روم و یونان میں عورت ایک ادنیٰ مخلوق تھی۔ وہاں عورت بدی کی جڑ تھی۔ یورپ نے سولہویں صدی میں بے بنیاد الزامات لگا کر عورتوں کو زندہ جلادیا۔ خود ہمارے ملک میں عورت کا درجہ ایک داسی سے بھی کم تھا۔ عرب اس معاملے میں سب سے آگے تھے۔ وہ بیٹی کا پیدا ہونا ہی باعثِ شرم اور معیوب سمجھتے تھے۔
آج یہ خیال عام ہوچکا ہے کہ عورت آزادہے وہ مظلوم نہیں ہے۔ یہ آزادی اسے مغرب نے دی ہے۔ سوال یہ ہے کیا آج عورت مظلوم نہیں؟ کیا محض بیٹی ہونا اس بات کے لیے کافی نہیں کہ وہ بیٹے کی طرح تعلیم نہیں حاصل کرسکے گی۔ کیا جہیز کے لیے عورتیں مردوں کو جلاتی ہیں؟ اور کیا کوئی باپ بیٹے کی خبرپاکر بھی رحم مادر میں اسے قتل کراتا ہے، جبکہ عورت کے ساتھ آج یہ سب ہورہا ہے اورنہ کوئی قانون اس کی مدد کو آتا ہے اور نہ مذہب۔
عورت زمانہ قدیم سے مظلوم چلی آرہی ہے اور آج بھی ہے۔ وہ پہلے بھی غلام تھی اور آج بھی تمام نام نہاد آزادی کے نعروں کے باوجود آزاد نہیں۔ہاں آزادیٔ نسواں اور ترقی کے نعروں نے اس کی شکل بدل دی ہے۔ آج کی عورت ظلم کا شکار ہے اور بدقسمتی سے وہ اپنے آپ کو مظلوم نہیں سمجھتی۔ دراصل آزادی کے نام پر پھر سے اسے غلام بنایا جارہا ہے۔
مغربی تہذیب نے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے عورت کو آلۂ کار بنایا ہے۔ منفی فکر پروان چڑھائی ہے۔ انھیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیاجارہا ہے۔ اس نے وقت اور تقاضوں کے ساتھ عورت کے استحصال کی نوعیت بدل دی ہے اور اسے آزادی اور مساوات کا نام دیا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کی مغربی عورت آزادی اور مساوات کی زندگی کے اس طرزِ عمل سے اکتا گئی ہے اور اس استحصالی فکر سے نجات حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔ وہ مغربی تہذیب میں مکمل عدم تحفظ کا شکار بنتی جارہی ہے اور اپنی ناقدری کی وجہ سے جنسی کھلونا بن گئی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس معاشرہ میں جہاں مساوات مردوزن کا نعرہ پُر زور انداز میں لگایا جارہا ہے اور جو اس طرزِ زندگی کا ماڈل ہے وہاں خواتین کے خلاف جرائم اور ان کے استحصال کا گراف سب سے اوپر ہے اور اس ماڈل معاشرہ کی عورتیں کسی ایسے طرزِ زندگی کی تلاش میں ہیں جو انہیں عزت و وقاراور سکون و چین فراہم کرسکے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے دور میں جب کہ اسلام پر اور اسلام میںعورت کی حیثیت کو لے کر مغربی طاقتیں متحد ہوکر اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کررہی ہیں وہ اسلام کی طرف آرہی ہیں اور اسلام کے مطالعہ کا ذوق و شوق وہاں پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ ایک حیرت ناک حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں اسلام قبول کرنے والے افراد میں بڑی تعداد بلکہ اکثریت خواتین کی ہے۔ اور اس کی وجہ وہی نظریاتی کشمکش ہے جو اس آزادی و مساوات نے معاشرہ میں پیدا کی ہے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے دوسری طرف مسلم خواتین جو اپنی حیثیت، اپنے مقام و مرتبہ اور ان حقوق سے یکسر غافل ہیں جو اسلام نے انہیں عطا کیے ہیں۔ یہ مسلم عورت کی پسماندگی اور اس کی بے فکری کی علامت ہے کہ وہ دنیا و مافیہا سے غافل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم عورت اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانے اور اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالے تاکہ وہ دنیا کے سامنے اسلام پسند عورت کاایک ماڈل پیش کرسکے جسے دیکھ کر دوسرے معاشروں کی خواتین رہنمائی حاصل کریں اور ان کی زندگیاں بھی روشنی سے منور ہوں۔
اسلام حضرت اسماءؓ جیسی ماں چاہتا ہے جو قوم کو عبداللہ جیسا جاںنثار دے۔ حضرت فاطمہ بنت خطاب جیسی بہن چاہتا ہے جو گمراہ بھائی کو راہ راست پر لاسکے۔ حضرت خدیجہ جیسی بیوی چاہتا ہے جو تنگی اور خوشحالی ہر حالت میں شوہر کا ساتھ دے اور اسلام کی ایسا پابند بن جائے کہ مثال بن جائے۔ عورت جس راہ سے نکلے اس راہ کے لوگ اسے دیکھ کر پکار اٹھیں کہ عورت نہیں اسلام جارہا ہے۔