عورتوں کا مسجد میں حاضری کا حق

ڈاکٹرعبد العظیم فلاحی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد مبارک میں مسجد آج کل کی طرح صرف نماز پنج گانہ کے لیے مخصوص نہیں تھی بلکہ اس کی حیثیت ایک جماعتی مرکز یا پارلیمنٹ کی بھی تھی، جس میں نہ صرف یہ کہ نماز کی ادائیگی ہوتی تھی بلکہ مسلمانوں کے بیشتر معاملات بھی وہیں طے ہوتے تھے۔ وہاں سے مقدمات کے فیصلے، جنگی مہمات کی تیاریاں اور اموال بیت المال کی تقسیم بھی عمل میں آتی تھی۔ وہاں سے عمالِ حکومت کی تقرری، ان کا احتساب اور برطرفی کے احکام صادر ہوتے تھے۔ ضرورت پڑنے پر اس میں غیر مسلم قیدیوں کو بھی رکھا جاتا تھا اور وہیں اطرافِ حکومت سے آئے وفود کی ملاقات ہوتی تھی اور وہیں سے تبلیغی وفود بھیجے جاتے تھے جب کوئی مشکل در پیش ہوتی تو لوگ وہاں جمع ہوکر حل نکالنے کی کوشش کرتے۔ وہاں امانتیں بھی رکھی جاتی تھیں اور نکاح کا انعقاد یا طلاق کے فیصلے بھی کیے جاتے تھے۔ دعوتِ دین کے ساتھ بعض مواقع پر وہاں دعوت طعام بھی ہوتی تھی، اس کے اندر حبشیوں کے کرتب کا مظاہرہ اور اس کے منبر سے اسلام کی حمایت میں شعر خوانی بھی ہوئی ہے غرض کہ وہ مختلف الانواع دینی، دعوتی، ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں کا ایسا مرکز تھی جس کا آج تصور مشکل ہے۔

اس عہد میں عورتیں بھی اچھی خاصی تعداد میں مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتی تھیں اور امام کے خطبات سے مستفید ہوتی تھیں، کبھی کبھی ان کے لیے الگ سے بھی وعظ و نصیحت ہوتی۔ نماز میں ان کا بھی خیال رکھا جاتا۔ بخاری شریف میں روایت ہے کہ ’’اکثر حضور پاکؐ کا دل لمبی نماز پڑھانے کو چاہتا لیکن پیچھے سے کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی تو آپؐ نماز مختصر کردیتے کہ مبادا اس کی ماں کو تشویش ہو۔‘‘ آپؐ نے کبھی مڑ کر یہ نہیں فرمایا کہ بچے لے کر عورتیں مسجد میں نہ آیا کریں۔ مسجد میں صف بندی کے سلسلہ میں آپؐ کی ہدایت ہے کہ پہلے مردوں کی صف ہو پھر بچوں کی اور سب سے پیچھے عورتوں کی صف ہو تاکہ اس طرح ایک ساتھ نماز پڑھتے ہوئے بھی مردوں اور عورتوں میں فصل ہو۔

قرآن پاک میں مسلمانوں کو صرف نماز پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ نماز قائم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس اقامتِ صلوٰۃ کی تشریح میں عموماً مفسرین نے کہا ہے کہ اس کا مطلب ہے اجتماعی طور پر اہتمام کے ساتھ اور باجماعت مسجد میں نماز پڑھنا۔ ظاہر ہے کہ جہاں جہاں اقیمو الصلوٰۃ (نماز قائم کرو) کا حکم آیا ہے وہاں اس حکم میں مردوں کے ساتمھ عورتیں بھی شامل ہیں لیکن سورۃ الاحزاب میں تو باقاعدہ نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہرات کے توسط سے تمام عورتوں کو مخاطب کر کے اقمن الصلوٰۃ (تم عورتو نماز قائم کرو) کہا گیا ہے۔

مسجد میں عورتوں کی حاضری کے حق کو مختلف احادیث میں نہایت صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ بخاری شریف میں روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایک بیگم صبح اور عشاء کی نماز باجماعت کے لیے مسجد جایا کرتی تھیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ ’’آپ کیوں نکلتی ہیں جب کہ آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عمرؓ کو یہ پسند نہیں ہے اور اس سے انہیں غیرت آتی ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’پھروہ مجھے منع کیوں نہیں کردیتے۔‘‘ راوی نے بتایا کہ وہ رسول اللہﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے انہیں منع نہیں کرتے تھے کہ ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔‘‘ مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک بار حدیث بیان کی کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ ’’تم اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے منع نہ کرو اگر وہ اجازت مانگیں۔‘‘ اس کو سن کر ان کے صاحبزادے بلال نے کہا: ’’بخدا ہم تو ضرور منع کریں گے۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ یہ سن کر حضرت ابن عمرؓ نے اسے ایسی بری گالی دی جو میں نے ان سے کبھی سنی نہیں تھی اور فرمایا: ’’میں تو تم سے رسول اللہؐ کی حدیث بیان کروں اور تم کہتے ہو ہم عورتوں کو ضرور روکیں گے؟‘‘ یہ تھا صحابۂ کرامؓ کا جذبۂ اطاعت کہ حضوؐر کے فرمان کے آگے ذرا بھی چوں و چرا برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرما دیا ہے کہ ’’کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لیے یہ سزا وار نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ کردیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کوئی اختیار رہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب:۳۶)

حافظ ابن الجوزی نے اپنی کتاب احکام النساء میں لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہﷺ اپنی بیٹیوں اور عورتوں کو عیدین کے لیے نکلنے کا حکم دیتے تھے۔‘‘ اسی طرح حضرت ام عطیہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے حکم دیا کہ ’’سیانی لڑکیاں اور عورتیں عیدین کے دن (نماز کے لیے) نکلیں۔ اور ماہواری میں مبتلا عورتیں بھی، لیکن وہ عیدگاہ سے الگ رہیں البتہ نیکی اور مسلمانوں کی دعاؤں میںشریک رہیں۔‘‘

اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ مختلف احادیث میں مردوں کے برخلاف عورتوں کو مسجد میں جماعت سے نماز نہ ادا کرنے کی رخصت دی گئی ہے، بلکہ افضل یہ بتایا گیا ہے گھر ہی پر نماز پڑھیں، اسلام کا عورتوں پر یہ خصوصی کرم ہے کہ ان کے لیے مسجد کی حاضری لازم نہیں قرار دی ہے۔ اس طرح گھر پر کوئی کام ہو، بوڑھے، بیمار، معذور ہوں یا چور اچکوں کا ڈر ہو تو وہ اطمینان سے گھر میں رہ کر د عبادت کا دوہرا ثواب لے سکتی ہیں۔ جن عورتوں کی مسجد میں آمد سے کسی فتنہ کا اندیشہ ہو ان کو ان کے سرپرست روک بھی سکتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگائے ہو وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں نہ شریک ہو(مسلم شریف)۔ حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دیکھ لیتے جو عورتوں نے نئی نئی چیزیں نکالی ہیں تو انہیں مسجدوں سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ (مسلم شریف) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بات کہہ کر عورتوں کو زجر و توبیخ کرنا چاہتی تھیں اور ان سے نو ایجاد قباحت کی چیزوں کو چھڑانا چاہتی تھیں، ورنہ حضوؐر کو آنے والے حالات کا اندازہ تھا ہی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما دیا تھا کہ میری امت کے کچھ لوگ بنی اسرائیل کے قدم بہ قدم (حذو النعل بالنعل) پیروی کریں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہر دور میں کچھ نہ کچھ عورتیں مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتی رہی ہیں۔ علامہ ابن الجوزی حافظِ حدیث نے اپنی کتاب احکام النساء میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ ’’بڑی عورتیں وغیرہ عید کی نماز رسول اللہﷺ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ پڑھتی تھیں۔ جب حضرت سعید بن العاص گورنر ہوئے تو انہوں نے مجھ سے عورتوں کے نکلنے کے بارے میں دریافت کیا تو میری رائے ہوئی کہ نوجوان عورتوں کو نکلنے سے وہ روک دیں چناں چہ ان کے منادی نے اعلان کردیا کہ عید کے دن کوئی نوجوان عورت نہ نکلے۔ لیکن بڑی بوڑھیاں نکلتی تھیں۔‘‘

