اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ دنیا کی آبادی کی لگ بھگ آدھی تعداد عورتوں پر مشتمل ہے۔ اور اس سے بھی کسی مورخ کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ سب سے زیادہ مظلوم طبقہ اگر کوئی رہا ہے تو وہ عورتوں کا ہی رہا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دو طرح کے لوگ معاشرے میں پائے گئے کسی نے ان کی حمایت کی تو مردوں کی صف میں لاکھڑا کیا اور کسی نے مخالفت کی تو اسے بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم کردیا۔ عیسائی پادریوں نے عورت کی تشریح کی تو اس کو بغیر روح والی ذات تک کہہ ڈالا۔ ہندو تہذیب نے اسے گائے بیل کی طرح ملکیت قرار دے دیا۔ اور قدیم عرب جاہلیت میں اسے ایسا باعث شرم سمجھا گیا کہ پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جاتا تھا۔
موجودہ زمانہ بھی عورت کے سلسلے میں فکری افراط و تفریط کا شکار ہے۔ یہاں ایک طبقہ آزادی کے نام پر اس کے استحصال کی نئی نئی شکلیں تلاش کررہا ہے اور عورت کو دامِ فریب میں پھنسا رہا ہے۔ دوسرا طبقہ عورت کو وہ بنیادی رول اور حقوق دینے میں بھی پس و پیش کا شکار ہے جو اس کے خالق نے اسے دیے ہیں۔ جب کہ اسلام نے اس سلسلے میں عین فطری اور اعتدال پر مبنی ہدایات دی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
’’خواتین مردوں کے ہم مرتبہ ہیں۔‘‘ (ابوداؤد)
حضرت عمر بن خطاب اپنے معاشرے میں عورت کا مقام بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دورِ جاہلیت میں ہم عورتوں کو کسی شمار قطار میں نہیں لاتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے ان سے متعلق آیات نازل فرمائیں اور ان کے لیے قسمیں کھائیں۔ (متفق علیہ)
اسلام نے عورت کو اس کے گرتے ہوئے مقام سے اٹھا کر معاشرے کا ایک اہم جز قرار دیا۔ جہاں مردوں کو تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیا وہیں عورتوں کے لیے بھی اس کا حاصل کرنا فریضہ ٹھہرایا اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے لوگوں کو ابھارا۔ مختلف احادیث ہمیں ملتی ہیں جن میں اللہ کے نبیؐ نے لڑکیوں کی صحیح تعلیم و تربیت دینے پر جنت کی بشارت دی ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص لڑکیوں کا کسی بھی معاملہ میں سرپرست ہو اور ان کے ساتھ احسان کرے تو وہ اس کے لیے جہنم سے حفاظت کا ذریعہ بنیں گی۔‘‘ (متفق علیہ)
یہی وجہ ہے کہ کئی حدیثوں کی راوی خواتین رہی ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ یتیم اور خواتین کے بارے میں بہت متفکر رہتے تھے۔
اسلام میں عورتوں کو عبادات ادا کرنے کے سلسلے میںخواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ عورتیں عشاء تک کی نماز مسجد میں پڑھا کرتی تھیں۔ اللہ کے نبیﷺ کا معمول تھا کہ سلام پھیرنے کے بعد کچھ دیر رک جاتے پھر اٹھ کھڑے ہوتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عورتیں سلام پھیرنے کے بعد چلی جائیں۔ جہاں عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دے دی وہیں صراحت فرمائی کہ عورتوں کا گھر میں نماز ادا کرنا مسجد میں ادا کرنے سے بہتر ہے۔
عورتوں کو اپنے گھر کے تئیں بہت بڑی ذمہ داری دی گئی۔ بچوں کو ادب سکھانا، گھر کی حفاظت کرنا یہ ساری ذمہ داری عورت پر ڈالی گئی۔ ایک حدیث میں نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچے کی نگراں ہے۔ اور وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ گھر کے کام کاج میں مرد ہاتھ نہیں بٹائے گا۔ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ نبیؐ گھر میں کیا کرتے تھے؟ تو انھوں نے بتایا کہ وہ میرے کام میں ہاتھ بٹایا کرتے یہاں تک کہ اذان ہوجاتی اور آپ مسجد چلے جاتے۔ روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبیؐ اپنے گھر میں آٹا تک گوندھ دیتے تھے۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں عورتیں بکریاں بھی چرایا کرتیں اور بکریاں بھی ذبح کیا کرتیں۔ بکریاں چرانے کے سلسلے میں حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ ذات النطاقین بہت مشہور ہیں جو غارِ ثور تک غلام کے ساتھ بکریاں چراتے ہوئے آیا کرتی تھیں۔
نبیﷺ نے عورتوں کو عیدین کے خطبے میں شریک ہونے کی تاکید کی خواہ وہ ناپاک ہی کیوں نہ ہوں۔ عورتوں کو جب کوئی بھی مسئلہ پوچھنا ہوتا تو ایسا نہیں تھا کہ عورتیں مردوں کو بھیجا کرتیں بلکہ خود نبیؐ کے پاس پہنچ جاتیں اور دریافت کرلیتیں۔
