تو آخر کار میں جس مسئلے میں ایک طویل عرصے سے تردد کا شکار تھی، اس کے سلسلے میں مجھے ایسے شواہد مل ہی گئے، جو میرے نقطہ نظر کی تصدیق کرتے ہیں۔ جب گھر سے باہر کام کے میدان میں عورت کی بات آتی ہے تو ایک آہنی شیشے کی چھت اس کی حد ہوتی ہے۔ یہاں قارئین ذرا تحمل سے کام لیں اور قبل اس کے کہ وہ مجھ پر اپنے اعتراضات کی بارش کریں اور مجھے اپنی ہی صنف کے خلاف بغاوت کا الزام دیں، مجھے اپنے بات کو واضح کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ کیریر کی بلندی تک پہنچنے کے لیے عورت کے راستے میں ایک آہنی دیوار حائل ہے اور اس دیوار کو توڑ کر ہی وہ آگے جاسکتی ہے، لیکن جدید تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ دیوار اپنی جگہ قائم ہی رہتی ہے کیونکہ بیشتر خواتین اس آہنی دیوار سے آگے بڑھنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی ہیں۔
ماہر نفسیات سوسان پنکر ( Susan Pinker) کی تازہ تصنیف “The Sexual Paradox” جس کا خلاصہ حال ہی میں سنڈے ٹائمز لندن میں شائع ہوا تھا، اس سلسلے میں روایتی اور اعصابی دونوں طرح کے شواہد پیش کرتی ہے کہ عورت کے ساتھ ایسا کیوں ہے۔ پنکر کے مطابق خواتین قدرتی طور پر جسمانی حیاتیاتی نظام کے تحت اپنے نوزائدہ بچے کی پرورش و پرداخت کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ اس نظام کے تحت عورت ان کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے جو اس کا احترام کرتے ہیں، خواتین اپنی کام کی زندگی میں سماجی مقصد کی تکمیل کے لیے اپنے نظامِ اوقات میں لچک کی طلب گار ہوتی ہیں اور جس طرح کام ان کے لیے اہمیت رکھتا ہے اسی طرح وہ ان لوگوں کی ضروریات پوری کرنا بھی ضروری اور اہم سمجھتی ہیں، جن سے وہ محبت اور دلی لگاؤ رکھتی ہیں۔
اسی لیے خواتین عام طور پر کام کے میدان میں اپنی ترقی Promotionکو بھی بسا اوقات مسترد کردیتی ہیں، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ آفس میں زیادہ طویل وقت تک کام کرکے اپنی خانگی زندگی کو متاثر کریں گی، اپنے بچوں کو صحیح مقام نہیں دے پائیں گی، اور یہ کہ اپنے آسمان کو چھولینے والے کیریر میں مشغول رہ کر وہ اپنے بچوں اور اپنے شوہر کو پس پشت ڈال دیں گی اور اگر عورت اس صورتِ حال کو قبول بھی کرلیتی ہے تو وہ دونوں اختیارات – یعنی کام اور گھر – کے درمیان تردد اور تذبذب کا شکار رہتی ہے اور اس احساس جرم سے شرم سار رہتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی ضروریات پوری نہیں کرپارہی ہے، جن سے وہ قلبی لگاؤ رکھتی ہے۔
ہماری روایتی سوچ یہ کہتی ہے کہ عورت کو ایسا صدیوں پر محیط سماجی حالات نے بنادیا ہے۔ یعنی ہماری تربیت اس انداز میں کی گئی ہے کہ ہم نے یہ یقین کرلیا کہ گھر کی دیکھ بھال ہی ہمارا بنیادی فریضہ ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی ضروریات پوری کریں جو ہمارے ارد گرد رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مردکام پر فضول وقت ضائع کرنے میں بھی کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتا لیکن اگر ہم اپنی نوکری کی وجہ سے گھر یا خاندان کو نظر انداز کرنے لگتے ہیں تو ہمیں تلخ احساس کی ٹیسیں ٹہوکے دیتی رہتی ہیں۔
پنکر کی کتاب اس سوچ کو اوندھے منہ گرا دیتی ہے۔ اعصابیاتی تحقیق کے میدان میں ہونے والے جدید سائنسی انکشافات پر اعتماد کرتے ہوئے اور متعدد خواتین کی مثالیں بیان کرتے ہوئے وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ دو صنفوں کے درمیان اس فرق کے لیے سماج کے بجائے کس طرح بائیو لوجی ذمہ دار ہے۔
پنکر کے مطابق برین امیجنگ اور نیورو اینڈ وکرینولوجی میں ہونے والے جدید مطالعوں نے یہ واضح طور پر ثابت کردیا ہے کہ ماں کا اپنے بچے کو دودھ پلانے کے رحجان کا سبب اس کی حیاتیاتی ساخت اور اس کے جسم کا حیاتیاتی نظام ہے۔ بچے کی ولادت اور دودھ پلانے کا عمل عورت کے دماغ میں ایسے ہارمون کی بوچھار سی کردیتا ہے جو عورت کو خوشی و مسرت کے جذبات سے معمور کردیتے ہیں اور اس کے لیے اپنے بچے سے گہری وابستگی کو ایک نفسیاتی لازمہ بنا دیتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب وہ اپنے بچے کو گھر پر چھوڑ کر کام پر آتی ہیں تو وہ تناؤ کاشکار کیوں ہوجاتی ہیں۔
ایک افیون جیسا ہارمون، جس کو oxytocinکہا جاتا ہے اور جو اطمینانِ قلب اور یکسوئی کے لیے اکسیر مانا جاتا ہے، اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، oxytocinنام کا یہ ہارمون جنسی مقاربت کے وقت، محبوب سے بغل گیر ہوتے وقت، بچے کو دودھ پلاتے وقت یا اس وقت بھی جسم کے اندر خارج ہونے لگتا ہے جب کسی سے محض دوستی کی پینگیں بڑھائی جارہی ہوں، یہی ہارمون عورتوں کو کسی کے تئیں اپنے تعلق خاطر کو پروان چڑھانے میں مدد کرتا ہے اور دوسروں کے جذبات کو پڑھنے اور ان پر اعتماد اور بھروسا کرنے میں معاون ہوتا ہے۔
میں کہنا یہ چاہتی ہوں کہ ان تمام حقائق نے مجھے اس قابل بنادیا ہے کہ میں خود کو تردد کی کیفیت سے باہر نکال کر ہلکا پھلکا محسوس کررہی ہوں۔ ایک طویل عرصے سے میں یہ سمجھنے کے لیے سرگرداں تھی کہ میں کس الجھن کا شکار ہوں۔ کیا وجہ تھی کہ انتہائی ’’اہم‘‘ کام کے مواقع نے مجھے کبھی بھی متوجہ نہیں کیا۔ کیا وہ کوئی جذباتی چپ Ambitious Chip تھی جو میری ذہنی ساخت سے اب تک غائب تھی؟ اپنے طور پر منتخب کیے ہوئے کام میں مزید آگے تک جانے کا رجحان میرے اندر کیوں پیدا نہیں ہوا؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ میرے اندر اس رجحان کے موجود نہ ہونے پر مجھے کبھی افسوس کیوں نہیں ہوا؟
صحافت کے میدان میں ایک نووارد کی حیثیت سے پہلے ایک نیوز میگزین کے لیے اور بعد میں ایک اخبار کے لیے ایڈیٹر کی میز پر کام کرتے ہوئے میں نے خود کو قابلِ رشک حالت کے بجائے رنج اور افسوس کی حالت میں ہی محسوس کیا۔ کسی کیریر کی بلندی پر پہنچنے کا مطلب اگر 24×7 (یعنی ہفتہ بھر اور ۲۴ گھنٹے) کی زنجیر سے بندھ جانا اور خود اپنے ہی بچوں کے لیے اجنبی بن جانا، اور آفس سے باہر کی زندگی کا تصور ہی نہ ہونا ہو تو اس کا کیا فائدہ؟
میں کبھی اس نکتے کو پا نہیں نہیں سکی تھی، اور ابھی بھی نہیں پاسکتی ہوں۔ لیکن میں یہ جانتی ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟ تاہم ہوسکتا ہے کہ یہ خیال حقوق نسواں کے شدت پسند حامیوں کو اٹ پٹا لگے لیکن اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے مختلف بنائے گئے ہیں۔ دونوں زندگی کو الگ انداز سے دیکھتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ زندگی میں دونوں کی خواہشات اور طلب الگ الگ ہیں۔ آپ کسی مرد کو مشکل ہی سے یہ شکایت کرتے پائیں گے کہ وہ اپنے آفس سے بہت ہی کم وقت اپنے گھر والوں کے لیے بچا پاتا ہے۔ لیکن مجھے کوئی ایسی عورت دکھائیے جو اپنے کیریر اور کام کے لیے وقف ہو اور اپنا زیادہ وقت گھر سے باہر گزارنے پر مجرمانہ احساس سے مغلوب نہ ہو۔ میں اس بات پر اپنے آخری پیسے تک کی بازی لگاسکتی ہوں کہ اگر ایسی کوئی عورت ہے تو وہ یا تو مجرد، غیر شادی شدہ ہوگی یا ابھی اس کا کوئی بچہ نہیں ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ خاندان سے وابستہ ہونا، بچوں کو جنم دینا، عورتوں کو یکسر تبدیل کردیتا ہے، یہ چیزیں واقع ہوتے ہی اچانک ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ کارپوریٹ کی سیڑھیاں طے کرنا ایک رخی ذہن رکھنے والے شخص کے بس کا تو ہوسکتا ہے اور ایسا وہی کرسکتا ہے جس کے اندر اس کے علاوہ باقی چیزوں کو بھلا دینے کی صلاحیت ہو، لیکن ایک بار آپ کے بچے ہوجائیں تو پھر ایسا کرنا آپ کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ یہ وہ چیز بھی نہیں ہے جو آپ واقعی کرنا چاہتی ہیں۔
اس لیے یہ بالکل درست ہے کہ اس مقام پر عورت کے لیے آہنی دیوار حائل ہے۔ لیکن بیشتر معاملات میں اس دیوار کو حائل کرنے میں ہی عورتیں خوشی اور اطمینان و سکون محسوس کرتی ہیں۔
tanveerafaqui@gmail.com