دعوت اسلامی کے فریضہ کی ادائیگی اور معاشرہ میں اسلام پھیلانے کی ذمہ داری کوئی نفلی اور اضافی کام نہیں کہ اسے زندگی کے عملی گوشوں میں دوسرے اور تیسرے درجہ کی ترجیحات میں شامل کیا جائے یا اسے اپنی زندگی سے فرض کفایہ سمجھ کر خارج کرڈالا جائے۔ جس طرح نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور اللہ کے رسول کی اتباع کے مواقع تلاش کرنا انسان کی ذمہ داری ہے، ٹھیک اسی طرح لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا بھی فرض ہے۔ پھر یہ فرض صرف مسلم معاشرے کے مردوں ہی کا نہیں ہے بلکہ مسلم سماج کے مردوں اور عورتوں کی یکساں ذمہ داری ہے۔ ایسی ذمہ داری جس کی ادائیگی کے بغیر اخروی نجات کا تصور خامہ خیالی ہی کہا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو بہت واضح انداز میں بیان کردیا ہے:
المؤمنون والمؤمنات بعضہم اولیاء بعض یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر ویقیمون الصلوٰۃ و یؤتون الزکوٰۃ ویطیعون اللّٰہ و رسولہ۔ اولئک سیرحمہم اللّٰہ۔ (توبہ: ۷۱)
’’مومن مرد اور مومن عورتیں (یہ سب) ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوگی۔‘‘
لیکن امت مسلمہ کے ساتھ یہ افسوسناک حقیقت وابستہ ہوگئی کہ اس کے اندر اس فریضہ کی ضرورت اہمیت اور اخروی نجات سے اس کی گہرا تعلق نہ صرف کمزور ہوگیا ہے بلکہ ختم ہوگیا ہے۔ امت کی اکثریت اس سے غافل اور جو لوگ بھی وابستہ ہیں ان کے اندر اس بات کا شعور یا تو سرے سے ہے ہی نہیں یا بہت معمولی ہے کہ خواتین بھی اس فریضہ کی ادائیگی میں برابر کی شریک ہیں اور ان کی فلاح آخرت کے لیے بھی اس فریضہ کی ادائیگی اسی طرح لازم ہے جس طرح مردوں کے لیے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں اسلام کی دعوت اور تحریک اسلامی سے وابستہ افراد اس عظیم تحریک دعوت تبلیغ میں اپنے گھروں اور اپنی خواتین کو شریک کرنے کی طرف یا توجہ نہیں دیتے یا اس میدان میں ناکام ہوگئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ان کا یہ تصور ہے کہ یہ کام صرف مردوں کا کام ہے اور دوسری وجہ ان افراد اور تحریکات کا اس سمت میں خاطر خواہ توجہ نہ دینا ہے۔
تجربہ اور مشاہدہ اس بات کی تائید کرتے ہیں، جن جن تحریکات نے بڑے پیمانے پر سماج اور معاشرہ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں یا معاشرہ کو اسلامی زندگی گزارنے کی طرف لانے میں کامیابی حاصل کی ہے، اس میں کلیدی رول خواتین کا رول ہے جنھوں نے اس تبدیلی کو حقیقی تبدیلی بنایا اور اپنے گھروں اور اپنے آل اولاد کے اندر اس فکر کو راسخ کیا جسے اسلامی فکر کہا جاتا ہے۔
کم از کم ہندوستان کی سطح پر تو ہر صاحب نظر اس بات کو دیکھ اور محسوس کرسکتا ہے کہ ہندوستانی مسلم معاشرہ کی خواتین ابھی دعوتی تحریک کا حصہ یا تو بن ہی نہیں سکی ہیں یا ان کی شمولیت برائے نام ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ دعوت اسلامی کا میدان ابھی تک خواتین کی شمولیت سے خالی ہے۔ اور کیا ہم نصف انسانیت کو اس میدان میں شریک کیے بغیر یا بالفاظ دیگر نصف انسانیت کے اس کارِ عظیم میں شامل ہوئے بغیر سماج و معاشرہ کو اسلامی خطوط پر تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہ سوال جہاں مختلف اسلامی تحریکات سے کیا جاسکتا ہے وہیں براہِ راست ان مسلم خواتین سے بھی ہونا چاہیے جو اسلامی انقلاب کا خواب تو آنکھوں میں سجا کر زندگی گزار رہی ہیں مگر ابھی تک اس انقلابی جدوجہد کا حصہ بننے کی ہمت اور حوصلہ نہیں جمع کرپارہی ہیں۔ ان کی خواہش اورجذبات کا ساتھ ان کی عملی جدوجہد کیوں نہیں دے پارہی ہے اور وہ سماجی و معاشرتی تبدیلی میں انقلابی رول کیوں ادا نہیں کرپارہی ہیں۔
ہمارے ان سوالوں کا رخ پوری طرح ان خواتین کی طرف ہے جو اللہ کے فضل و کرم سے تعلیم یافتہ بھی ہیں اور دعوت اسلامی کی ضرورت، اہمیت اور فلاح اخروی سے اس کی وابستگی کا شعور بھی رکھتی ہیں۔ ان کے سامنے قرآن و سنت کی ہدایات بھی ہیں اور عہدِ رسالت کی خواتین کی زندگی کے نمونے بھی ہیں۔ وہ سماج و معاشرے کو بدلنے کی خواہش بھی رکھتی ہیں اور عملی جدوجہد کا جذبہ بھی ان کے اندر ہے۔ وہ خود بھی اسلامی زندگی گزارنا چاہتی ہیں اور دوسروں کے لیے بھی اسی طرزِ زندگی کو پسند کرتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری خواتین کا تمام تر علم و شعور، جذبہ اور خواہشیں اور تمنائیں ابھی تک انہیں دعوت دین کی اس تڑپ اور بے چینی سے ہم کنار نہیں کرسکی ہیں جو زندگی کے خاموش دھارے کو بہتے طوفانی دریا کی طرح بنادے۔ انقلابیت کی آگ ان کے جسم و روح میں بھردے اور جمود کی کیفیت سے نکال کر حرکت و عمل کے میدان میں انہیں لاکھڑا کرے۔
یہ دور خواتین کی تحریکات اور ان کے حرکت و عمل کا دور ہے۔ اور باطل قوتوں نے بڑی ہوشیاری اور چابک دستی کے ساتھ خواتین کی اس عظیم قوت کا استعمال کیا اور کررہی ہیں۔ جس طرف نظر اٹھائیے خواتین تحریکات جوشِ عمل سے سرشار اور انقلابی جذبات سے بھری میدان کارزار میں موجود ہیں مگر یہ وہ تحریکات ہیں جو معاشرے میں قائم اقدار و روایات کو تہ و بالا کرنے میں مصروف ہیں اور ان کے ذریعہ سماج ایک نئی کشمکش اور نئے قسم کے مسائل سے دوچار ہورہا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو مسائل کے حل کے طور پر سامنے آرہے ہیں مگر اور زیادہ پیچیدہ اور مشکل حالات پیدا کررہے ہیں۔ اس صورتِ حال نے نظریاتی سطح پر ایک عجیب و غریب بحرانی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اور اس تبدیلی کے مضر انسانیت اثرات کو دیکھ کر لوگوں کے دلوں میں ایک نئی تبدیلی کی خواہش انگڑائی لے رہی ہے۔
فلمی پردوں پر آکر لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دل کی دھڑکن بن جانے والی ہیروئنس اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہوکر خود کشی کیوں کررہی ہیں؟ صنعت و تجارت اور نظم و انتظام کے شعبوں میں اعلیٰ مناسب رکھنے والی اور دولت کے ڈھیر کمانے والی عورتیں بھی اپنی زندگی سے غیر مطمئن کیوں ہیں؟ خاندان کیوں بکھر رہے ہیں؟ رشتہ ناطے کیوں کمزور پڑرہے ہیں اور بچے کیوں محروم بن رہے ہیں؟ خود کشی، خواتین پر ظلم و جبر اور ان کے خلاف جرائم کی وارداتوں کا گراف کیوں آسمان چھو رہا ہے؟
یہ محض سوالات نہیں بلکہ مسلم خواتین اور اسلام پسند حلقوں کے لیے چیلنج اور دعوتِ اسلامی کے صدر دروازے ہیں جو حالات نے آپ کے اور ہمارے لیے کھولے ہیں۔ اور ان سے گزر کر ہم جس دروازے پر بھی دستک دیں گے وہ ہمارا استقبال کرے گا۔ مشرق کی دنیا ہو یا مغرب کی روشن ترین اور آزاد ہندوستان ہو یا مصر اور ترکی جیسے مسلم ممالک ہر جگہ خواتین کی صورت نتائج کے اعتبار سے یکساں ہے۔ مسائل مشترک ہیں اور حالت ایک جیسی۔
اور جہاں بھی اسلام پسند خواتین آگے بڑھ رہی ہیں کامیابی ان کے قدم چوم رہی ہے۔ ہمارے وطن عزیز ہندوستان ہیں بھی کروڑوں خواتین اسلام پسند خواتین کے حرکت و عمل کے انتظار میں ہیں۔ مگر شاید ابھی وہ وقت دور ہے جب یہاں کی اسلام پسند خواتین بھی ہم وطن خواتین نجات دہندہ کے طور پر اٹھیں گی اور انہیں اس عذاب جان و روح حالا ت سے نکالیں گی جس میں جدیدیت کے فریب اور آزادی نسواں کے نعروں نے انہیں مبتلا کردیا ہے۔
ہماری خواتین کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حالات جن کے تاریک ہونے کا ہمیں مکمل احساس ہے او رہم اس پر شکوہ سنج بھی ہیں دراصل دعوت اسلامی کا وہ میدان ہیں جس سے فائدہ اٹھانا ہمارے لیے مقید بھی ہے اور ضروری ہے۔ہمیں اس حقیقت کا بھی خیال ہونا چاہیے کہ ہم اپنی نسلوں کو برائیوں کے طوفان سے اس وقت محفوظ نہیں رکھ سکتے جب تک اس سماج کی اصلاح نہیں کرلیتے جس میں وہ رہتے بستے ہیں۔ اپنے پڑوس کے گھر اور ان کے بچوں کی اصلاح کی فکر کے بغیر اور ان اداروں میں اعلیٰ قدروں کو پروان چڑھانے کے سوچ کی بغیر جن میں وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں، اپنی اولاد کی صالح تربیت میں شاید کامیاب نہ ہوسکیں۔ ہمیں اس حقیقت کو بھی ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ خواتین اسلام کی حرکت و عمل اور میدان دعوت میں حصہ داری کے بغیر سماج میں کوئی تبدیل ممکن نہ ہوگی اور اگر کسی طرح ہوبھی گئی تو وہ محض عارضی، وقتی اور ظاہری تبدیلی ہوگی جو کچے رنگ کی طرح بارش کی بوچھاڑ سے دھل جائے گی۔