عورت صدیوں اِس سماج میں مظلوم رہی ہے۔مختلف مذاہب اورتہذیبوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ کسی نے بھی اسے ایک مستقل ذات کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا۔یہودی تہذیب نے اسے شیطان کی ایجنٹ قراردیا۔ان کے ہاں مردوارث کی موجودگی میں عورت وراثت سے محروم ہوجاتی تھی اوربیوہ عورت کو دوسری شادی کا بھی کوئی حق نہ تھا۔یونان میں عرصۂ دراز تک یہ بحث جاری رہی کہ اس کے اندرروح بھی ہے یا نہیں۔اہل یونان کا قول تھا کہ ’’آگ سے جل جانے اورسانپ کے ڈسنے کا علاج ممکن ہے لیکن عورت کے شرکا مداوامحال ہے۔‘‘عیسائی دُنیا کے معماروں نے اسے بنیادی حقوق سے محروم کردیا۔کرائی سوسٹم جو مسیحیت کے اولیائے کبارمیں شمار کیاجاتاہے عورت کے حق میں کہتاہے کہ’’یہ ایک ناگزیر برائی،ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک خانگی خطرہ،ایک غارت گر دلربا اورایک آراستہ مصیبت ہے۔‘‘اہل عرب نے عورت کو زِندہ درگور کرنے کو اپنی شان سمجھا۔
ہندوستانی عورت کو کنیادان کے روپ میں مرد کوخیرات میں آج بھی دیتے ہیں۔شوہر کے مرنے پر اس کی چتامیں زِندہ جل جانے کو ستی ومکتی کا نام دیا گیا۔ ترقی کے باوجودآج بھی ہندوستانی سماج میں لڑکیوں کی پیدائش کی شرح گھٹتی جارہی ہے۔وجہ یہ ہے کہ اس کے پیداہونے سے پہلے ماں کے پیٹ میں ہی اس کی قبربنادی جاتی ہے اوربنائی جارہی ہے۔
مغربی تہذیب نے آرٹ،کلچراورجدیدیت کے نام پر اس کے کپڑے اُتاردئیے،اس کے ننگے پن کا مظاہرہ اِنٹرنیٹ،ٹی وی، کلبوں، بازاروں، پوسٹروں، دُکانوں اورحسن کے مقابلے میںبخوبی کیاجاسکتاہے اور اسی کو ترقی کا نام دیاگیاہے۔
اس کے برعکس اِسلام نے عورت کو ایک اونچا مقام ومرتبہ عطاکیا۔اِسلامی نقطۂ نظر سے غورکریں تو عورت کے متعلق اِسلام ایک معتدل اورمتوازن نقطۂ نظر پیش کرتاہے۔اِسلام نے عورت کو وہ سارے معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق عطا کیے ہیں جو مرد کو حاصل ہیں۔ ساتھ ہی اس کو اس بوجھ سے بھی محفوظ رکھی جو فطری ذمہ داریوں کی ادائیگی کی صورت میں مادّہ پرست تہذیب نے اس پر ڈال دیاہے۔
اِسلام نے ماں کی حیثیت کے متعلق بتایاکہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ماں کو سب سے اعلیٰ درجہ عطافرمایا۔بیٹی کے سلسلے میں ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے تین لڑکیوں کی پرورِش کی،اُن کی تعلیم و تربیت کااِنتظام کیا،اُن کی شادی کی اوراُس کے بعد بھی حسن سلوک کیاتواس کے لیے جنت ہے۔‘‘
بیوہ اورمطلقہ کی شادی جائزقراردی گئی، اور اِس سلسلے میں اس کی رائے کو اہمیت دی گئی۔حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’بیوہ یامطلقہ کانکاح نہیںکیاجائے گا،جب تک کہ اس سے اِجازت نہ لے لی جائے،دوشیزہ کا نکاح نہیںہوگا جب تک کہ اُس سے اِجازت نہ لے لی جائے۔‘‘
اِسلام نے عورت کو حق آزادیٔ رائے دی ہے۔ایک روایت میںآتاہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے ایک خطبہ میں مہرکی زیادتی سے منع فرمایااورچارسودرہم اس کی آخری حد مقرر کرنی چاہی توایک عورت نے بر سر منبر اُنھیں ٹوکاکہ آپ کو اِس فیصلہ کا حق نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ قرآن کے خلاف ہے۔پھر اُس نے اِس آیت کا حوالہ دیاجس کا ترجمہ اس طرح ہے۔’’اگرتم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کو بدلناچاہتے ہو،اورتم نے ان میںسے کسی کو بہت سامال دے دیاہے تواس میںسے کچھ بھی واپس نہ لو،کیا تم اس کو لوگے جب کہ وہ تمہارے لیے ناحق اورصریح گناہ ہوگا۔‘‘(النسا:20) یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فر مایاکہ اس عورت نے صحیح بات کہی ہے،عمر کا فیصلہ غلط تھا۔(مسنداحمد،نسائی)
