عورت اور اسلام

ساجدہ پروین

موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں یا پیدا کی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حیثیت نہیں دی ہے۔ اور اس پر اتنی پابندیاں عائد کردی ہیں کہ وہ زندگی کی دوڑ میں لازماً پیچھے رہ جاتی ہے اور ہمیشہ عورت مرد کی محتاج رہتی ہے۔ حالاںکہ یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے سب سے پہلے عورت اور مرد کے برابر ہونے کا تصور دیا۔ اس نے کہا کہ اسلام کی نظر میں عورت اور مرد دونوں برابر اور ان کی کامیابی اور ناکامی کے اصول ایک ہیں۔

اسلام سے پہلے عورت کی تاریخ مظلومی اور محکومی کی تاریخ تھی اسے کم تر سمجھا جاتا تھا، اسے سارے فساد اور خرابی کی جڑ سمجھا جاتا تھا اور جیسے سانپ بچھو سے بچا جاتا ہے اسی طرح اس سے بچنے کی تلقین کی جاتی تھی۔ بازاروں میں جانوروں کی طرح اس کی خریدوفروخت ہوتی تھی، اس کی کوئی مستقل حیثیت نہیں تھی، اس کو کسی طرح کے حقوق حاصل نہیںتھے اور اہلِ علم جانتے ہیں کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں خواہ وہ ترقی یافتہ ہوں یا پسماندہ اور سبھی مذاہب میں عورت کی حالت یکسا طور پر قابلِ رحم تھی۔ مگر اسلام نے اس کی مظلومی کے خلاف اتنے زور دار انداز میں آواز بلند کی کہ ساری دنیا اس سے گونج اٹھی اور آج کسی میں یہ ہمت نہیں کہ اس کی پچھلی حیثیت کو صحیح اور برحق کہہ سکے۔ قرآن میں کہا گیا ہے:

یایہا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منہا زوجہا وبث منہما رجالا کثیراً و نساء و اتقوا اللّٰہ الذی تساء لون بہ والارحام ان اللّٰہ کان علیکم رقیباً۔ (النساء:۱)

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلادیے اور اللہ سے ڈرو جس کے ذریعے تم ایک دوسرے سے مدد طلب کرتے ہو اور رشتوں کا احترام کرو بے شک اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘

اسلام : مساوات مردو زن کا پہلا علمبردار

اسلام جس طرح مردوں کے لیے اللہ کا بھیجا ہوا دین ہے۔ اسی طرح عورت کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے مرد اور عورت دونوں جواب دہ ہیں اور دونوں پر یکساں ذمے داریاں عائد کی گئی ہیں۔ جس طرح مردوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اپنے کاموں میں لگائیں جس کے نتیجے میں اللہ راضی ہو اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھا کر وہ کام کریں جن سے اللہ خوش ہوتا ہے۔

عورت کی اہمیت

اسلام پوری زندگی کا نظام ہے۔ افراد کی انفرادی زندگی کے لیے بھی اور اجتماعی زندگی کے لیے بھی۔ اجتماعی زندگی کی تکمیل عورت کے بغیر ممکن نہیں۔ عورت نظام کا ایک بہت اہم جزو ہے اس لیے کوئی ایسی تحریک جو زندگی کی اصلاح سے تعلق رکھتی ہو۔ وہ عورت کو ساتھ لیے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ چونکہ اسلام پوری زندگی کے لیے ایک تحریک ہے، اس لیے یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کو نظر انداز کرکے اس تحریک کو کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونے اور اس کے سامنے جوابدہی کرنے اور اپنے اپنے کاموں کابدلہ لینے کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ اللہ کی اطاعت کرنا اور اس کے احکام بجالانا جس طرح مردوں کے لیے ضروری ہے، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی لازمی ہے۔ آخرت کی کامیابی کے اعتبار سے مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور آخرت میں کامیاب ہونے کے لیے جس طرح مردوں کو کوشش کرنی ہوگی اسی طرح عورت کو بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی پڑیں گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن۔ (النسا:۳۲)

’’مرد جیسا کریں گے ویسا حصہ پائیں گے اور اسی طرح عورتیں جیسا کام کریں گی ویسا حصہ پائیں گی۔‘‘

اسلام نے عورت کو ایک مستقل حیثیت دی ہے انھیں مردوں کا ضمیمہ نہیں بنایا۔ اس لیے عورت کا مقام یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے بارے میں کچھ سوچے بغیر مردوں کے رنگ میں رنگ جائیں کیونکہ ہر مرد اور عورت کو اپنے اپنے عمل کا پھل پانا ہے۔ اس لیے دین کا علم حاصل کرنے، اللہ کے دین کو سوچ سمجھ کر اختیار کرنے اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے کے بارے میں عورت کی ذمے داری بھی کسی مرد ہی کی طرح ہے۔

اسلام نے عورت کی عزت و قدرومنزلت کے صرف دعوے ہی نہیں کیے بلکہ عملاً اسے ثابت کیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیاست میں، بہادری اور شجاعت میں، علم و فن میں، دعوت و تبلیغ میں، تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں غرض عورتوں کے چند فطری خصائل کے علاوہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں اپنی عملی حیثیت سے مردوں کے دوش بدوش لاکھڑا کردیا۔ اگر مردوں کی صف سے ابوبکر صدیق، عمر فاروقؓ اورعلی حیدرؓ جیسے لوگ سامنے آئے تو عورتوں کی جماعت سے حضرت عائشہ صدیقہؓ ، حضرت خدیجہ الکبریؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت امِ سلمہؓ، حضرت زینب بن حجشؓ اور حضرت فاطمۃ الزہراؓ جیسی خواتین کو زہد و تقویٰ اور پارسائی اور علم و عمل کے قابلِ تقلید نمونے بناکر اقوامِ عالم کے رو برو عبرت و نصیحت کی غرض سے پیش کردیا۔
یہ تو ہماری کم علمی بلکہ جہالت ہے کہ آج کی مسلم خواتین اپنی تاریخ سے ناواقف ہیں اور اس تاریخ کے اوراق پر درخشاں وتاباں عظیم خواتین کی عظمت اور کارناموں سے نابلد ہیں ورنہ وہ خود بھی انقلابی کردار کی حامل ہوتیں اور اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو یہ بتادیتیں کہ اسلام ہی نے دنیا میں پہلی مرتبہ عورت کو عزت و وقار دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم خواتین اپنی سنہری تاریخ اور بلند پایہ خواتین کے کارناموس سے واقف ہوں اور اسلام کے دعوے کو ایک مرتبہ پھر عملی شکل میں پیش کریں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں