اسلام کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ عورتوں کو برابر کا مقام دینے کے بجائے اسے محض مرد کی تابع مہمل بناکر رکھتا ہے۔ حالانکہ اسلام عورتوں کو ٹھیک وہی حیثیت دیتا ہے جو مردوں کو حاصل ہے۔ اگر اللہ اور اس کے رسول کے متعلق کسی شخص کا خیال ہو کہ انھوں نے عورتوں کے ساتھ بے انصافی کی ہے اور اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ انصاف اہلِ مغرب نے کیا ہے تو اسے پہلے اپنے ایمان پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہلِ مغرب نے عورت کو جو ’’برابری‘‘ کا مقام دیا ہے اسے عورت رکھ کر نہیں دیا بلکہ اس کو نیم مرد بناکر دیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عورت وہ تمام کام کرے جو مرد کرتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ مرد وہ سارے کام نہیں کرسکتا جو عورت کرتی ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ دراصل وہ یہ چاہتے ہیں کہ عورت اپنے وہ فرائض بھی انجام دے جو فطرت نے اس پر ڈالے ہیں جن کو مرد انجام دے ہی نہیں سکتا اور اس کے ساتھ وہ ان فرائض کے سنبھالنے میں بھی مرد کے ساتھ آکر برابر کا حصہ لے جو فطرت نے مرد کے اوپر ڈالے ہیں۔ گویا عورت پر وہ ڈیڑھ گنا بار ڈالنا چاہتے ہیں اور مرد پر آدھا بار۔ اس کا نام انھوں نے رکھا ہے عورت اور مرد کی مساوات
عورت کا فطری مقام
اب عورتوں نے دھوکا کھا کر جب مردوں کے ساتھ برابری کا دعویٰ کیا تو اس کے بعد مغرب میں خواتین پہلے (Ladies First) کا قصہ بھی ختم ہوگیا۔ ہمارے یہاں ابھی تک مردوں میں یہ بات ہے کہ اگر کوئی عورت گاڑی میں کھڑی ہو تو مرد کھڑاہو جائے گا اور اس سے کہے گا کہ آپ تشریف رکھئے۔ لیکن وہاں اب وہ کہتے ہیں کہ تم برابرکی ہو۔ تمہیں پہلے بیٹھنے کا موقع مل گیا تو تم بیٹھ جاؤ ہمیں موقع مل گیا تو ہم بیٹھ گئے۔ ورنہ کھڑی رہو۔ اب عورتیں دھکے کھاتی پھرتی ہیں۔ اور کوئی ان کو پوچھتا تک نہیں۔ الا یہ کہ پوچھنے کی کوئی ’’خاص‘‘ وجہ ہو، لیکن اس وقت تک بھی مغربی ممالک میں مرد اور عورت ایک ہی قسم کے جو کام کرتے ہیں ان کا معاوضہ دونوں کو برابر نہیں دیا جارہا ہے اور اس پر عورتیں شور مچا رہی ہیں۔ پھر جن میدانوں میں عورتوں اور مردوں کو برابر لاکر کھڑا کردیا گیا ہے، ان میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے فطرتاً عورتوں کو مرد کے برابر نہیں کیا ہے اس وجہ سے عورت لاکھ کوشش کرے پھر بھی وہ مرد کی برابری نہیں کرسکتی۔
اصل بات یہ ہے کہ فطرت نے عورت کا جو مقام رکھا ہے، جب آپ اس کو وہاں سے ہٹا کر لائیں گے اور اس مقام پر لاکر کھڑا کریں گے جو فطری طور پر اس کا مقام نہیںہے تو ظاہر بات ہے کہ عورت پیچھے رہ جائے گی اور مرد آگے نکل جائے گا۔ مساوات کبھی قائم ہوئی ہے نہ ہوسکتی ہے۔
اسلامی معاشرہ اور مغربی معاشرہ
