عورت اور اسلام(گذشتہ سے پیوستہ)

ڈاکٹر یوسف القرضاوی

عورت کے حقوق کی پامالی اور اس کی شان سے فروتر مقام اسے عطا کرنے کی غرص سے صحیح احادیث کی غلط تشریح کی گئی اور دوسرے سیاق میں ان کا استعمال کیا گیا، مثلاً عورت سے متعلق اپنے نظریہ کی تائید میں کس قدر شدومد کے ساتھ وہ حدیث پیش کی گئی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ عورتیں ’’عقل اور دین کے اندر ناقص ہوتی ہیں‘‘ اس حدیث پر آئندہ ہم گفتگو کریں گے۔ اسی طرح یہ حدیث پیش کی گئی کہ ’’اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘

اس پر بس نہیں کیا گیا بلکہ ایسی احادیث بھی پیش کی گئیں جن کی نہ کوئی اصل ہے اور نہ سند، بالکل بے سروپا اور ضعیف حدیثیں یا حضورﷺ کی جانب غلط منسوب کردہ گڑھی ہوئی حدیثیں۔

مثلاً حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے رسول کریمﷺ نے دریافت فرمایا کہ: ’’عورت کے لیے سب سے بہتر چیز کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ نہ وہ کسی مرد کو دیکھے اور نہ اسے کوئی مرد دیکھے۔ تو آپﷺ نے ان کا بوسہ لیا اور فرمایا:

’’ذریۃ بعضہا من بعض‘‘

یہ حدیث اس قدر ضعیف اور بے اصل ہے کہ جس سیاہی سے لکھی گئی ہوگی اس سیاہی کے درجہ میں بھی نہیں آتی ہے۔

اسی طرح یہ حدیث کہ ’’عورتوں سے مشورہ کرو اور ان کے خلاف کرو۔‘‘ بالکل بے اصل ہے اور بچوں کا دودھ چھڑانے کے سلسلہ میں ماں باپ کے باہمی مشورہ سے متعلق درج ذیل آیت کے بھی مخالف ہے:

فَإِنْ اَرَادَا فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ مِنْھُمَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا۔

(البقرہ:۲۳۳)

(پھر اگر دونوں باہمی رضا مندی اور مشورہ سے دودھ چھڑا دینا چاہیں تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے۔)

نیز سیرت نبویؐ اور صحیح حدیث سے ثابت غزوۂ حدیبیہ میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اکرمﷺ کامشورہ کرنے اور انہی کے رائے پر عمل کرنے کے بھی مخالف ہے۔

اسی طرح حضرت علی بن ابی طالبؓ کی جانب منسوب یہ قول کہ ’’عورت مکمل شر ہے اور اس کی ہر چیزشر ہے‘‘ میں نے اپنی ایک کتاب میں قول کا بطلان واضح کیا ہے۔ (دیکھئے ہماری کتاب :فتاوی معاصرہ)۔

اسی طرح مستدرک میں حاکم کی روایت اپنی سند سے ہے کہ ’’عورتوں کو کمروں میں نہ ٹھیراؤ اور نہ انہیں لکھنے کی تعلیم دو۔‘‘ اس حدیث کو ناقدین نے موضوع قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی نے حاکم پر تبصرہ کرتے ہوئے یہی بات کہی ہے۔

کچھ دنوں پہلے راغب اصفہانی کی کتاب ’’محاضرات الادباء‘‘ کا مطالعہ کررہا تھا۔ مصنف نے کتاب کے اندر ایک باب لڑکیوں سے متعلق قائم کیا ہے، جس کا عنوان ہے ’’لڑکی کی موت اور موت کی تمنا کا فائدہ‘‘ باب کا آغاز اس جملہ سے ہوتا ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر داماد قبر ہے اور فرمایا: لڑکیوں کا دفن کرنا بڑی عظمت و مشرف والے کاموں میں سے ہے۔

یہ دونوں حدیثیں رسول اللہ پر گڑھی ہوئی اور موضوع ہیں اور ادب کی کتاب میں حدیث نبوی کا مرجع اور ماخذ نہیں بن سکتی ہیں لیکن جو لوگ مراجع و ماخذ کی درجہ بندی اور ان کا معیار متعین کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں، وہ کتابوں میں لکھی ہوئی ہر بات صحیح سمجھنے لگتے ہیں۔ خصوصاً جب کہ مصنف علم و فن کی دنیا میں شہرت رکھتا ہو۔ راغب اصفہانی بھی شہرت یافتہ مصنف ہیں۔ آپ کی تصانیف میں ’’مفردات القرآن‘‘ اور ’’الذریۃ إلی مکارم الشریعۃ‘‘ مشہور کتابیں ہیں۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی شخص ایک موضوع اور فن میں ماہر ہوتا ہے، لیکن دوسرے موضوع اور فن میں اس کی حیثیت ایک عام شخص کی سی ہوتی ہے۔ دوسرے موضوع پر نہ اس کی رائے قابل قبول ہوتی ہے، نہ ہی اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔امام غزالی نے ’’المنقذ من الضلال‘‘ میں اس نکتہ کی خوب وضاحت کی ہے۔