حضرت ابوسعید ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول ﷺ کے پاس آئی اور بولی: اے اللہ کے رسول! مرد حضرات ہی آپ کی گفتگو سے مستفید ہوتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنی طرف سے ہمارے لیے کوئی دن متعین کردیجیے۔ اس دن ہم آپ کے پاس حاضر ہوجایا کریں تاکہ اللہ نے جو علم آپ کو دیا ہے، آپؐ ہمیں اس کی تعلیم دیں۔ آپؐ نے فرمایا:’’تم عورتیں فلاں دن فلاں مقام پر جمع ہوجایا کرو۔‘‘ (متفق علیہ)
صحابیات نبیؐ کے ساتھ غزوات میں شامل ہوتیں اور طبی امداد اور نقل وحمل کا کام سنبھالتیں اور کھانا وغیرہ بنانے کا کام کرتیں۔
حضرت ام عطیہ انصاریہ فرماتی ہیں: ’’میں نے رسول ﷺ کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی۔ لوگوں کے پیچھے رہ کر میں ان کے لیے کھانا بناتی، زخمیوں کا علاج کرتی اور بیماروں کی تیمار داری کرتی۔‘‘ (مسلم، کتاب الجہاد)
احادیث میں یہ بات بھی آئی ہے کہ صحابیہ زراعت جیسا پیشہ بھی کیا کرتی تھیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہوگئی تو انھوں نے (دورانِ عدت) پھل توڑنے کاکام کرنا چاہا۔ ایک شخص نے انہیں گھر سے نکلنے پر ڈانٹا تو وہ نبیؐ کے پاس آئیں اور دریافت کیا۔ آپؐ نے فرمایا، ٹھیک ہے پھل توڑو۔ شاید اس کے ذریعہ تم کچھ صدقہ کرلو یا کوئی اچھائی عام کرلو۔ (مسلم کتاب الطلاق)
مسائل خواہ دینی ہوں یا سیاسی مسلمان عورتوں کی دلچسپی ہر ایک میدان سے لگی رہتی تھی۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بہت سے مسائل میں عورتوں نے اللہ کے نبیؐ کو سیاسی مسائل میں مشورے بھی دیتے ہیں۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضرت امِ سلیم نے غزوہ حنین کے دن کہا: یا رسول اللہ! ہمارے علاوہ جو لوگ فتح مکہ کے موقع پر آزاد چھوڑ دیے گئے آپ انھیں قتل کا حکم دے دیجیے۔ یہ سب شکست کھا جائیں گے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے ام سلیم! اللہ کافی ہے اور احسان کرنے والا ہے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والیسر)
عورت حسن و جمال کی پیکر ہوتی ہے۔بناؤ سنگار ان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ جس پر اسلام کبھی پابندی عائد نہیں کرتا۔حضرت عون بن ابی جحیفہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبیؐ نے حضرت سلمان اور ابو درداء کے درمیان مواخاۃ قائم فرمائی، تو حضرت سلمان ابودرداء کے گھر گئے وہاں ام درداء کو معمولی کپڑوں میں دیکھا تو فرمایا: کیوں یہ حالت ہے۔ وہ بولیں: تمہارے بھائی کو دنیا سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ (بخاری ،کتاب الصوم)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس بیعت کے لیے آئی۔ وہ مہندی نہیں لگائے ہوئے تھی۔ آپؐ نے بیعت نہیں کی جب تک اس نے مہندی نہ لگالی۔ (ابوداؤد)
اسلام اعتدال پسندی کا دین ہے۔ جب عورت کو بناؤ سنگار کا حق دیا تو وہ بھی اعتدال کے ساتھ، اور یہ بھی بتادیا کہ کس طرح کا کپڑا پہنے۔ اللہ کے نبیؐ نے اسماء بنت ابوبکرؓ کو جسم کو ظاہر کرنے والے باریک کپڑے میں دیکھا تو اس کو پہننے سے روک دیا۔ اور عورتوں کو مردانہ لباس پہننے اور مردوں کو عورتوں جیسا لباس پہننے پر تنبیہ کی۔ اور ساتھ ہی حجاب کا حکم دیا۔
ان احادیث میں عورتوں کے وہ حالات ہیں جو نبیؐ کے زمانے میں عملی طور پر موجود تھے۔ اور نبیؐ نے جن پر کئی دفعہ خوشی کا اظہار بھی کیاجبکہ آج اس چہرے کو مسخ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام جیسے معتدل اور عورت کے حقوق کے پاسبان دین پر دشمنان اسلام یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ عورتوں پر ظلم کرتا ہے۔ حالانکہ اسلام کے پاس عورت کے لیے جتناکچھ ہے، اس کا ایک فیصد بھی کسی دوسرے مذہب یا تہذیب کے پاس نہیں ہے۔ مگر ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم اسلام کو قرآن و حدیث کے ذریعہ سمجھنے کے بجائے سماجی روایات اور اپنی فکر کے فریم میں رکھ کر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اس چیز کے لیے آمادہ نہیں کہ اسلام کو مکمل اور حقیقی شکل میں اپنی زندگیوں میں جاری کریں۔ یہ معاملہ عورت کے حقوق کے سلسلہ میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہے۔ جہاں بھی اسلامی تعلیمات ہماری سماجی اور خاندانی روایات نیز شخصی مفادات کی راہ میں آتی ہیں ہم کتراکر نکل جاتے ہیں۔ یہی ہماری بدبختی اور بدنصیبی ہے۔
——