ان دنوں خواتین کے امپاورمنٹ کا بہت چرچا ہے۔ خواتین کی تحریکیں اسے اپنا مقصد قرار دیتی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس کے لیے تحریکیں چلائی جارہی ہیں۔ اس اصطلاح کا رواج ماضی میں بھی رہا ہے لیکن حالیہ عرصہ میں اقوام متحدہ نے، خصوصاً اس کے ذیلی ادارہ UNIFEMنے، اس تصور کو بہت زیادہ عام کیا۔ ۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں ہوئی کانفرنس میں اس اصطلاح کا بہت کثرت سے استعمال ہوا اور غالباً اس کے بعد سے یہ دنیا بھر کی نسائی تحریکوں کا ہدفِ اولین بن گیا۔
گرچہ اسلام نے عورت کو اختیار اور قوت بخشی ہے لیکن مسلمان اہل علم نے ہمیشہ اس اصطلاح کی مخالفت کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصطلاح ایک طرح کی کشمکش کی ذہنیت کو ظاہر کرتی ہے۔ گویا کسی نے عورت سے اس کی قوت چھینی ہے اور اسے جدوجہد کرکے دوبارہ وہ قوت حاصل کرنی ہے۔ نائیجریا کی مسلم عورتوں کی تنظیم (FOMWAN) نے اپنی ایک قرار داد میں بہت صحیح کہا ہے:
’’قوت اور دولت کے لیے عورتوں کو مردوں کے مقابلہ میں ان کے حریف کی حیثیت سے کھڑا کرنا (جو امپاورمنٹ کا حقیقی مطلب ہے) سماجی تشکیل کا ویسا ہی طریقہ ہے جو کمیونسٹوں کے مساوات کے تجربہ میں اختیار کیا گیا تھا اور جو اس غلط مفروضہ پر مبنی تھا کہ تمام انسان ایک جیسے ہیں۔‘‘
بنیادی اصطلاح سے اختلاف کے علاوہ اہل اسلام کو امپاورمنٹ کے جدید مغربی تصور کے اور بھی کئی پہلوؤں سے بڑا بنیادی اختلاف ہے۔ امپاورمنٹ کی تحریک کے اس مقصد سے اتفاق کرنے کے ساتھ کہ روایتی معاشروں میں عورتوں کی پسماندگی، بے چارگی، مظلومیت اور بے اختیاری کی صورتحال تبدیلی ہونی چاہیے، ہم بھی اس تحریک کے کئی مقاصد اور پہلوؤں کو سماج کے لیے نقصاندہ سمجھتے ہیں۔ ہم اس مضمون کے پہلے حصہ میں امپاورمنٹ کے اسلامی تصور کی وضاحت کرتے ہوئے جدید تصور سے اس کے اختلاف کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے اور دوسرے حصہ میں اس تعلق سے مسلم عورتوں کے مطلوب رول پر کچھ گذارشات کریں گے۔
عورتوں کے امپاورمنٹ کے اسلامی ماڈل کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو اس کی نسوانی شخصیت اور اس کی اصلیت کے ساتھ عزت اور تکریم بخشی ہے۔ کسی بھی انسانی گروہ کے امپاورمنٹ کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کے تشخص کو تسلیم کیا جائے۔ اور اس کو اس کے تشخص کے ساتھ احترام اور قوت دی جائے۔ اگر اس ملک میں مسلمانوں سے کہا جائے کہ وہ اگر ہندو ہوجائیں تو اپنی قوت، طاقت، اختیار سب کچھ ملے گا تو یہ مسلمانوں کا امپاورمنٹ نہیں ان کی تذلیل ہوگی۔ بدقسمتی سے امپاورمنٹ کے نام پر جدید مغرب عورتوں کے ساتھ یہی کھیل کھیل رہا ہے۔ اس تصور کے تحت امپاورمنٹ کی پہلی شرط یہ ہے کہ عورت اپنی نسوانی شخصیت اور نسوانی تشخص کو بھینٹ چڑھا کر آگے آئے۔ اس تصور میں مردوں کے رول اور ان کی ذمہ داریاں بالا تر ہیں اور عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی اپنی فطرت کے خلاف انہیں اختیار کرے۔ وہی لباس پہنے جو مرد پہنتے ہیں، ویسی ہی رہے جیسے مرد رہتے ہیں، مردوں کی ہوس کے مطابق خود کو بنائے سنوارے، ان کی تفریح طبع کے لیے مقابلہ ہائے حسن میں حصہ لے، سیویم سوٹ کیلنڈرز کے لیے پوز کرے اور اپنے نسوانی جذبات کو کچل کر مردانگی کے غیر فطری مظاہرے کرے۔ وہ نسوانی فطرت سے جس قدر بعید تر اور مردانہ فطرت و مزاج سے جس قدر قریب تر ہوگی اتنی ہی ترقی یافتہ، روشن خیال اور طاقت یا پاور کی حقدار ہوگی۔
اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے عورت کو اس کے نسوانی تشخص، جذبات، نسوانی شخصیت کی خوبیوں و کمزوریوں اور اس کی اصل فطرت کے ساتھ قبو ل کیا ہے اور اسی حیثیت میں اسے احترام اور قوت بخشی ہے۔ یہاں عورت مرد کا ضمیمہ نہیں ہے۔ اس کی شخصیت، شادی یا کسی بھی ذریعہ سے مرد کی شخصیت میں ضم نہیں ہوجاتی۔ یہاں ’قوت‘ حاصل کرنے کے لیے نہ عورت کو مرد بننے کی ضرورت ہے اور نہ مردوں کی ہوس کی تکمیل کا ذریعہ۔ وہ عورت رہتے ہوئے، باعزت طریقہ سے اپنے سارے حقوق حاصل کرسکتی ہے۔ یہاں عورت کی طاقت کا راز اس کے مردانہ رول میں مضمر نہیں ہے بلکہ نسوانی رول کو بھی عزت، احترام اور اہمیت حاصل ہے۔ ’جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔‘ ’اچھی بیوی خوش بختی کی علامت ہے۔‘ اور’ بیٹیوں کی پر ورش جنت کی ضمانت ہے۔ ‘ماں، بیوی اور بیٹی محض عورتیں نہیں ہیں بلکہ نسوانی کرداروں اور رولز کے نام ہیں۔ شہید لیما الفاروقیؒ نے اس مسئلہ پر کلام کرتے ہوئے بہت صحیح بات کہی ہے:
Equality and Identity are two different things. Islamic traditions maintain the former desirable the latter not.
’’مساوات اور تشخص دو مختلف چیزیں ہیں۔ (عورتوں اور مردوں کے معاملہ میں) اسلامی روایات اول الذکر کو پسندیدہ قرار دیتی ہیں ثانی الذکر کو نہیں۔‘‘
ڈاکٹر لیما الفاروقی آگے لکھتی ہیں:
’’ مغربی نسائیت عورتوں کے لیے مساوی حقوق کے حصول کی خاطر ایک یک جنسی سماج کی طرف بڑھنا چاہتی ہے۔ یک جنسی سماج سے میرا مطلب ایک ایسا سماج ہے جہاں کردارو ں اور دلچپسیوں کے ایک ہی سیٹ کو دونوں جنسوں کی جانب سے ترجیح اور عزت دی جاتی ہے اور اسی کے پیچھے سوسائٹی کے تمام ارکان بلا تفریق جنس آگے بڑھتے ہیں۔ مغربی نسانیت کے معاملہ میں ترجیحی کردار وہ ہیں جو روایتی طور پر مردوں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ معاشی جدوجہد، کیرئر میں کامیابی، تحفظ کی فراہمی وغیرہ، کرداروں کو غیر معمولی عزت اور وقار ملا ہے جب کہ امور خانہ داری، بچوں کی تربیت، سماجی روابط اور خاندانی استحکام، نفسیاتی و جمالیاتی تسکین اور جذباتی سپورٹ جیسے کرداروں کی قدر گھٹائی گئی اور انہیں حقیر باور کرایا گیا۔‘‘
