عورت اور مرد کے درمیان (زندگی کے تمام معاملات میں) مساوات کا دعوی فطرت کے خلاف ہے۔ اسلام میں عورت اور مرد حقوق اور فرائض کے معاملے میں تو مساوی ہیں لیکن کام اور زندگی کے معاملات میں وہ ایک دوسرے کے مساوی نہیں ہیں۔حضرات! ذرا توقف سے کام لیں۔۔۔جہاں تک حقوق کا تعلق ہے ، قانون اسلامی کی رو سے عورت کو ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے کہ مرد کو حاصل ہیں۔ماضی میں عورتیں فتوے دیا کرتی تھیں، علم کی مجالس منعقد کیا کرتی تھیں، دین کی تعلیم دیا کرتی تھیں ، حدیثیں بیان کیا کرتی تھیں، ہر مناسب موقع پر دین کی تبلیع کیا کرتی تھیں۔ صدیق اکبرؓ کی بیٹی حضرت صدیقہؓ باہم جنگ پر آمادہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے گھر سے نکل آئیں۔لوگ ان کے پاس مسائل جاننے اور دین کے سلسلے میں وضاحت کے لیے حاضر ہوا کرتے تھے۔حضرت زینب بنت ابی سلمہؓ اپنے زمانے میں دین کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی خاتون تھیں۔قبیلہ بن اسد کی ایک خاتون، جن کا نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے، مشرکوں کے گھروں میں چلی جاتی تھیں اور ان کی عورتوں کے درمیان اسلام کا پیغام پہنچایا کرتی تھیں۔ آخرکار مشرکین ان کے اس عمل سے تنگ آگئے اور انھیں شہر سے نکال دیا۔
عورت کا دائرہ کار
عورت اپنے مال کی خود مالک ہے، اور اسے جس طرح چاہے خرچ کرسکتی ہے، اس کے لیے اسے اپنے شوہر سے اجازت لینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ہر وہ کام کرسکتی ہے جو اس کی نسوانیت اور فطری ساخت سے مناسبت رکھتاہو۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی کام کرکے اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کیا کرتی تھیں۔ ام المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ طائف کے ممتاز چمڑے کا کام کیا کرتی تھیں اور اس چمڑے کو بیچک ر جو آمدنی ہوتی تھی ، اسے صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔گھر کے اندر ان کی مشغولیت سوت کاتنا تھی۔کیا آپ یہ نہیں چاہیں گے کہ عورت اپنے عفت اور پاکیزگی کی حفاظت کرے؟! میں نے کہیں یہ بات پڑھی ہے کہ عورت کے ہر چیز میں مرد کے مماثل ہونا ممکن ہی نہیں ہے، کیوں کہ عورت اپنی جسمانی وعضوی ساخت میں مرد سے الگ ہے۔سائنسی اعتبار سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورت کے جسم کی بناوٹ مرد کے جسم کی بنوٹ سے مختلف ہے اور اس کے جسم کا ہر خلیہ اپنے اندر نسوانی صفت رکھتا ہے۔
فطرت کے خلاف
یہ دعوی کہ عورت مرد کے مساوی ہے، فطرت، الٰہی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔اسلام نے حقوق اور فرائض میں انھیں ایک دوقرے کے مساوی رکھا ہے، لیکن عمل اور زندگی کے معملات کو انجام دینے کے سلسلے میں دونوں ایک دوسرے کے مساوی نہیں ہیں۔
خود کو ترقی یافتہ کہنے والا معاشرہ آمد ورفت اور دوسرے مواقع پر عورت کو اولیت دیتا ہے۔ بینک ، بکنگ وندوز وغیرہ پر ’لیڈیز فرسٹ‘ کا اصول کارفرما ہوتا ہے ، لیکن دوسری طرف مرد کو ہی یہ اختیار ہے کہ وہ عورت کا ہاتھ چومے، عورت یہ جرأت نہیں کرسکتی۔سماجی مجلسوں میں مرد عورت کے لیے اپنی سیٹ خالی کر دیتا ہے۔یہ سب کیوں ہے؟! ظاہر بات ہے یہ اس لیے کہ ان کے یہاں بھی مرد اور عورت کے درمیان فرق ہے۔لیکن یہی چیز اسلام میں ہے تو اسے رومانیت سے محرومی کا نام دے دیا جاتا ہے۔مزید ایک بات اور عرض کر دوں کہ میں نے یہ پڑھا ہے کہ ۱۹۵۹ء میں اقوام متحدہ نے جو اعداد وشمار جاری کیے تھے، ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا خاص طور سے نومولود بچوں کے سلسلے میں حلال وحرام اور جائز وناجائز کے سخت مسئلے سے دوچار ہے۔اور یہ جائز وناجائز کا تناسب تقریباً ۷۵% سے بھی آگے نکل گیا ہے۔جب کے عالم اسلام میں ناجائز بچوں کا تناسب نہ کے برابر ہے۔
(ماخوذ از مقالہ ’ا لاسلام والحکومۃ الدینیۃ‘)
——