عورتوں کومسجد میں آنےسے مت روکو‘ اس مسئلہ پر سب سے بڑا ردِ عمل تو خواتین کی جانب سے آنا چاہیے کہ ہم مسجد میں کیوں نہ آئیں؟ اب تک کیوں روکا گیا اوراب تک انتظام کیوں نہیں ؟
عورتیں بازار میں شاپنگ کے لیے، تجارتی میدان میں، مخلوط تعلیم گاہوں میں سفر میں اجتماعات میں ریلی میں احتجاجی مظاہروں میں، جاب کرنے کے لیے فرم میں ہر جگہ جاسکتی ہیں،لیکن کاروبارِ زندگی کی مصروفیت میں وقتِ نماز ہوتو کیا گھر آکر ہی نماز پڑھیں؟ ایک مرتبہ کالج سے آتے ہوئے جمعہ کی نماز کے لیے مردوں کو مسجد کی طرف دوڑتے ہوئے دیکھا۔ دل میں اسی مسئلہ کا خیال آیا کہ عورتوں پر مسجد کے دروازے کیوں بند ہیں؟کیوں نظم نہیں ہے اسی خیال کے ساتھ پورے مارکٹ پر ایک طائرہ نگاہ ڈالی۔ دل کٹ کر رہ گیا۔ مسجد کی جانب مرد دوڑ رہے تھے اور عورتیں خریدوفروخت میں مشغول تھیں۔
بہت بڑا سوال ہے کہ جب معاملاتِ زندگی میں ہر فرد نے خاتون کو آنے کی اجازت دے دی ہے تو عبادت کے لیے تفریق کیوں؟ جو خاتون جہاں ہو وہ بھی اسی رب کی عبادت کرتی ہے اور مرد اور عورت کا رب بھی ایک اللہ ہی ہے، اور نماز کا وقت بھی وہی، پھر ادائیگی میں بے خوف وخطر عبادت کیوں نہیں کرسکتی جہاں وہ چاہے۔
دوسری بات جو ہمیں ذاتی طور پر محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ کیاہی اچھا ہو کہ پورا گھرانہ خطبہ جمعہ سنے، اسی موضوع پر ڈسکیشن کرتے ہوئے گھرلوٹے، بیٹے بھی ہوں بیٹیاں بھی، والد بھی ہوں اور والدہ بھی۔ مریم جمیلہ کی کتاب ’’اسلام اورعیسائیت: ایک جائزہ‘‘ میں یہ منظر پڑھا کہ یہودی خواتین، مرد، عورت، بچے اور بوڑھے سبھی عبادت کے لیے چرچ میں جاتے تھے اور وہاں ہونے والی گفتگو پر دیر تک گفتگو ہوا کرتی تھی ۔خیال گزرا کہ یہ ایک خاندان کو جوڑنے اور ہم خیال بننے اور بنانے کا کتنا اچھا ذریعہ ہے۔ ایسے ماحول میں جبکہ خاندانوں میں ایک خلیج درآئی ہے،بچے یونیورسٹی کے معاملات میں مصروف، ابا جان تجارت میں، اماں بے چاری کھانے پکانے، میک اپ اور شادی بیاہ میں تو مساجد میں خواتین کی شرکت خاندان کو ایک نکتے پر جمع کرنے اور قائم رکھنے میں اہم رول ادا کرے گی۔بچے ماں سے یہ نہیں کہہ پائیں گے کہ امی آپ کو یہ نہیں سمجھتا۔ خواتین کو نااہل سمجھنے کا مزاج جوبیٹوں میں در آتا ہے، اس کا اثر بھی زائل ہوگا۔ نئی بہوؤں کو دینی و روحانی ماحول سے جوڑنے میں افرادِ خاندان کو آسانی رہے گی ۔دن رات سرزد ہورہے گناہ پر خواتین مسجد کی دہلیز چڑھتے ہوئے خوداحتسابی کے ساتھ تائب ہوا کریں گی ۔آپسی رشتے بھی پانج وقتہ نماز میں دلوں کو ملانے میں کارمد ہوسکتے ہیں۔