مغرب کے برعکس اسلام کے ہاں امپاورمنٹ کا ایک مثبت تصور ہے۔ اسلام نے عورت کو اس کے فطری دائرہ کار میں رکھتے ہوئے اسے وہ ساری قوتیں بخشی ہیں جو اس کی آزادانہ اور خود مختارانہ شخصیت کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ طاقت کا سب سے بڑا مرکز علم ہے۔ علم کے حصول کے معاملہ میں اسلام نے مردوں اور عورتوں کے درمیان نہ صرف یہ کہ کوئی فرق نہیں رکھا ہے بلکہ اسلامی روایات میں حضرت علیؓ کے اس قول کو ہمیشہ بڑی بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے کہ ’’جس نے ایک لڑکی کو پڑھایا اس نے ایک فرد کو پڑھایا اور جس نے ایک لڑکی کو پڑھایا اس نے ایک قوم کو پڑھایا۔‘‘ جدید مغرب سے صدیوں پہلے اسلام نے عورت کو یہ مقام بخشا تھا کہ نبی کریمؐ نے ’نصف علم‘‘ کو حضرت عائشہؓ کے ساتھ وابستہ کیا۔
اسی طرح اسلام نے عورت کو معاشی اعتبار سے آزادی اور قوت بخشی ہے۔ معاشی زندگی میں بھی وہ شوہر کا ضمیمہ نہیں ہے۔ گرچہ اسلام نے خاندان کے ادارہ کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے لیکن ایک چھوٹے یا نیو کلیائی خاندانی کی بھی مشترکہ معیشت کا اسلام میں تصور نہیں ہے۔ معاشی اختیارات و معاشی فرائض دونوں، افرادسے متعلق ہیں چاہے وہ مرد ہوں یا عورت۔ زکوٰۃ اور دیگر شرعی واجبات مردوں اور عورتوں اور خاندان کے ہر فرد پر علیحدہ علیحدلاگو ہوتے ہیں۔ [جبکہ جدید معاشروں میں بھی ٹکسیزخاندانوں ( Family In case) پر لاگو ہوتے ہیں۔] وراثت کو اس کی صحیح اسلامی اسپرٹ کے ساتھ اسی وقت تقسیم کیا جاسکتا ہے جب میاں، بیوی اور گھر کے ہر فرد کی ملکیت علیحدہ علیحدہ واضح طور پر متعین ہو۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک مسلم گھرانہ میں میاں بیوی کے لازمی جوائنٹ اکاؤنٹ کا تصور نہیں ہونا چاہیے۔ عورت کی کفالت مرد کی ذمہ داری ہے لیکن عورت کی آمدنی پر چاہے وہ اس کی معاشی جدوجہد کا نتیجہ ہو، تحفے تحائف وغیرہ کے ذریعہ حاصل شدہ ہو، یا وراثت میں وصول شدہ، مرد کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ اپنے مال کی بلا شرکتِ غیرے مالک ہے۔
اسلامی سماجی میںعورت کی رائے کو وہی مقام حاصل ہے جو مرد کی رائے کو۔ وہ ووٹ دے سکتی ہے بلکہ دیتی ہے۔ حضرت عمرؓ کے بعد خلافت کے لیے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے جو استصواب کیا، اس میں عورتوں کی بھی رائے حاصل کی۔ وہ مملکت کے معاملات میں اپنی رائے دے سکتی ہے، خلیفۂ وقت پر تنقید کرسکتی ہے۔ مہر کے معاملہ میں ایک عورت نے جس طرح برسرِ عام حضرت عمرؓ کے حکم پر تنقید کی اور اس کی دلیل سے قائل ہوکر حضرت عمرؓ نے اپنا حکم واپس لے لیا، یہ اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔ عورت اپنے حقوق کے حصول کے لیے اصرار کرسکتی ہے۔ بعض صحابیات نے مسجد میں جانے کے اپنے حق کے حصول کے لیے جس طرح اپنے شوہروں کی واضح ناپسندیدگی کے باوجود مسجد میں جانے کا معمول برقرار رکھا، اس سے بھی اسلامی تاریخ کا ہر طالب علم واقف ہے۔ جنگ جمل اور اس سے متعلق معاملات میں حضرت عائشہؓ کے موقف پر یقینا تنقیدیں ہوئیں اور خود حضرت عائشہؓ کو بعد میںاس پر ندامت رہی لیکن کسی صحابیؓ کا یہ قول نہیں ملتا کہ عورت ہونے کی حیثیت سے حضرت عائشہؓ کا یہ اقدام اصولی طور پر صحیح نہیں ہے۔ صحابہؓ کی ایک بڑی تعداد کا جن میں طلحہؓ و زبیرؓ جیسے عشرہ مبشرہ کے ارکان بھی تھے، حضرت عائشہؓ کا ساتھ دینا اس بات کی علامت ہے کہ صحابہ کے معاشرہ میں عورتوں کا یہ رول ناپسندیدہ اور اجنبی نہیں تھا۔ عورت کی اصل ذمہ داری اس کا گھر اور خاندان ہے۔ لیکن اس کے ساتھ عام سماج سے وہ مکمل طور پر کٹی ہوئی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک ذمہ دار ہمسر ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور دعوتِ دین کے فریضوں میں جو خالصتاً سماجی رول ہیں، عورتوں کوبھی شامل کیا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
والمومنون و المومنات بعضہم اولیاء بعض۔ … عزیزحکیم۔
(توبہ: ۷۱)
’’مومن مرد اور عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار و معاون) دوست ہیں۔ وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ یقینا رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ غلبہ اور حکمت والا ہے۔‘‘
اسلامی تاریخ کے روشن ادوار میں عورتوں نے اپنا یہ رول بخوبی نبھایا ہے۔ آج بھی ملیشیا، سوڈان، اور ایران میں خواتین کی سماجی فعالیت کے جو احوال اس سے قبل کے مضامین میں بیان گئے ہیںوہ بھی اسی رول کے عملی مظاہر ہیں۔
اسلام کے تصور امپاورمنٹ کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس نے عورت کو اس کے حقیقی نسوانی رول کے لیے امپاور کیا ہے۔ اسے وہ قوتیں،مواقع اور سہولتیں بخشتی ہیں جو اس رول کی ادائیگی کے لیے ضروری ہیں۔ معاشی ذمہ داریاں اس رول میں رکاوٹ ہوسکتی تھیں اس لیے اسے معاش کی فکر سے آزاد کردیا۔ معاشی آزادی ضرور بخشی لیکن کوئی معاشی ذمہ داری نہیں رکھی۔ اس کی کفالت بھی اس کے شوہر کے لیے واجب کردی۔ حتی کہ اگر وہ مالدار ہے تب بھی اس کی کفالت کا ذمہ اس کے شوہر ہی پر ہے۔ خاندان کے مستحکم ادارہ کے ذریعہ اسے تحفظ بخشا۔ حجاب کے ذریعہ اسے وقار اور سماجی تحفظ عطا کیا۔ اسے ان ذمہ داریوں سے محفوظ رکھا جو اسکے لیے دہرے بوجھ کا باعث اور اس کی نسوانی ذمہ داریوں سے متصادم ہوں۔
اس طرح اسلام کا تصور امپاورمنٹ مغرب کے تصور کے مقابلہ میں کہیں زیادہ مکمل، مطابقِ فطرت اور عورت کی نسوانی شخصیت کے حسبِ حال ہے۔ اس میں کسی طرح کی بے اعتدالی نہیں ہے۔ اس میں امپاورمنٹ کے لیے مغرب کی طرح عورت سے اس کی نسوانیت نہیں چھینی جاتی۔ اورنہ عزت و عصمت چھینی جاتی ہے۔ مغربی ماڈل میںعورت طاقتور ضرور ہوتی ہے لیکن نسوانی تشخص کی قیمت پر۔ اس کا نقصان عورت کو ذاتی طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس کاتشخص ختم ہوجاتا ہے۔ اور سوسائٹی کو اجتماعی طور پر یہ ہوتا ہے کہ بچوں کی تربیت، خاندان کا نظم و انصرام،خانہ داری وغیرہ جیسے رول ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ رولز کسی بھی صحت مند سوسائٹی کے لیے ناگزیرہیں، ان کے بغیرگھر، سرائے بن جاتے ہیں اور خاندان انتشار کا شکارہوجاتے ہیں۔ یہ صورتحال آج پوری مغربی دنیا میں پائی جاتی ہے۔ اور اس کا بنیادی سبب نسوانی رول کا خاتمہ ہے۔
یہ سادہ سی بات دنیابہت آسانی سے سمجھ سکتی تھی اگر امپاورمنٹ کا اسلامی ماڈل مسلم سوسائٹی میںعملاً نافذ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ ماڈل کتابوں میں ضرور لکھے ہیں یا تاریخ کا جز ضرور ہیں لیکن آج کی دنیا میں کہیں چلتے پھرتے نظر نہیں آتے۔ مسلم سوسائٹی روایتی قدامت پسندی اور گمراہ روشن خیالی کا ملغوبہ ہے۔ اگر آپ ہندوستان کی مثال لیں تو، یا تو یہاں مسلمان عورت کو بھی،بعض امتیازات کے استثناء کے ساتھ، قریب قریب وہی وہی مقام حاصل ہے جو روایتی ہندوسماج میں حاصل ہے۔ یا اگر گھرانہ تعلیم یافتہ اور روشن خیال ہے تو اس میں وہ ساری لعنتیں نفوذ کررہی ہیں جنھوں نے جدید مغربی سماج کو کھوکھلا کردیا ہے۔ یا تو یہ صورتحال ہے کہ عورت کی تعلیم ناپسندیدہ ہے، اس کا گھر سے باہر نکلنا معیوب ہے، اس کو صرف جہیزمل سکتا ہے، وراثت میں حصہ نہیں مل سکتا، اس کی آمدنی بھی اس کے شوہرکی آمدنی سمجھی جاتی ہے، دعوتی اور سماجی سرگرمیوں میں اس کی شمولیت کا تصور ہی نہیں ہے۔ یا پھر یہ صورتحال ہے کہ وہ بھی مغربی عورت کی طرح مردوں کی ہوس اور استحصال کا شکار ہے۔ اسے ہیروئین، ماڈل، بیوٹی کوئین، برانڈ امباسیڈر وغیرہ بن کر مردوں کی تسکین کا سامان بننا ہے۔ ان کے لیے، سیکس اپیل پیدا کرتی ہے۔ (ہمارے انگریزی پریس کی یہ اصطلاح ہی استحصال کی بدترین صورتحال کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے جس کاجدید ’لبرل‘ عورت شکار ہے) اپنے نسوانی رولز کو چھوڑ کر مردوں کی اتباع کرتی ہے۔ دفتروں اور کمپنیوں میں کیریر کی سیڑھیاں چڑھتی ہیں۔
امپاورمنٹ کے مغربی تصور کے سلسلہ میں مسلمان خواتین کو دو کام کرنے ہوں گے۔ ایک تو اس تصور پر پورے اعتماد کے ساتھ تنقید کرتے ہوئے اسلام کے تصور کی بالاتری کو ثابت کرنا ہوگا۔ یہ نظریاتی و دعوتی کام ہوگا اور سیمیناروں، خطاباتِ عام، جلسوں،ماس میڈیا اور لٹریچر و اکیڈمیکس کے ذریعہ انجام دیا جائے گا۔ اور دوسرا اہم کام یہ ہے کہ اسلام کے اس فطری تصورکی عملی شہادت کی کوششیں کی جائیں۔ مسلم سوسائٹی میں اسلام کی تعلیمات کو عملاً زندہ کیا جائے۔ اس کے لیے کچھ عملی خطوط اس سے قبل مضمون، ایک نئی تحریک نسواں کی ضرورت میں پیش کیے گئے ہیں۔ ان خطوط پر کام ہوگا تو یقینا دنیا امپاورمنٹ کے اس فطری تصور کی طرف دھیان دے گی۔