اسلام وہ دین ہے جس نے مرد و عورت کے لیے حصولِ علم کو فرض قرار دیا۔ رسولِ اکرم ﷺ کا قول ہے کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلم مرد و عورت پر فرض ہے۔ ‘‘اور فرمایا: ’’گود سے گور تک علم حاصل کرو۔ ‘‘اس معاملے میں عورت بھی مرد کی طرح عملی میدان میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاسکتی ہے۔ عورت اپنی معاشرتی اور دینی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے اس وقت تک پورا نہیں کرسکتی جب تک وہ دینی اور دنیاوی علوم سے واقف نہ ہو۔ علم انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا بیش قیمت عطیہ ہے۔ علم تاریکیوں میں روشنی کی کرن ہے۔ ایک تعلیم یافتہ لڑکی ہمارا قیمتی اثاثہ ہے، کیونکہ اگر وہ زیورِ علم سے آراستہ ہو تو قوم کے لیے عظیم لوگ تیار کرے گی۔ اگر وہ پڑھی لکھی ہو تو ایک صحت مند معاشرہ کی تشکیل کرسکے گی۔
لیکن ملت کی کوتاہیوں کا ایک المناک باب ہے کہ اس نے لڑکیوں کی تعلیم کو بڑی حد تک نظرانداز کررکھا ہے۔ والدین اس دقیانوسی سوچ کے قائل ہیں کہ’’ لڑکی ذات ہے کہاں ملازمت کروانی ہے۔‘‘ تعلیم کا مقصد ملازمت ہرگز نہیں ہے۔ تعلیم تو آگہی کے در کھولتی ہے۔ حضرت انسؓ کی ایک روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’علم حاصل کرنے والوں کی مثال ستاروں کی طرح ہے، جن سے بحر وبر کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔‘‘ ہمارے معاشرے کو سمجھنا چاہیے کہ لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ ان کی گود میں نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ ایک پڑھی لکھی ماں قوم کی رہنما ہوتی ہے۔ اگر مائیں خود تعلیم سے بے بہرہ ہوں تو وہ اپنے بچوں کی تربیت صحیح خطوط پر کیسے کرسکیں گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ملت کا تعلیمی تربیتی اور اخلاقی معیار گرتا چلا جائے گا۔ مثل مشہور ہے کہ اگر ہم ایک مرد کو تعلیم دیتے ہیں، تو ایک فرد کو تعلیم دیتے ہیں۔ اور اگر ایک عورت کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں تو پوری نسل کو تعلیم کی دولت سے مستفید کرسکتے ہیں کہ ایک پڑھی لکھی لڑکی زندگی کے ہر میدان میں اپنے خاندان اور اولاد کی صحیح رہنمائی کرسکتی ہے۔ تعلیم زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتی ہے، کامن سنس کو بڑھاتی ہے اور ہر مسئلہ کا صحیح حل ڈھونڈنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ ہماری مسلم سوسائٹی میں ہمیں آج ایسے ماڈلز کی ضرورت ہے جن سے ہم ایک تعلیم یافتہ معاشرہ کی تعمیر کرسکیں۔ تعلیم یافتہ خواتین سائنس، معاشیات، اسلامیات جیسے علوم میں دسترس پیدا کریں۔ ہماری قوم کا المیہ ہے کہ پچھلے پچاس ساٹھ سالوں میں ہم معاشرہ کوبا لا صلاحیت تعلیم یافتہ مائیں نہ دے سکے جبکہ نپولین کا مشہور مقولہ ہے کہ ’’تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں تعلیم یافتہ قوم دوں گا۔‘‘
یہ بات ہماری طالبات کے لیے بھی سمجھنے کی ہے کہ تعلیم کا مقصد ہرگز دولت کمانا اور معیارِ زندگی کو بلند کرنا نہیں ہے بلکہ سماج اور معاشرہ کے لیے ایسے باشعور شہری تیار کرنا ہے جو حالات اور زمانے کے تقاضوں کو سمجھ کر پورا کرسکیں۔ آج مسلم طالبات کے سامنے یہ بڑا چیلنج ہے کہ وہ ملک و ملت کے مطالبات اور اسلام کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے تعلیم حاصل کریں اور ان تمام مفروضوں اور اسلام پر لگائے جارہے الزامات کا بھر پور جواب دیں جو باطل طاقتیں لگارہی ہیں۔
اس وقت باشعور مسلم طالبات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اور پردے کی پابندی کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے مختلف میدانوں میں مہارت پیدا کریں اور دنیا کے سامنے یہ ثابت کردیں کہ پردہ ترقی کے راستے بند نہیں کرتا بلکہ عزم و حوصلہ اور حفاظت عطا کرتا ہے۔ ان کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار کی حفاظت کرتے ہوئے حصول علم کا فریضہ انجام دیں اور معاشرے اور حالات پر اثر انداز ہوکر دنیا میں اپنی اور اپنی اسلامی فکر کی بالادستی ثابت کردیں۔