ہوئی جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔
عورت کو ’’تاڑن کی ادھیکاری‘‘ ہر چیز سے زیادہ خطرناک، اور دھوکہ تصور کرنے والے اس کے علاوہ اور کیا سوچ سکتے تھے اور سوچ سکتے ہیں کہ وہ اسے کس کر رکھیں اور سدھائیں، اس سب سے خطرناک چیزسے خود کو محفوظ کرنے کی تدبیر کریں اور اس دھوکہ سے اپنے آپ کو باز رکھیں۔ جیسی سوچ ویسا عمل اور جیسا عمل ویسے ہی نتائج اور اثرات۔ پھر یہی ہوسکتا تھا جو ہم دیکھ رہے ہیں اور یہی ہوا – اور – ایسا نہیں ہے کہ عورت کے سلسلے میں یہ سوچ کوئی نئی پیداوار ہے۔ نہیں صدیوں پرانی، مختلف مذاہب، تہذیبوں اور سماجوں میں یہ یا ان سے ملتی جلتی سوچ نہ صرف جاری رہی ہے بلکہ غالب رہ چکی ہے۔ ہندوستان، چین اور ایران کی قدیم تہذیبیں ہوں یا ہندو مت، عیسائیت اور یہودیت جیسے مذاہب تقریباً سبھی کا نظریہ عورت کے سلسلے میں یکساں ہے۔
قرآن یعنی اسلام نے عورت کی بلند حیثیت متعین کی۔ برابری اور مساوی حیثیت سماج اور معاشرہ کے فرد کی حیثیت سے اسے ایسا بے مثال مرتبہ فراہم کیا جس کی نظیر کسی سماج، کسی تہذیب اور کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ ذلت، بدنامی، منحوسیت اور غلامی کے قعرِ مذلت سے اسے نکالا اور ایک باعزت معاشرے کے محترم فرد کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا حق دیا۔ مومن مرد اور مومن عورتوں کوایک دوسرے کا ولی قرار دیا۔ اس طرح وہ تمام کلنک اس کی پیشانی سے مٹا دیے جو بے خدا تہذیبوں اور آزاد خیال مفکروں نے لگائے تھے۔ وہ تمام تنازعات اور کشمکشیں یکسر ختم کردیں جو خدا ناشناس تہذیبوں نے مرد و عورت کے درمیان پیدا کردی تھیں۔ کیا ہم نہیں دیکھتے عرب کے جاہلی سماج میں عورت کیا تھی اور اسلام آنے کے بعد وہ کیا بن گئی؟؟ قرآن نے عرب معاشرے سے سوال کیا:
واذا الموؤدۃ سئلت بای ذنب قتلت۔
’’اور یاد کرو اس وقت کو جب اس لڑکی سے جسے تم زندہ دفن کردیتے ہوپوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم کی سزا میں قتل کی گئی؟‘‘
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خواتین سے متعلق تفصیلی احکام نازل کیے۔ ان کے حقوق متعین کیے اور اس سلسلے میں مرد و خواتین کے لیے کوڈ آف لائف فراہم کیا، حسن سلوک کی تعلیم دی اور ان پر زیادتی کے بھیانک نتائج سے آگاہ کیا۔
ہمارے حضور نے ان کے ساتھ حسن سلوک کا تاکیدی حکم دیا۔ کہیں ان کی پرورش کو جنت کا ذریعہ بتایا اور کہیں ان کے ساتھ حسن سلوک کو جنت کی ضمانت قرار دیا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ بے نیازی کے مرحلے کو پہنچ جائیں تو وہ قیامت کے دن مجھ سے اتنا قریب ہوگا (پھر آپ نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو دکھایا) جتنی قریب یہ دو انگلیاں ہیں۔‘‘
آپ نے مزید فرمایا:
’’لوگو سنو! عورتوں کے ساتھ بھلائی کا تاکیدی حکم قبول کرو۔‘‘
عورت کے عزت و احترام سے متعلق آپؐ نے سیکڑوں جگہ تاکید فرمائی۔ بیوی، بیٹی اور ماں کی حیثیت سے جو احکام دیے اور جو عملی مثالیں قائم کیں وہ ایسی ہیں کہ کوئی دوسرا مذہب، معاشرہ یا تہذیب پیش نہیں کرسکتی۔ ملاحظہ ہو:
٭ ’’تم میںسے وہ مرد سب سے بہتر ہیں جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہوں۔‘‘
٭ ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔‘‘
٭ ’’جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی وہ جنت میں مجھ سے قریب ہوگا۔‘‘
٭ قرآن کہتا ہے: ’’اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی دیں گے۔‘‘
اسلام نے عورت کو معاشی آزادی اورمالی حقوق بھی دیے۔ قرآن نے واضح طور پر میراث میں عورت کا حق متعین کیا جو نہ آج کسی تہذیب میں رائج ہے اور نہ پہلے تھا۔ قرآن کہتا ہے:
٭’’اس مال میں جس کو ماں باپ یا قرابت دار چھوڑ جائیں مردوں کے لیے بھی حصہ ہے اور عورتوں کے لیے بھی۔‘‘
٭ ’’مردوں کے لیے اس میں حصہ ہے جو وہ کمائیں اور عورتوں کے لیے اس میں حصہ ہے جو وہ خود کمائیں۔‘‘
اسی طرح اسلام نے عورت کو اقتصاد ی معاش کے بوجھ سے آزادی دی ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے۔ اس کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں جہاں حدیثیں متعین کی ہیں وہیں مسلم معاشرہ کے مردوں اور خواتین کو ایک ضابطۂ اخلاق بھی فراہم کیا ہے۔ دیکھئے قرآن کہتا ہے:
’’اے نبیؐ! مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ جب وہ باہر نکلیں تو اپنے اوپر اوڑھنیوں کے آنچل ڈال لیا کریں تاکہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔‘‘
حضورﷺ نے اہلِ ایمان کو اس بات کی ہدایت فرمائی کہ وہ اجنبی عورتوں کو نہ دیکھیں اور نیچی نگاہ رکھ کر گزر جایا کریں۔ تعلیم مسلم معاشرہ کا زیوررہا ہے۔ حضورؐ نے کس طرح تعلیم کو معاشرہ میں رائج کیا اس کا اندازہ لگانے کے لیے یہ کافی ہے کہ جنگ کے ان قیدیوں کو جن کی آزادی کی کوئی صورت باقی نہ رہی تھی اور وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، آپ نے ان سے کہا کہ وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں اور اس قید سے آزادی حاصل کرلیں۔ نیز یہ حدیث ہمارے لیے رہنما ہے:
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) کا فرض ہے۔‘‘
حضورؐ کی زندگی میں یہ بھی نظر آتا ہے کہ آپ نے اپنی بیویوں کو بھی لکھنا پڑھنا سکھانے کا انتظام فرمایا تھا ان میں حضرت حفصہ ؓ کا نام روایات میں آتا ہے۔
یہ وہ فیوض و برکات ہیں جو اسلام نے عورتوں کو دیں۔ یہ اقوال و احادیث اور قرآن کی آیات اسلام میں عورت کی حیثیت اس کے مقام و مرتبہ اور مرد و زن کے باہمی تعلق کو واضح کرتی ہیں۔ یہ باتیں دنیا کے لیے، مسلم سماج کے لیے اور آج کے اہلِ ایمان کے لیے رہنما بھی ہیں اور آئینہ بھی۔ رہنماتاکہ وہ سمجھ سکیں کہ اسلام عورت کے بارے میں کیا تعلیمات دیتا ہے اور آئینہ کہ وہ دیکھیں کہ وہ اسلام اور اس کی تعلیمات سے کتنی دور جاچکے ہیں۔ مسلم سماج چاہے وہ ہندوستان کا ہو یا دنیاکے دوسرے ممالک کا ہر جگہ عورت اس اسلام کی برکتوں سے بڑی حد تک محروم نظر آتی ہے۔ جو اسلام نے اسے دی ہیں۔ کہیں جہالت کے سبب اور کہیں دین داری کی آڑ میں۔
