یہ کالم مسلم خواتین پر لکھی گئی اہم کتابوں کے تعارف کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ خواتین سے متعلق اہم ترین کتابوں اور ان کے مختصر مشمولات قارئین کے سامنے پیش کیے جائیں۔ امید کہ اس کالم پر بھی آپ کو مفید تبصرے موصول ہوتے رہیں گے۔ (ادارہ)
………………
نام : عورت اسلام کے سائے میں
مصنف : مولانا عبدالرزاق ندوی
ناشر : مجلس التحقیق الاسلامی تلسی پور، گونڈہ، یوپی
صفحات : ۲۴۸
……………
اس کتاب میں عورتوں کی ان تمام حیثیتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ نیز اسلامی تہذیب کے چنندہ نقوش کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بات کو مزید تقویت پہنچائی ہے۔ عرض ناشر کے تحت مصنف نے اپنے اس انتخاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:’’اسلامی تہذیب کی پروردہ خواتین کیسی تھیں اس کی ایک جھلک آپ اس کتاب میں دیکھیں گے۔ افسوس آج کی مسلم خواتین میں اسلامی تہذیب کے وہ جواہر پارے نہ رہے اور نہ وہ ان قدروں اور خوبیوں کی حامل رہیں کیونکہ مغربی تہذیب کی یلغار نے وہ سانچے توڑ ڈالے جہاں سے یہ پاک باز خواتین ڈھل ڈھل کر نکلتی تھیں۔ اس کتاب کے لکھنے کے دیگر مقادصد میں یہ بھی ہے کہ ان کی مٹی ہوئی صورتوں کی ایک جھلک انہیں دکھا دوں کہ قرآن و حدیث نے ان کے لیے کیا راہ عمل متعین کی ہے۔‘‘ (ص:۱۰)
اس کتاب کے ابتدائیہ میں مصنف نے جو دعوے کیے ہیں، کتاب کے اندر اس دعوے پر مبنی باتیں ہی پیش کی گئی ہیں۔ قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کی بنیاد پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ان اصولوں سے ذرا بھی انحراف جہاں ان کی اخروی حیثیت کوبرباد کرے گا وہیں دنیاوی ذلت و مسکنت ان پر جھائے گی۔ ہماری خواتین اگر تھوڑی دیر رک کر یہ سوچ لیں کہ ان کے لیے زندگی گزارنے کا اصول کون بہتر بناسکتا ہے! آیا وہ جس نے ان کی تخلیق کی یا وہ ادارے، تنظیمیں اورافراد جو خود ساختہ تہذیب کے دلدادہ ہیں؟ یقینا ان کی عقل سلیم یہ تسلیم کرے گی کہ اول الذکر کا بنایا ہوا اصول ہی بہتر اور پائیدار ہوگا اور اسی میں خیر ہوگا۔ جب سے یہ حقیقت بھلادی گئی اس کے بعد سے آج کی خود ساختہ تہذیب و تمدن میں حق و مساوات کی بھاگ دوڑ نے سنگین شکل اختیار کرلی ہے جس کا مشاہدہ ہر کوئی کررہا ہے۔
مصنف نے پہلا باب ’’عورت کی مختصر تاریخ‘‘ کا قائم کیا ہے۔ اس باب میں پچھلے اور موجودہ تمام مذاہب میں عورتوں کی کیا درگت بن رہی تھی اس کا ایک نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد دوسرا باب ’’عورت اور اسلام‘‘ باندھ کر مصنف محترم نے ان کی اسلامی حیثیت کا ذکر کیا ہے جس میں ان کی حیثیت، معیارِ بزرگی، مساوات، مشترک قانون کا بیان ہوا ہے۔ اس کے بعد اگلے سات ابواب میں عورتوں سے متعلق مختلف صنفی مسائل کا ذکر عمدگی کے ساتھ کیا گیا ہے، مثلاً نکاح کی ترغیب، عورت کے لیے عقد ثانی کی تاکید، طلاق کی ضرورت، حیض کا حکم، اسقاطِ حمل، حقوق زوجین وغیرہ۔ ان ابواب میں مختصراً فقہی احکام کو بھی شامل کردیا گیا ہے۔ تاکہ تذکیر کے ساتھ ساتھ قانونی حدود بھی سامنے آجائیں۔
علم کا حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے کیونکہ جس طرح مرد اللہ کے سامنے جواب دہ ہے اسی طرح عورت بھی جواب دہ ہے۔ اس کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں ہے۔ اب اگر وہ علم حاصل نہیں کرتی تو یقینی اپنی بربادی کو دعوت دیتی ہے۔ لہٰذا اس اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مصنف نے ’’مسلمان عورت علم و عمل کے میدان میں‘‘ میں باندھا ہے۔ اس باب کے تحت قرآنی آیات، احادیث، اور مختلف واقعات کا ذکر ہوا ہے جس میں عبادت، متقی و پرہیزگار خواتین، دین کی موافقت، حق گوئی، علم و فضل، اولاد کی حسن تربیت، دعوت و تبلیغ وغیرہ شامل ہیں۔
ایک عورت کا سب سے قیمتی زیور اس کی عزت و آبر ہے۔ اس کی حفاظت پر اسلام نے خصوصی توجہ کی ہے اور کئی عمدہ قوانین اس میں موجود ہیں۔ (واضح رہے کہ مردوں کے لیے بھی اس کا ایک نظام ہے) اس قانون کو واضح کرنے کے لیے موصوف نے ’’اسلام کا نظام عفت و عصمت‘‘ کا باب باندھا ہے جس کے تحت حیاء، دل کے چور، فتنۂ نظر، سماع پر پابندی، فتنۂ زبان، فتنۂ آواز، جذبہ نمائش حسن، فتنۂ خوشبو، فتنۂ عریانی، اختلاط، زنا وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو موجود ہے۔
آخر کے تین ابواب میں پردہ اور اس کے احکام، گھر سے باہر نکلنے کے آداب و شرائط، نیز عورتوں کے معاشرہ میں پھیلے ہوئی بے شمار خرافات و منکرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب عورتوں کے موضوع پر ایک اہم کتاب ہے جسے حاصل کرکے پڑھا جاسکتاہے۔
عبداللہ فاروق
اسلامی اکیڈمی، نئی دہلی