اسلام نے جو کچھ کیا ہے وہ یہ ہے کہ عورت کے سپرد وہی فرائض کیے ہیں جو فطرت نے اس کے سپرد کیے ہیں، اس پر وہی ذمہ داریاں ڈالی ہیں جو فطرت نے اس پر ڈالی ہیں۔ اس کے بعد اس کو مردوں کے ساتھ بالکل مساویانہ حیثیت دی ہے، ان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ ان کے لیے عزت کا وہی مقام رکھا ہے، جو مرد کے لیے ہے۔ مسلمان عورتوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ اس معاشرے میں پیدا ہوئی ہیں جس سے بڑھ کر عورتوں کی عزت دنیا کے کسی معاشرے میں نہیں ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں دیکھئے عورت کا کیا حال ہے۔ کیسی مصیبت کی زندگی وہ بسر کررہی ہے۔ باپ کے اوپر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ بیٹے پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ بھائی پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ خاندان اور رشتہ داروں پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ادھر وہ جوان ہوئی اُدھر اس کا باپ رخصت کردیتا ہے کہ جاؤ اور خود کما کر کھاؤ۔ اب اس کے بعد اس سے بحث نہیں ہے کہ وہ کس طرح کما کر کھائے اور کس طرح زندگی بسر کرے۔ یہاں باپ اپنی بیٹی کی ذمہ داری سے اس وقت بھی سبکدوش نہیں ہوتا جب وہ اس کی شادی کردیتا ہے۔ شادی کردینے کے بعد بھی وہ اس کی اور اس کی اولاد تک کی فکر رکھتا ہے۔ بھائی اپنی بہنوں کے پشت پناہ ہوتے ہیں۔ شوہر اپنی بیویوں کو گھر کی ملکہ بناکر رکھتے ہیں۔ یہاں انہیں آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے اور ان کی عزت کی جاتی ہے۔ وہاں بغیر اس کے کہ وہ نیم برہنہ ہوکر مردوں کے سامنے ناچے اس کی کوئی قدر اور مقام نہیں ہے۔ اب اگر دنیا کے کسی بھی حصہ کی مسلم عورتیں ان حقوق پر قناعت نہیں کرنا چاہتیں جو اسلام ان کو دیتا ہے اور وہی برابری دیکھنا چاہتی ہیں جو مغربی ممالک میں عورت دیکھ رہی ہے تو انھیں اس کا اختیار ہے۔ مگر یہ سمجھ لیجیے کہ اس کے بعد پھر پلٹنے کا موقع نہیں ملے گا۔ پھر آپ توجہ بھی کریں گی تو معافی کی امید نہیں ہے۔ ایک معاشرہ جب بگاڑ کے راستے پر چل پڑتا ہے تو اس کی انتہا کو پہنچے بغیر نہیں رہتا اور انتہا کو پہنچنے کے بعد پلٹنا محال ہوجاتا ہے۔
ملک کی ترقی میں عورتوں کا حصہ
بعض لوگوں کو اندیشہ ہے کہ پردہ کی پابندی میں رہ کر عورت، جو ہماری آبادی کا نصف حصہ ہے، ملک کی ترقی میں معاون بننے کے بجائے الٹی رکاوٹ کی باعث بنتی ہے۔ یہ اندیشہ دراصل ان ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے جو ترقی کو محض معاشی ترقی سمجھتے اور سماج و معاشرے، خاندانی نظام اور سماجی اقدار کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں، حالانکہ معاشی اعتبار سے مضبوط معاشرہ، ضروری نہیں کہ سماجی اعتبار سے بھی پرسکون، مطمئن اور ترقی یافتہ ہو۔
نئی نسلوں کی پرورش کرنا اور ان کو اچھی تربیت دینا بھی ترقی میں حصہ داری ہے اور ایسی حصہ داری ہے کہ اسے نظر انداز کرنے کی صورت میں تمام ترقیاں بیکار ہیں۔ وہ ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے جس میں بچوں کو اول روز سے ماں اور باپ کی محبت نصیب نہ ہو اور پیدا ہوتے ہی وہ کرائے کی پالنے والیوں کے حوالے کردیے جائیں؟ باپ بھی نوکری پر گیا ہوا ہے اور ماں بھی نوکری پر گئی ہوئی ہے اور بچوں کو وہ ادارے سنبھال رہے ہیں، جن کے کارپرداز بہرحال ماں باپ کی جگہ نہیں لے سکتے اور بچوں کو ابتدا ہی سے محبت کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا ۔ اور جن بچوں کو بچپن میں ماں باپ کی محبت نصیب نہیں ہوتی وہ حقیقت میں انسان بن کر نہیں اٹھتے۔ آج دنیا میں جو ظلم و ستم اور درندگی ہورہی ہے اور کم سنی کے جرائم نے معاشرے کے لیے ایک پریشان کن مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ یہ بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو پھر ماں باپ کو بھی ان سے کوئی محبت نہیں ملتی۔ اور جہاں خون کے رشتوں تک میں محبت نہ ہو وہاں انسانی محبت کا کیا سوال؟ ایسے انسان تو پھر خود غرضی کے پتلے اور آدمیت کے احساسات سے خالی ہی ہوں گے۔ برطانیہ میں قیام کے دوران ہمیں سیکڑوں ایسے ہندوستانیوں اور پاکستانیوں سے ملنے کا موقع ملا ہے جو برسوں سے وہاں رہتے ہیں وہاں ان سے برطانوی معاشرے کے اندرونی حالات معلوم کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے ایسے واقعات سنائے کہ ہندوستانی معاشرہ میں ان کا تصور کرتے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ ایک بوڑھی ماں ایک کمرے میں رہتی ہے اور بڑھاپے کی پنشن پر گزر بسر کررہی ہے۔ بیٹے اور بیٹیاں سب خوش حال ہیں، لیکن اس بڑھیا کا پرسانِ حال کوئی نہیں ہے۔ بڑھیا مرگئی ہے مگر کسی کو پتہ نہیں ہے۔ دو تین روز تک جب اس کے دروازے سے دودھ کی بوتل نہیںاٹھائی گئی تو دودھ والے نے پولیس کو رپورٹ کی کہ فلاں دروازے سے دودھ کی بوتلیں نہیں اٹھی ہیں۔ تب جاکر پولیس نے دروازہ توڑا اور معلوم ہوا کہ تین روز سے اس بڑھیا کی لاش سڑ رہی ہے۔ یہ ان عورتوں کا حال ہے جن کے بیٹے اور بیٹیاں اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔
جو لوگ برسوں سے وہاں رہتے ہیں وہ وہاں کے جو حالات سناتے ہیں ہمیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ خاندانی تعلق کا وہاں خاتمہ ہوچکا ہے اور باپ کا بیٹے سے بیٹی کا ماں سے اور بھائی کا بھائی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کچھ اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ ملک کی ترقی کا مفہوم صرف معاشی پیداوار کی ترقی سمجھ لیا گیا۔ اس کے لیے عورتوں اور مردوں سب کو لاکر معاشی میدان میں کھڑا کردیا گیا اور خاندانی نظام کے برباد ہونے کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی، حالانکہ ترقی صرف معاشی پیداوار بڑھانے کا نام نہیں ہے ۔ اگر عورتیں گھروں میں نئی نسل کو تربیت نہ دیں، انسانیت نہ سکھائیں، ان کے اندر اعلیٰ اخلاق اور خدا ترسی پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں تو یہ ساری ترقیاں بے سود، بے فائدہ بلکہ سماج کے لیے قاتل ثابت ہوں گی اور ہورہی ہیں۔
ملک کی ترقی کا صرف یہی ایک ذریعہ نہیں ہے کہ عورتیں بھی کارخانوں میں جاکر کام کریں۔ ترقی کا یہ بھی ایک بڑا ذریعہ ہے کہ گھروں میں بچوں کو ایسی تربیت دے کر تیار کیا جائے کہ وہ دنیا میں انسانیت کے رہنما بننے کے قابل بنیں۔ چرندے اور درندے بن کر نہ اٹھیں۔
(ماخوذ از تجلی، جولائی ۱۹۶۷ء)
——