جہالت پر مبنی مسلم سماج کا حال اب یہ ہوگیا ہے کہ جن لوگوں کو بیٹیوں کو جنت کی ضمانت سمجھناتھا اب اس کی پیدائش پر ان کے منھ لٹک جاتے ہیں۔ بلکہ بلا جواز اور بلا گناہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی ان کو ختم کردینے والوں میں بھی وہ شامل ہیں۔
ماں کے قدموں تلے جنت کا تصور تو محض کتابی اور خیالی بات معلوم ہوتا ہے اور اب ہمارے بوڑھے والدین کے علاوہ اس کی اور کوئی دہائی نہیں دیتا بلکہ ان میں بھی وہی جو اس سے واقف ہیں۔
کوڈ آف کنڈکٹ یا اسلامی ضابطۂ اخلاق کی بات اب فرسودہ خیالی اور پسماندگی کی علامت ہے۔ جی ہاں کتنے ہی مسلم خاندان، ترقی یافتہ آپ کی برقعہ پوش خاتون کو ’کالی بھینس‘ کا خطاب دے ڈالیں گے۔
جہالت تو پھر بھی جہالت ہے۔ ایک اندھا پن اور ناواقفیت مگر اس علم کو کیا کیا جائے جو ذہن و فکر پرتالے ڈال دے، غوروفکر، مشاہدے اور مطالعے اور جاننے سمجھنے کی راہیں بند کردے۔ جی ہاں ایسا ہی کچھ ہے بہت سے مسلمان نام نہاد علماء ودانشوران کے ساتھ بھی۔ اسٹیج کی تقریریں ایک طرف ہیں اور عمل کی دنیا دوسری طرف۔ مسلم خواتین کے حقوق اور پرسنل لا کی دہائی ایک طرف اور مسلم عورت کو وراثت میں حصہ نہ دینے میں ’’صاف عمل کی دو رنگی‘‘ دوسری طرف۔
یہ تو’ اہل علم و دانش‘ کا حال ہے۔ بے چارا عام مسلمان تو دینی اعتبار سے اور زیادہ پسماندہ اور پامال ہے۔ ذرا اپنے پاس پڑوس محلے اور شہر پر نظر ڈالیے۔ مسلمان کے طرزِ زندگی اور طرزِ فکر و عمل کا جائزہ لیجیے!! ان کی سماجی و معاشرتی زندگی کا مطالعہ کیجیے، عورتوں کے حالات، معاملات اور سماجی درجے کو دیکھیے۔ گھروں میں آگ لگی ہے، زندگیاں جھلس رہی ہیں، فکر و سوچ سے تعفن اٹھتا ہے اور عمل دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے۔ جیسے پورا مسلم سماج قدیم جاہلیت پر لوٹ آیا ہو۔ بیٹی کی پیدائش پر منھ لٹک جانے سے لے کر جہیز کے لیے ستائی جانے اور بالآخر جلادیے جانے تک میں اس بدقسمت مسلم سماج کے خاندان اسی طرح شامل ہیں جس طرح دوسرے شامل ہیں۔ کوئی امتیاز ان کا؟ کوئی انفرادیت بہ حیثیت مسلمان؟ ہاں پسماندگی، جہالت اور شدت پسندی جس کے لیے وہ معروف ہے۔ آپ کہیں گے یہ مبالغہ ہے۔ ہم کہیں گے حقیقت ہے۔ وہ بھی ایسی جس کو آپ اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر صرف بصارت ہے تب بھی یہ حقائق ادھر ادھر پڑے نظر آجائیں گے اور اگر بصارت کے ساتھ بصیرت بھی ہے تو بے شمار درپردہ حقائق سے پردے اٹھتے چلے جائیں گے اور آپ چیخ پڑیں گے:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
حقائق سے آگاہی مشکل عمل ہے اور اگر کوئی ماننا اور تسلیم کرنا نہ چاہے تو یہ کڑواہٹ میں بدل جاتی ہے۔ مسلم سماج کی عورت سے وابستہ حقائق حیرت ناک اور افسوسناک ہیں اور کچھ لوگوں کے لیے کڑوے۔ یہ ہمارے سماج کے صدیوں پرانے زخم ہیں جو اس وقت سے گلنے شروع ہوئے جب ہم نے اللہ کی کتاب اور رسولؐ کی سنت کو چھوڑا تھا۔ یہ زخم اب ناسور کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان کا آپریشن ضروری ہے کہ مریض کے لیے نجات کا واحد راستہ یہی ہے۔ واحد راستہ مگر درد اور تکلیف سے بھرا ہوا۔ لیکن اس کے برداشت کرنے میں ہی صحت اور نجات ہے اور اس سے غفلت میں تباہی و بربادی۔