دھیرے دھیرے اس پر اتنی سختی ہوئی کہ برصغیر میں عام طور پر ذہنوں میں گویا یہ بات بیٹھ گئی کہ عورتوں کا مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا جائز ہی نہیں۔ کہیں سے کوئی خاتون بھول بھٹک کر یا بہ ضرورت کسی مسجد میں نماز پڑھنے آگئی تو لوگ خشمگیں نگاہوں سے اس طرح دیکھتے ہیں گویا ان کی نماز خراب کرنے کوئی نئی مخلوق آگئی ہے۔ بعض ناک بھوں چڑھانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اعتراض اور غصے کے اظہار سے بھی نہیں چوکتے۔ بعضے انہیں فوراً نکل جانے کا حکم بھی صادر کردیتے ہیں۔ علمائے کرام اور خطباء عظام کی ذمہ داری ہے کہ عوام سے اس جہالت یا غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کریں اور شریعت کے صحیح موقف سے عورتوں اور مردوں دونوں کو آگاہ کریں۔

مساجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے بہت سے دینی و سماجی فوائد بھی ہیں۔ یہاں مختصراً ان کی طرف اشارہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بستی میں رنگ و نسل کے اختلاف کے ساتھ ہر طرح کی خواتین رہتی ہیں، امیر و کبیر بھی، متوسط و غریب بھی۔ پڑھی لکھی شہری و اعلیٰ تہذیب یافتہ بھی اور ناخواندہ دیہاتی بھی۔ کوئی ایک جگہ تو ہونی چاہیے جہاں پہنچ کر یہ امتیازات مٹ جائیں اور یک ہی مذہب کے ایک فرد ہونے کا عملی مظاہرہ ہو اس کے لیے مسجد سے بڑھ کر کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ ع

تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

عیدین و جمعہ کے خطبے جن میں دینی معلومات، حالاتِ حاضرہ کے مسائل و مشکلات اور ان کے شرعی حل، نیز ان کے علاوہ دیگر ایام میں دینی اجتماعات اور ایمان و یقین کی ضرورت اور اہم باتیں سیکھنے اور جاننے کا حق جہاں مردوں کا ہے وہیں خواتین کا بھی ہے۔ مسجد ایک ایسی اعلیٰ تربیت گاہ ہے جہاں امت کے ہر فرد، خواہ مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا بچہ، روحانی سماجی، اخلاقی اور ثقافتی ہر طرح کی تربیت ہوتی ہے۔ مساجد اسلام اور اسلامی معاشرہ میں دل کا مقام رکھتی ہیں ان سے نصف امت کے تعلق کو بالکلیہ کاٹ دینا اس حصہ کو مفلوج کردینے کے مترادف ہے۔

مسجد سے خواتین کا رشتہ منقطع ہونے کی وجہ سے ان میں اجتماعیت کا فقدان اور مسجد کے فوائد سے محرومی رہتی ہے۔ وہ معاشرہ اور مسلمانوں کے مسائل سے عموماً بے شعور رہتی ہیں۔ مسجد کی حاضری سے ان میں بھائی چارگی، اجتماعیت اور مساوات کا احساس بیدار ہوگا۔ مسائل کا شعور پیدا ہوگا، جس سے ان کی ذہنی سطح بلند ہوگی، اور صرف کپڑوں اور زینت و آرائش کے سامان کے بجائے ان کی گفتگو کا موضوع مسلمانوں کے تعلیمی و سماجی مسائل بھی ہوا کریں گے۔ مسجد میں حاضری سے ایک دوسرے سے سیکھنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد جاننے کا موقع بھی ملے گا۔ ان میں تعاون و خیر خواہی کا جذبہ پرورش پائے گا اور مرد کے ساتھ فکری ہم آہنگی پیدا ہوگی۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ مرد کی مصروفیات کی وجہ سے اکثر عورتیں اپنی ضروریات کے لیے بازاروں میں خریداری کے لیے جاتی ہیں جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ بازار اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ جگہ ہے اور مسجد سب سے محبوب جگہ ہے۔ اب اگر ہم خواتین کی ضرورتوں کی وجہ سے انہیں بازار جیسے ناپسندیدہ مقام پر جانے سے نہیں روک سکتے تو نماز کے اوقات میں ان کی اللہ کے دربار میں حاضری پر کیوں چیں بہ جبیں ہوں۔ کیوں نہ ہم اس کی اجازت دیں اور اس کی آسانی فراہم کریں کہ ایسے موقع پر نماز قضاء کرنے کے بجائے مسجد میں فریضہ نماز کی ادائیگی بھی کرلیا کریں۔ خاص طور سے جب کہ اللہ اور اس کے رسول نے اُنہیں یہ حق دیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ جہاں گنجائش ہو عورتوں کے لیے مسجد کا ایک گوشہ یا ایک طرف کا حصہ برائے نماز مخصوص کردیا جائے، جیسا کہ مسجد نبوی (علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام) یا حجاز مقدس کی اکثر مساجد میں پایا جاتا ہے۔ جہاں زیادہ وسعت نہ ہو وہاں عارضی اوٹ کھڑی کرنے کا انتظام بھی سوچا جاسکتا ہے۔ جن مساجد میں ایک سے زائد دروازے ہوں وہاں ایک دروازہ باب النساء کے نام سے عورتوں کے لیے مخصوص کیا جاسکتا ہے۔

شاید میری بات سن کر کچھ حد سے زیادہ محتاط حضرات بول اٹھیں کہ اس بگڑے زمانہ میں اس طرح کی اجازت دینا فتنہ کو دعوت دینا ہوگا۔ میں عرض کروں گا کہ شاید ہی کوئی عقل کی ماری ہوگی جو ہوٹل، بازار، پارک، سینما ہال، کلب اور دیگر تفریح گاہیں چھوڑ کر مسجد کے خشک اور روحانی مقام کو فتنہ انگیزی کے لیے منتخب کرے گی۔

آخر میں یہ ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں حاضری کا جو حق اسلام نے عورتوں کو دیا ہے اور جسے عملاً ہم نے سلب کر رکھا ہے اس کی بحالی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب کی سب عورتیں لازماً مسجد میں آنا شروع کردیں گی۔ کسی چیز کا حق ہونا اور بات ہے اور اس کا استعمال کرنا اور بات ہے۔ ضروری نہیں کہ حق ہو تو اس کا استعمال بھی ہر وقت ہو۔ حق تسلیم کرنا اس بات کی ضمانت ہوتا ہے کہ اگر صاحب حق اسے استعمال کرنا چاہے تو اس پر رکاوٹ نہ عائد کی جائے۔ افضل تو عورتوں کے لیے بہرحال گھر ہی ہے لیکن ان کی کچھ نہ کچھ نمائندگی مسجد میں ضرور ہونی چاہیے۔ خاص طور سے عمر رسیدہ خواتین کی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اور یہ ممکن نہیں تھا کہ سب کے سب مومن نکل پڑتے پھر بھی ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکلتا تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتا اور اپنے لوگوں کو ڈراتا جب ان کی طرف لوٹتا۔ شاید کہ وہ اس طرح برائیوں سے احتیاط کرتے)۔‘‘ (توبہ:۱۲۲)

مساجد میں کچھ خواتین کی حاضری اور وہاں سے ایمان و یقین اور دین و شریعت کی باتوں کو سیکھنا اور پھر واپس لوٹ کر انھیں دوسری خواتین اور اہل خانہ کو بتانا مذکورہ بالا آیت کے وسیع معنی و مصداق کے عین مطابق ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح بات کو سیکھنے، ماننے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا کرے، اور غلط باتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146