میں نے اپنے ایک مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ دنیا کے تمام ممالک میں مردوں کی بہ نسبت عورتیں زیادہ عمر دراز ہوتی ہیں۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم یعنی مرد حضرات موت سے جلد ہم کنار اس لیے ہو جاتے ہیں کیوں کہ عورتوں کی بہ نسبت ہم لوگ زیادہ پرتشدداور متکبر ہوتے ہیں نیز ہم لوگ ان کے مقابلے میں حوادث کا شکار بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
آج میں آپ کے سامنے کچھ صحّی، حیاتیاتی (بائیو لوجیکل)، جنسی اور موروثی اسباب پیش کرتا ہوں جن کی وجہ سے مرد کے مقابلے میں عورت زیادہ عرصے تک زندگی سے محظوظ ہوتی ہے:
مثال کے طور پر، عورتوں کو دل کے امراض پچاس ساٹھ سال کی عمر کے بعد ہی لاحق ہوتے ہیں جب کہ مرد حضرات عام طور پر چالیس پچاس برس کی عمر میں ہی ان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح مرد وں کو شوگر اور بلڈپریشر کی بیماریاں بھی نسبتاً جلدی لاحق ہو جاتی ہیں۔بعض ڈاکٹر مردوں کے گنجے پن کی بیماری کا سبب مردوں کے جسم میں پائے جانے والے ہارمون ٹسٹیرون کو بتاتے ہیں۔ جگر، پھیپھڑے کی بیماریاں، دل کا دورہ اور سانس کی نلی کا کینسر عورتوں کے مقابلے میں مردوں کو زیادہ ہوتا ہے، بلکہ کچھ خاص قسم کے کینسر صرف مردوں کو ہی ہوتے ہیں اور کم عمری میں ہی ہوجاتے ہیں، مثلاً مثانے اور قولون کا کینسر۔
اب تو عورتوں کے سلسلے میں یہ بات بھی یقین سے کہی جاتی ہے کہ عورتوں کی قوت مدافعت مردوں سے زیادہ بہتر اور مضبوط ہوتی ہے کیوں کہ عورتیں چھوت کی بیماریوں، موسمی جراثیم کے اثرات کو زیادہ جھیل پاتی ہیں اور کینسرکی کچھ خاص اقسام کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
بیشتر معاشروں میں اموات کے اسباب جاننے کے بعد یہ تو ثابت ہوجاتا ہے کہ عورتیں زیادہ بیمار پڑتی ہیںلیکن کیوں کہ ان کے اندرجان لیوا امراض سے لڑنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ عورتیں ہمیشہ ہی بیمار ہوتی رہتی ہیںلیکن مرد تیسری یا چوتھی بار بیمار پڑنے کے بعد موت سے ہم کنار ہو جاتے ہیں۔
مزید برآں مرد عورتوں کی بہ نسبت اپنی صحت کے تعلق سے زیادہ فکر مند نہیں ہوتے اور نہ ہی اس پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔مثال کے طور پر، مرد تمباکو نوشی زیادہ کرتے ہیں، الکوحل کا استعمال، نشہ خوری ان کے اندر زیادہ ہوتی ہے اور غلط عادتوں کا ارتکاب بھی یہی لوگ زیادہ کرتے ہیں، بلکہ اکثر مرد ڈاکٹر سے رجوع کرنے میں بھی سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیںاور عمر کم ہو تو اپنی صحت کے تعلق سے دشواریوں کا اعتراف بھی نہیں کرتے ۔
عورتوں کا موٹاپا بھی پسندیدہ شمار کیا جاتا ہے (کیوں کہ عورتوں کے جسم میں چربی کے مقابلے میں پٹھے کم ہوتے ہیں) جب کہ مردوں کا موٹاپا پیٹ کے ارد گرد مرکوز ہوتا ہے جو دل ، گردوں اور حیاتیاتی اعضا پر بوجھ اور انھیں تھکا دینے کا باعث بنتا ہے۔
عالم نسوانیت میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ عمر پاتی ہیں۔ صنفِ کبیر اور جسمانی اعتبار سے زیادہ بھاری بھرکم صنف (یعنی مرد) صنف اصغراور جسمانی اعتبار سے کم وزن والی صنف (جو کہ آپ کی بیوی ہے) سے جلد دنیا سے کوچ کر جاتی ہے۔
البتہ جو بات واقعی عجیب و غریب ہے، وہ یہ ہے کہ حمل کے وقت سے ہی صنف مؤنث( عورت) صنف مذکرپر غالب آنا شروع ہوجاتی ہے، کیو ںکہ اگرچہ نر جراثیم کی تعداد مادَہ جراثیم کے مقابلے میں نسبت ۱۱۰ اور ۱۰۰ کی ہوتی ہے۔لیکن جب ولادت کا وقت قریب آجاتا ہے تو نر جراثیم کی بڑی تعداد فوت ہوجاتی ہے۔ یعنی حمل کے ابتدائی تین مہینوں میں ہی نر جراثیم کی تعداد ۱۰۰ مادہ جراثیم کے مقابلے میں ۱۰۵ رہ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ اسکول جانے کی عمر تک پہنچنے والے بچوں میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ بعد کے ایام میں بھی حوادث و امراض کا نشانہ بھی زیادہ تر مرد ہی بنتے ہیں جب کہ لڑکیاں بالعموم شادی کی عمر کو تو پہنچ ہی جاتی ہیں۔
اب اس کے بعد ہمارے ـــــ مردوں کے ـــــ لیے فکرمندی جائز ہے۔ کیوں کہ ہماری تعداد گھٹنی شروع ہوجاتی ہے اور اسّی برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے عورتوں کی تعداد ہم سے دوگنی ہو جاتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اکثر گھروں میں دادا سے زیادہ دادیاں ملتی ہیں۔lll