عورت معاشرے کا نصف ہے اور اپنی اثر پذیری کے اعتبار سے نصف سے بھی زیادہ۔ یہ ایک سانچہ ہے جس میں مستقبل ڈھلتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے ان سانچوں کی ساخت کو بدل ڈالا — یا— ان سانچوں کو درست رکھنے یا درست بنانے کی فکر نہیں کی۔ اور اب تو ہماری بے فکری تباہ کن غفلت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ان سانچوں کی اصلاح کی طرف متوجہ کرنا حقوق کی جنگ میں مدِ مقابل کو تقویت دینے جیسا ناپسندیدہ معلوم ہوتا ہے۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ قوامیت کی تفسیر الفاظ کے گورکھ دھندوں سے نکل کر عمل کے ذریعہ دینی ہوگی اوراس کے لیے نظیر حضورﷺ اور آپ کے اصحاب کی زندگی کو ماننا ہوگا جو ہم پر گراں ہے۔ شرعی احکام کی من چاہی تاویلات پھیکی پڑجائیں گی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے بہت سوں کو گھر میں آٹا گوندھنا پڑے اور ہمارے سفید کلف لگے کپڑے ہلدی مرچ کے دھبوں سے رنگین ہوجائیں۔ کہیں اسی خوف سے تو ہم اپنی بچیوں کو زیادہ تعلیم یافتہ کرنے سے نہیں کتراتے؟ ہوسکتا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہم سوچتے ہوں کہ زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں وفاشعار، خدمت گار اور اطاعت گزار ’سرتاجی‘ کا ورد کرنے والی ’کرواچوتھی‘ خواتین کا قحط پڑنے لگے گا۔
اللہ کے احکام انسانوں کی فلاح کے ضامن اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ یہی بات مرد و عورت کی عائلی، معاشرتی اور سماجی زندگی سے متعلق احکام کے سلسلے میں ٹھوس حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ مگر سوالات اٹھتے ہیں کہ انسانی فطرت کے عین مطابق اور فلاحِ انسانی کے ضامن یہ احکام دنیا کے مرد وخواتین کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کیوں ناکام ہیں اور ان کی کوشش کیوں ماند پڑگئی ہے؟ جواب واضح ہے کہ ان کی پشت پر ان کے ماننے والوں کی عملی زندگی کی کوئی قابلِ اعتناء قوت نہیں ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی زندگیاں ان کے برعکس تصویریں پیش کررہی ہیں۔
اسلام کا گہرا علم رکھنے والی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی سے پوچھا گیا کہ آخر تم اسلام کیوں نہیں قبول کرلیتیں؟ اس کا جواب آپ کو چونکا ئے گا۔ اگر آپ نہ چونک جائیں تو اس پر ضرور غوروفکر کیجیے گا۔ اس کا کہنا تھا:
’’میں ایسے خدا کو کیوں مانوں جو ایک مرد کو مجھ پر مسلط کردیتا ہے۔‘‘
کیا یہ اس کی فکر کا ٹیڑھ ہے یا مسلم سماج کے ذریعے اسلام کی غلط ترجمانی۔ آپ بھی غور کیجیے! اور یہ بھی جائزہ لیجیے کہ ’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔‘‘ (قرآن)
اور ’’عورتیں شیطان کی رسی ہیں۔‘‘ جیسے جملوں کا ایک ہی سماج میں رائج ہونا کہیں اول الذکر آیت قرآنی سے انحراف کی شکل تو نہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں