انسانی معاشرے میں خواتین کے مقام اور حقوق و فرائض کا مسئلہ ہمیشہ سے انتہائی الجھا ہوا رہا ہے۔ تاریخ میں ایک ہی مقام نظر آتا ہے جب کہ عورت کو اْس کے حقیقی مقام پر فائز کیا گیا۔
عورت کو اپنے حقوق کی فراہمی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں حاصل ہوئی جب اس کو بحیثیت بیٹی اور بہن رحمت کہا گیا۔ بحیثیت بیوی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا۔ اور بحیثیت ماں تو اس کے قدموں میں جنت رکھ دی گئی۔ لیکن یہ زیادہ عرصے نہ رہا۔ جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی تو جہاں اسلام کے دیگر احکامات کو پسِ پشت ڈالا گیا وہیں عورت کے مرتبے اور حقوق کو بھی پائوں تلے روند کر اسے رسم و رواج اور روایات کی بھٹی میں ڈال دیا گیا۔
اقبال جیسے مفکر نے عورت کے مسئلے کے حل کے لیے مایوسی کا اظہار کیا ہے، کہتے ہیں:
میں بھی مظلومیِ نسواں سے ہوں غم ناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدہِ مشکل کی کشود
درحقیقت مظلومیِ نسواں کو عقدہِ مشکل بنانے میں خود عورت کی اپنی کوتاہیاں بھی کم نہیں ہیں۔ عورت کی نفسیاتی کیفیت یہ ہے کہ وہ عقل کے بجائے دل پر زیادہ بھروسہ کرتی ہے، اور یوں دل کے مشوروں سے ٹھوکر پہ ٹھوکر کھاتی ہے۔ ورنہ اس عقدہِ مشکل کو حل کرنے میں جہاں دیگر مذاہب اور نظام افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں، وہاں اسلام ایک انتہائی اعتدال اور مساوات کی راہ سْجھاتا ہے۔ وہ عورت کو ایسے ایسے حقوق عطا کرتا ہے جن کے بارے میں وہ اس سے پہلے سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ اسلام اسے مکمل انسانی اور سماجی حقوق دیتا ہے، وراثت کا حق دلاتا ہے، اس کے ساتھ انتہائی نرمی اور درگزر کا معاملہ کرنے کی ہدایت کرتا ہے، شریکِ زندگی کے انتخاب کا مکمل حق دیتا ہے، اْسے عزت و احترام کی وہ بلندیاں عطا کرتا ہے جن پر پہنچنے کی مردوں کو بھی حسرت رہی۔
باپ کے مقابلے میں ماں کے تین گنا حقوق اور بیٹوں کے بجائے بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنت کی خوش خبری خواتین کو اسلام نے ہی سنائی، حضرت آدم علیہ السلام کو بہکانے کے داغ کو دھویا، حالانکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں آج بھی اسی خیال کو درست سمجھا جاتا ہے کہ عورت نے حضرت آدمؑکو شجر ممنوع کھانے پر آمادہ کیا، لیکن قرآن نے دوٹوک انداز میں عورت کے دامن پر لگائے گئے اس داغ کو صاف کیا۔ ارشاد ہوا ’’پھر ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھائو، مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے۔ آخرکار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹایا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے، ہم نے حکم دیا کہ اب تم یہاں سے اتر جائو، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے۔‘‘
یوں قرآن کی آیات سے یہ ثابت ہے کہ جنت سے نکلوانے کا باعث عورت نہیں ہے۔ یہودیت ہو یا عیسائیت، عورت کی سب سے سنگین غلطی یہی قرار دے کر اس کو برائی کا منبع اور انسان کے مصائب کا ذمے دار ٹھیرایا جاتا ہے، جبکہ قرآن اس کے لیے عورت کو بالکل بری قرار دیتا ہے۔ اسلام عورت کو آج سے پندرہ سو سال پہلے جو اختیارات دیتا ہے ان کے مقابلے میں آج کی غیر مسلم عورت کتنی بے اختیار ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے جو وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن مسز وجے لکشمی پنڈت اپنی خود نوشت میں لکھتی ہیں۔
وہ لکھتی ہیں:
’’رنجیت (شوہر) کی بیماری کے دنوں میں مَیں اپنے بینک اکائونٹ سے رقم نکلواتی رہی تھی۔ یہ وہ رقم تھی جو میں نے اپنی وزارت کے زمانے میں اپنی تنخواہ جمع کرکے اکٹھی کی تھی۔ یہ رقم جلد ختم ہوگئی۔ ابھی کئی ادائیگیاں باقی تھیں۔ میں نے رنجیت اور اپنے مشترکہ اکائونٹ سے رقم نکلوانے کے لیے چیک بھیجا تو بینک نے ادائیگی سے انکار کردیا، کیوں کہ میرے اور میرے پتی کے اکائونٹ میں اب اس کے بھائی پرتاب کا بھی حصہ تھا۔ مشترکہ ہندو فیملی کے رواج کے مطابق میرا حق اب ختم ہوگیا تھا۔ میں اب اپنے پتی کی جائداد میں سے بھی کچھ حاصل نہ کرسکتی تھی۔‘‘
یہ ہیں ہندو رسم و رواج، جن کے تحت شوہر کے گزر جانے کے بعد شوہر کے روپے، پیسے اور جائداد پر سے بیوی کا حق بھی ختم ہوجاتا ہے، اور ہندو خاندان کے رواج کے مطابق اب اس پر شوہر کے باپ اور بھائی کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ ہندو سماج تو شوہر کے بعد عورت کو زندہ رہنے کا حق بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا، اگر وہ شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جل مرنے کے لیے تیار نہ ہو تو زندہ رہنا اس کے لیے موت سے بدتر بنادیتا تھا۔ نہ اسے صاف ستھرا رہنے کا حق ہوتا ہے، نہ خوش رہنے کا۔
آج کا انسانی معاشرہ جو اپنے آپ کو تہذیب و تمدن کے عروج پر تصور کرتا ہے، وہ بھی عورت کے ہمدرد کے روپ میں اس پر بدترین مظالم ڈھاتا ہے۔ وہ اسے حقوق کا لالچ دے کر ذلت کی بھٹی کی نذر کر ڈالتا ہے، اس کے حسن کے قصیدے چھیڑ کر اسے اشتہارات کی مخلوق بنا ڈالتا ہے۔ ایک خاوند کی خدمت اور رفاقت سے نکال کر درجنوں مردوں کی خدمت پر کمربستہ کردیتا ہے اور یہ سب آزادی کے نام پر ہوتا ہے۔
مغرب میں عورت زندگی کی جدوجہد میں شانہ بہ شانہ یوں شامل ہے کہ وہ دفاتر، فیکٹریوں اور دیگر اداروں میں تو اپنے فرائض انجام دے رہی ہے لیکن اس کے اپنے بچے آغوشِ مادر کے لیے ترستے ہیں، جس کے باعث نہ صرف بچوں کی نفسیات بلکہ خواتین کی نفسیات پر بھی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خودغرضی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ محبت سے لبریز خونیں رشتے ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوگئے ہیں۔ یہ باتیں اْن کی اپنی رپورٹوں میں بیان کی گئی ہیں۔
آج دنیا کی آسائشات اور تعیشات کو زندگی کا مقصد بنادیا گیا ہے، اور دن رات میڈیا کے ذریعے یہی زہر گھولا جارہا ہے کہ اگر ان تعیشات کے حصول میں تمہارا اپنا خون بھی حائل ہو تو بلا جھجک اور بغیر کسی روک ٹوک کے اسے گرا ڈالنا تمہارا حق ہے۔
انسان کے نزدیک اگر اپنا آرام و آسائش ہی مقصدِ زندگی ٹھیرتا ہے تو نہ صرف اْس کی اپنی زندگی فسادات کا مجموعہ بن جاتی ہے بلکہ وہ پورے معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک اثرات کا باعث بنتا ہے۔
قرآن ہمیں واضح طور پر بتاتا ہے کہ اگر تم اپنی زندگی کو آسمانی ہدایات کے مطابق گزارنے کا عہد کرو گے تو آسمان اور زمین کے چھپے تمام خزانے تمہارے قدموں میں بچھا دیے جائیں گے اور آسمان سے تمہارے لیے رحمت برسے گی۔
یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب جب انسان نیکی اختیار کرتا ہے تو محبت، خلوص، ایثار، صبر و رضا اور بے غرضی کے باعث ایسے نظم و ضبط سے زندگی گزارتا ہے کہ معاشرے کے وسائل اس کی ضروریات سے بڑھ جاتے ہیں۔ لوگ زکوٰۃلے کر پھرتے ہیں اور کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا۔ دولت ایک مخصوص طبقے کے بجائے پورے معاشرے میں گردش کرتی ہے۔ معاشرے کے ہر چھوٹے بڑے تک اس کے فوائد پہنچتے ہیں۔
خواتین اور مردوں کے دائرۂ کار اور سماجی حیثیت کے بارے میں قرآن نے انتہائی غیر مبہم اور دوٹوک انداز میں جو احکامات دیے ہیں ان میں دو باتیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں:
-1 مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔
-2 عورتوں کو بے ضرورت گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ اگر نکلیں تو اپنی زینت چھپا کر نکلیں اور ایسے نرم لہجے میں بات نہ کریں کہ مخاطب غلط مطلب نکالے۔
مردوں کی فضیلت کا ذکر سورۃ النساء کی آیت نمبر 34 میں ہے، جس کا ترجمہ ہے: ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اس نے (اللہ نے) ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس جو صالح عورتیں ہوتی ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘
اسی طرح آیاتِ حجاب قرآن کی اِن آیات کو کہا جاتا ہے:
سورۂ احزاب 59 ’’اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنے اوپر چادروں کے پلو ڈال لیں، یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ ان کی شناخت رہے اور وہ ستائی نہ جائیں۔ اللہ تعالیٰ انتہائی بخشنے والا اور انتہائی رحم کرنے والا ہے۔‘‘
سورہ احزاب ہی کی آیت نمبر 33 میں فرمایا ’’اے نبی کی بیویو! اپنے گھروں میں ٹھیری رہو اور دورِ جاہلیت کی طرح کی سج دھج نہ دکھاتی پھرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اللہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘
سورہ نور کی آیت نمبر 31 میں فرمایا: ’’اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) مومن عورتوں سے کہیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اپنے ستر کی حفاظت کریں اور اپنا سنگھار نہ دکھاتی پھریں، سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو۔ وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں اور اپنی زینت کو اپنے شوہر، اپنے والد، اپنے بیٹے یا اپنے شوہر کے بیٹے، اپنے بھائی، اپنے بھانجے، اپنے بھتیجے، اپنی میل جول کی عورتوں، اپنے مملوک، اپنے وہ زیر دست خدمت گار جو کوئی نفسانی غرض نہ رکھتے ہوں، یا ایسے لڑکے جو عورتوں کے پوشیدہ رازوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں، ان کے سوا کسی اور پر ظاہر نہ کریں، وہ زمین پر اپنے پائوں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ ان لوگوں کی توجہ ان کی زینت کی طرف مبذول ہو۔ اے ایمان لانے والو! سب مل کر اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔‘‘
یہ ہیں وہ واضح احکام اور حدود جو عورت کے دائرۂ کار اور اس میں اس کے عمل کے طریقۂ کار کی وضاحت کرتے ہیں۔ ان کی پیروی میں نہ صرف خواتین کی بہتری ہے بلکہ پورے معاشرے کے لیے فلاح کا پیغام ہے۔ اسلام عورت کو ایک بلند مقام عطا کرتا ہے، عقل مندی اسی میں ہے کہ یہ مقام مساوات کے جھوٹے نعرے اور فضول، بے مقصد اور تکلیف دہ حقوق کے سراب کی نذر نہ کیا جائے، ورنہ حوّا کی بیٹیاں تو گھر کی جنت سے نکلیں گی ہی، آدم کے بیٹے بھی اپنی جنت کو کھو کر پچھتائیں گے۔lll