غلو اور شدت پسندوں نے عورت کی زندگی کو ایسا زنداں بنادیا ہے جہاں روشنی کی کوئی کرن بھی نہیں پہنچ سکتی۔ عورت کا گھر سے نکلنا حرام ہے۔اس کا مسجد جاناناجائز ہے۔ وہ آداب حیاء ملحوظ رکھتے ہوئے بھی مردوں سے گفتگو نہیں کرسکتی ہے۔ اس کا چہرہ اور اس کی ہتھیلی بھی قابل ستر ہے۔ اس کی آواز اور اس کی گفتگو بھی قابل پوشیدگی ہے۔ حتیٰ کہ حج اور عمرہ کے موقع پر عورتیں جو سفید کپڑے پہنتی ہیں، اور مصر اور کئی ملکوں میں عرصہ سے یہ رواج چلا آرہا ہے، کچھ لوگوں نے اس پر بھی اعتراض کیا اور کہنے لگے کہ سفید کپڑوں سے مردوں کی مشابہت ہوتی ہے۔

حالانکہ شریعت اسلامیہ نے مردوں کی بہ نسبت عورتوں کے زیب و زینت میں کافی وسعت رکھی ہے۔ مردوں پر سونے کے سامان اور ریشمی لباس کا استعمال حرام قرار دیا ہے۔ جبکہ عورتوں کو ان چیزوں کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔

ایک طرف تو یہ لوگ ہیں جو عورتوں کی حق تلفی میں تفریط کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں، دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو افراط کی انتہا پر ہیں اور عورتوں کے معاملات میں اللہ کے حدود، فطرت کے حدود، فضیلت اور شرافت کے حدود سبھوں سے تجاوز کرگئے ہیں۔

پہلی قسم کے لوگ اگر مشرقی رسوم و رواج کے خوگر ہوچکے ہیں، تو دوسری قسم کے لوگ مغرب کے نووارد آداب و اطوار کے اسیر ہیں۔

دوسری قسم کے لوگ مرد عورت کے درمیان تمام امتیازات کو مٹادینا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک عورت بھی ایک انسان ہے اور مرد بھی ایک انسان۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں، لہٰذا دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

وہ یہ بھول گئے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کی فطرت میں فرق رکھا ہے۔ دونوں کی جسمانی ساخت جداگانہ ہے اور اس فرق میں بہت بڑی حکمت کارفرما ہے۔ دونوں کے اپنے اپنے مزاج و ساخت اور اپنی اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے علاحدہ علاحدہ ذمہ داریاں ہیں، عورت کی مامتا اپنی تمام تر خصوصیات، خوبیوں اور گراں باریوں کے ساتھ اس کی زندگی کا محور و مقصد ہے اور اسی مقصد نے مردوں کی بہ نسبت عورتوں کی وابستگی گھروں سے زیادہ رکھی ہے۔

جب مردو عورت کے درمیان یہ فطری فرق موجود ہے تو عورتوں کے لیے کسی بھی نظام تعلیم و کار کی منصوبہ بندی کرتے وقت ہمیں اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ جدید تعلیم اور اس کے کارپردازوں نے بھی اس فرق کو ملحوظ رکھا ہے۔

اس قسم کے لوگ بغیر کسی دلیل کے صحیح اور ثابت شدہ احادیث کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ ایک عالی مرتبت ادیب خاتون نے قطر میں اپنی تقریر کے دوران درج ذیل حدیث کا انکار کردیا حالانکہ وہ حدیث بخاری شریف کی صحیح حدیث ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی جو کسی عورت کو اپنی زمام سپرد کردے۔‘‘ اس حدیث کو قبول عام حاصل ہے اور گذشتہ طویل مدت میں کسی نے اس پر نقد نہیں کیا ہے۔

اس سے بھی تعجب خیز بات یہ ہے کہ ایک صاحب نے اپنی تحریر میں مذکورہ حدیث کو جھوٹی اور غلط اس بنیاد پر قرار دیا کہ اس سے ان کے خیال کے مطابق ذیل کی صحیح حدیث کی مخالفت ہوتی ہے، جس میں حضرت عائشہؓ کے متعلق کہا گیا ہے۔ ’’تم لوگ اپنا نصف دین حمیراء سے حاصل کرو۔‘‘ ملاحظہ کیجیے ایک بالکل غلط اور گڑھی ہوئی، بے وزن حدیث کی بنیاد پر دوسری صحیح اور امت کے اندر مقبول حدیث کو رد کردیا گیا۔

اللہ تعالیٰ نے ضرورت مند مردوں کو ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت دی ہے، بشرطیکہ وہ اس کی استطاعت رکھتے ہوں اور دونوں کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھنے کااعتماد انھیں خود اپنی ذات پر ہو، لیکن قرآن کریم کے اس حکم، رسول کریمﷺ کے عمل، صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کے عمل، خیرالقرون کے اسلاف امت اور مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں علماء امت کے عمل، سبھوں کی مخالفت کرتے ہوئے اللہ کی دی ہوئی اجازت سے روکنے اور ایک حلال کام کو حرام قرار دینے کی بھی کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں۔