جواباً ایک صاحب نے یہ لکھا کہ کیا ضروری ہے کہ مسجد ہی میں آئیں؟ گھر میں نماز ادا کریں اور خواتین کے اجتماعات بھی تو ہیں۔ وہاں دینی تعلیم کے لیے شرکت کریں ۔تب ذہن میں یہ بات آئی کہ اجتماعات مساجد کا بدل نہیں بن سکتے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ اجتماعات ہم مزاج ہم خیال افراد اور فکری اور مسالک بنیاد پرہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر لوگ جمع بھی ہوتے ہیں جبکہ مسجد میں عبادت و للہیت کی بنیاد پر گروہ بنے گا ۔اجتماعات شہر میں دس ہوسکتے ہیں مساجد ایک شہر میں ایک ہزار ہوں گی۔ محلے کے مرد افراد ایک دوسرے سے آشنا رہتے ہیں۔ خواتین بھی مسجد میں آئیں گی تو ایک دوسرے سے واقف ہوں گی۔ رشتہ و نسبت کی آسانی ساتھ ساتھ سماجی روابط بنیں گے۔ بوڑھی خواتین کے روابط ان کے بڑھاپے کا سہاراہوں گے۔ روحانی بنیادپر محلے کے مسائل سے مرد آگاہ ہوتے ہیں خواتین بھی ہونے لگیں گی۔بدلتے حالات پر سیاسی، سماجی اصلاحی افکار سے واقفیت ہوگی۔ جس طرح اسکولی نظام تعلیمی نظام آموزش و اکتساب کی جگہ بن جاتا ہے ایسے مساجد بننے لگیں گی۔
آج کل شوگر پیشنٹ اور تھائرائیڈ پیشنٹ خواتین کو ڈاکٹر صبح کی واک اور اپنے ہم عمر گروپ کے ساتھ رہنا مرض کا آدھا علاج بتارہے ہیں مسجد میں بنی اجتماعیت بھی اس حوالے سے کارگر رہے گی۔اعصاب پر سوار ہوکر ٹی وی کلچر افراد خاندان کو اپنے کلچر کاعادی بنارہا ہے۔کمرشیل ایڈز بار بار سامنے آکر خریدنے پر مجبور کرتے ہیں اور غیر ضروری اشیاء کو لازمی ضرورت بناکر پیش کرتے ہیں۔مسلم کمیونٹی سے متعلق منفی باتیں مسلمان نوجوانوں کے سامنے پیش کرکے ان کے خیالات بدل دئیے جاتے ہیں ۔انسانی نفسیات پر بار بار کی جانی والی باتوں کی چھاپ دیر تک رہتی ہے اور دیرپا اثرات مرتب کرتی ہیں۔
پانچ وقت مسجد میں نماز کی عادت بھی خواتین کو اسلام پسند بنانے اور مستقل مسجد سے جڑے رہنے کی وجہ سے دین سے محبت الفت اور روحانی اعتبار سے مضبوط بنانے میں کرگار بن سکتی ہے۔غیر محسوس طریقے سے بچوں کی تلاوت میں مسابقت کا ماحول بنے گا ۔
ایک دوست کینڈا کی ایک مسجد میں روزانہ شرکت کی افادیت بتاتی ہیں کہ بچوں میں تلاوت اور حفظ کی مسابقت نے ہمارے بچوں میں بہت تبدیلیپیدا کی ہے۔ تاہم مسجد میں خواتین کی آمد ورفت کا انتظام واقعی ہونا چاہیےاوراس کا مطالبہ بھی تو خواتین ہی کوکرناچاہیے اور پوچھنا چاہئے کہ مسجد کے دروازے ہم پر بند کیوں ہیں،جبکہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:’’خواتین کو مساجد آنے سے نہ روکو۔‘‘
(زیر نظر تحریر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی کی فیس بک پوسٹ پر تبصرے کے طور پر لکھی گئی ہے جسے ہم قلم کار کے شکریے کے ساتھ شائع کررہے ہیں۔ مدیر)
مزید پڑھیں!
https://hijabislami.in/1485/
https://hijabislami.in/1476/