اِسلام نے وراثت میں عورت کا حق مقرر کیا۔ ساتر لباس اورپردے کا اِہتمام کرتے ہوئے، حدود کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے علمی میدان میں بھی بڑھ چڑھ کر علم حاصل کرنے کا حق اِسلام نے دیا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتاہے کہ حضرت عائشہؓ مختلف علوم و فنون میںماہرتھیں۔اہم مسائل پر صحابہؓ،حضرت عائشہؓ سے گفتگو کرتے،درس وتدریس کا کام بھی آپ انجام دیتی تھیں،ام ورقہ بن نوفلؓ قرآن کی عالمہ اور بہادر خاتون تھیں۔حضرت خدیجہؓ ایک تاجر خاتون تھیں، دور دورتک آپ کی تجارت پھیلی ہوئی تھی،گویاکہ وہ ایک کامیاب بزنس وومن تھیں۔حضرت صفیہؓ ایک مجاہدہ تھیں۔ انھوں نے جنگ خندق کے موقع پر قلعہ کے اندر داخل ہونے والے کا سردھڑسے الگ کردیا تھا۔ حضرت اسماؓ فرسٹ ایڈاورنرسنگ میںماہر تھیں۔ جڑی بوٹیوں کا رس نکال کر زخمیوں کو علاج کیاکرتی تھیں۔ حضرت سمیہؓ نے کفارکے آگے سرتسلیم خم کرناگوارہ نہیں کیا اوراِسلام کی پہلی شہید خاتون بنیں۔حضرت اُمّ عمارۃؓ ایک جاںباز اورنڈرخاتون تھیں،جنھوںنے جنگ اُحد میںکفار کا ڈٹ کرمقابلہ کیا۔حضرت فاطمہؓ بنت خطاب جنھوںنے عمرؓ جیسی مضبوط چٹان کو توڑ کر اِسلام کی راہ میں لگادیا۔ حضرت جابرؓ کی خالہ کاشت کاری کیاکرتی تھیں، اسی طرح حضرت زینبؓ (حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی)صنعت وحرفت سے واقف تھیںاوراپنے شوہروبچوں کوخودکماکرکھلاتی تھیں۔
لیکن آج کی عورت آزادیٔ نسواں کے نام پر ایک آزادپرندے کی طرح آسمانوں کی سیرکرناچاہتی ہے۔جبکہ اِسلام نے اُس کے نازُک کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ڈالی ہے۔جس کو نبھانا اس کا اوّلین فرض ہے۔جیساکہ پیارے رسول اللہ ﷺ کا اِرشاد ہے:
یہ واقعہ امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کے دورِحکومت کا ہے۔ایک دن امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے گھر کے صحن میںآپ کا کم سن بیٹاکھڑارورہاتھا۔بچے کی والدہ یعنی خلیفہ کی بیگم نے اُسے ہر طرح سے بہلانا چاہالیکن بچہ پھر بھی چپ نہ ہوا۔ماں کا دل بچے کی اس حالت پر تڑپ اُٹھا،اس نے بڑی محبت اورشفقت کے ساتھ بچے سے رونے کا سبب پوچھا۔بچے نے روتے ہوئے ماں کو بتایا، ’’ماں! میرالباس جگہ جگہ سے پھٹ چکاہے اورجہاں سے پھٹ جاتاہے آپ وہاں پیوند لگادیتی ہیں،اب تو میرے لباس میںپیوند لگانے کی جگہ بھی نہیں رہی۔ مدرسے میں میرے ساتھی اچھے کپڑوں میںآتے ہیں وہ میرامذاق اُڑاتے ہیں کہتے ہیں تم خلیفہ کے بیٹے ہوکر بھی اس حلیے میںمدرسے آتے ہو۔‘‘
ماں ننھے بچے کی یہ بات سن کر بہت رنجیدہ ہوئی۔اس نے بچے کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن بچہ نہ مانا اوراس نے کہہ دیا۔’’ماں!اگرآپ نے مجھے نیا لباس نہ سلواکر دیا تومیں کل سے مدرسے نہیں جائوں گا۔‘‘اسی دوران حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ گھر میںداخل ہوئے توماں نے اپنے بیٹے کی خاطر شوہر سے اِلتجا کی کہ ’’اے مسلمانوں کے خلیفہ!میںایک بادشاہ زادی ہونے کے باوجود گھرکے سارے کام خود کرتی ہوں۔ میں نے روکھاپھیکاکھاکر آپ کے ساتھ گزارا کیا ہے۔ ہمیشہ آپ کی اطاعت کی ہے۔آپ کے حکم پر اپنی دولت جائیداد اورزیورات بیت المال میں جمع کرادئیے۔آپ سے کبھی کوئی فرمائش نہیںکی لیکن میںیہ برداشت نہیںکرسکتی کہ میرے لخت جگر کو مدرسے میں اپنے پھٹے پرانے لباس کی وجہ سے شرمندہ ہونا پڑے،لہٰذا، آپ آج ہی میرے بیٹے کے لیے ایک لباس کا اِنتظام کریں۔‘‘
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دل پر بیوی کی ان باتوں کا گہرااثر ہوا،وہ بھی اپنے بچے کو نیالباس دِلواناچاہتے تھے لیکن اُن کی جیب میںپھوٹی کوڑی تک نہ تھی چنانچہ آپ نے بیوی سے کاغذ قلم منگوایا اوربیت المال کے وزیرکو ایک رقعہ لکھ کر بھیجا کہ میرے اگلے ماہ کی تنخواہ میںسے کچھ رقم پیشگی دے دواگلے ماہ تنخواہ سے کاٹ لینا۔
کچھ دیر بعد بیت المال کے وزیر کاجوابی خط ملا جس میںلکھاتھا،’’اے خلیفہ!آپ اس بات کی کیسے ضمانت دیںگے کہ آپ اگلے مہینے تک زِندہ رہیںگے اورخلیفہ کے منصب پر فائز بھی رہیںگے۔‘‘
عمربن عبدالعزیز یہ سن ،پڑھ کر خاموش ہو گئے بھلا وہ اس کی ضمانت کیسے دے سکتے تھے۔ چنانچہ اُنھوںنے اپنی بیوی اوربیٹے کو سمجھایاکہ اگلے مہینے تنخواہ ملنے پر نیالباس منگوادوںگا۔