بلکہ ایسے بھی لوگ نظر آتے ہیں جو کھلم کھلا قرآن کے بالکل صریح اور دو ٹوک حکم کو ٹھکراتے ہوئے میراث کی تقسیم میں لڑکی کو لڑکے کے برابر حصہ دینے کی آواز اٹھاتے ہیں اور اس طرح قرآن، سنت رسول اور چودہ سو سال سے قائم امت کے اجماع اور دین اسلام کے قطعی احکام کی بالکل لاپروائی سے مخالفت کی جرأت کرنے لگتے ہیں۔

اس سے بھی بڑھ کر حیرت انگیز یہ منظر بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ علم دین کی طرف اپنا انتساب کرنے والے لوگ جنھیں موجودہ غیر متوازن حالات نے صحافت و ذرائع ابلاغ کی دنیا میں اسلام کا نمائندہ بنادیا ہے، وہ اپنی بے مثال جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے اللہ کی جانب بے سروپا باتیں منسوب کرنے لگتے ہیں، چنانچہ صحیح اور صریح احادیث سے ناواقف رہ کر یا قصداً ناواقف بن کر حرام چیزوں کی حلت کا فتویٰ دینے لگتے ہیں اور بزعم خود درپیش صورت حال کی دلیل فراہم کرتے ہیں یا حلال کی تحریم اور حرام کی حلت کے سلسلے میں ارباب حکومت کے خیالات و رجحانات کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ قانون زنا کی اجازت پر خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں اور تعداد ازدواج کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس طرح کچھ لوگوں نے یہ فتویٰ دیا کہ عورتیں اس قدر تنگ اور چھوٹے کپڑے پہنتی ہیں جن سے ان کے دونوں بازو، پنڈلیاں اور سر کے بال کھلے رہتے ہوں، جیسا کہ موجودہ مغربی فیشن ہے، تو یہ صرف ایک صغیرہ گناہ ہے اور نماز وغیرہ پڑھ لینے سے اس کی تلافی ہوجائے گی۔ کس قدر جہالت آمیز یہ فتویٰ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے تو یہ ارشاد فرمایا کہ کپڑے پہن کر بھی عریاں رہنے والی خواتین جہنم میں جائیں گی، نہ وہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ جنت کی خوشبو ہی انھیں مل سکتی ہے حالانکہ جنت کی خوشود دور دراز مسافت تک محسوس کی جائے گی۔ کپڑے پہن کر عریاں رہنے والی خواتین سے مراد وہ خواتین ہیں جن کے لباس شرعی شرائط کے مطابق نہ ہوں یعنی ان کے کپڑے انتہائی تنگ اور چست ہوں اور جسم کے جن اعضاء کا پوشیدہ رکھنا ضروری ہے، وہ کھلے رہتے ہوں۔ اگر ایسی بے پردگی اور عریانیت محض گناہ صغیرہ ہوتی تو نبی کریم ﷺ ان کے جہنمی ہونے اور جنت بلکہ جنت کی خوشبو سے بھی محرومی کا اعلان نہیں فرماتے۔ اگر ہم یہ تسلیم کربھی لیں کہ اس درجہ کی عریانیت صرف گناہ صغیرہ ہے تو بھی کیا یہ مفتیان نو نہیں جانتے کہ صغیرہ گناہ اصرار اور تکرار کے بعد گناہ کبیرہ شمار کیا جانے لگتا ہے۔ یہ تو متفقہ مسئلہ ہے اور علماء اسلام نے صاف کہہ دیا ہے کہ صغیرہ گناہ اصرار کے نتیجہ میں کبیرہ ہوجاتا ہے۔ اور کبیرہ گناہ استغفار کے ذریعہ معاف ہوجاتا ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ غلو پسند مغرب نوازوں کی بیشتر انتہا پسندی، غلو پسند مشرق نوازوں کی انتہا پسندی کا ردِّ عمل ہوا کرتی ہے۔ انتہا پسندی اور غلو سے انتہا پسندی اور غلو ہی جنم لیتا ہے۔ اللہ نے ہمیں نہ مغرب نوازی کا حکم دیا اور نہ مشرق نوازی کا، اس کا فرمان ہمیں نہ اسیر قدیم بناتا ہے اور نہ گرفتار جدید۔ وہ تو ہماری تمام خواہشات کو صرف پابند شریعت محمدی اور خوگرِ دین حق بناتا ہے۔ افراط و تفریط کے درمیان کی راہ ہی اسلام کا جادئہ اعتدال ہے اور مسافران حق اسی کے رہرو ہیں۔ قرآن کریم اسی اعتدال کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ:

أَلاَّ تَطْغَوْا فِیْ الْمِیْزَانِ وَأَقِیْمُوْا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوْا الْمِیْزَانِ۔

(الرحمن:۹)

(تم تولنے میں گڑ بڑ نہ کرو اور وزن کو ٹھیک رکھو انصاف کے ساتھ اور تول کو گھٹاؤ مت۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں