عورت اور کاملیت

عبدالحلیم ابو شقہ

حضرت ابو موسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مردوں میں بہت سے لوگ کامل ہوئے اور عورتوں میں صرف فرعون کی بیوی آسیہ اور عمران کی بیٹی مریم کامل ہوئیں۔ (بخاری و مسلم)

اس حدیث میں عہد رسالت سے پہلے زمانے کا تذکرہ ہے۔ آپؐ نے اپنے دور کی خواتین سے متعلق نہیں فرمایا ہے… قرطبی کہتے ہیں: صحیح یہی ہے کہ حضرت مریم نبی تھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کے ذریعہ ان پر وحی نازل کی تھی۔ (عیاض کہتے ہیں: جمہور اس کے خلاف ہیں۔) آسیہ کی نبوت سے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ کرمانی کہتے ہیں: کمال کے لفظ سے نبوت کا اثبات لازم نہیں آتا۔ اس لیے کہ کمال کسی بھی چیز کے مکمل اور اپنے میدان میں پورا اترنے کو کہتے ہیں لہٰذا مراد خواتین کی تمام خوبیوں کے اندر انتہائی درجہ پر فائز ہونا ہے۔ عورتوں کی عدم نبوت پر اجماع نقل کیا گیا ہے۔ اشعری سے منقول ہے کہ جو عورتیں نبی ہوئیں ہیں وہ چھ ہیں: حوا، سارہ، والدئہ موسی، ہاجرہ، آسیہ اور مریم۔ ان کے نزدیک ضابطہ یہ ہے کہ جس کے پاس بھی کوئی فرشتہ اللہ کی جانب سے کسی حکم یا ممانعت یا پیش آنے والے واقعہ کی اطلاع لے کر آیا ہو، وہ نبی ہے اور ان خواتین کے پاس اللہ کی جانب سے مختلف احکامات لے کر فرشتہ کا آنا ثابت ہے۔ ان میں سے بعض کی جانب وحی کئے جانے کی صراحت بھی قرآن میں آئی ہے۔

یہ ہے فرمانِ نبویؐ اور یہ ہیں ہمارے ائمہ اسلام کی آراء، جنھوں نے ہمارے اس دور … آزادیٔ نسواں… کو نہیں دیکھا۔ وہ ائمہ جو اپنے نبی کی راہ کے مسافر تھے، اپنے دور کی جاہلیت سے دور تھے اور صدیوں کی ان خرافات نے انھیں شکست خوردہ نہیں بنایا تھا، جنھوں نے عورت کے مرتبہ کو گھٹایا اور اس کی حق تلفی کی۔ ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ عورت بلندی کے کس مقام تک پہنچ سکتی ہے۔ عورت کی نبوت کا معاملہ تو علماء کرام کے درمیان اختلافی ہے۔ لیکن اس کے ولیہ، صدیقہ اور شہیدہ ہونے پر اتفاق ہے۔ یہ حدیث درج ذیل امور کی جانب ہماری توجہ مبذول کرتی ہے:

اول: کمال کی فطری صلاحیت مرد اور عورت دونوں کے اندر موجود ہے۔ کمال نہ تو عورت کے لیے ناممکن ہے اور نہ مرد کے ساتھ مخصوص ہے۔ جب کمال تک رسائی ممکن ہے تو کمال کی راہ میں مختلف درجات پر فائز ہونا زیادہ ہی امکان رکھتا ہے۔

دوم: اگر کمال تک رسائی فطرت کے ذریعہ ممکن ہے تو تربیت و رہنمائی اور جہدو کاوش کے ذریعہ اس کے احتمالات کا امکان اور زیادہ بڑھ جاتا ہے جیسا کہ مردوں کے ساتھ معاملہ ہے۔ چنانچہ کمال کی حصولیابی کے لیے عورت کی کاوش کی جانب بھی توجہ دی جائے۔ تربیت و رہنمائی کے ساتھ ان تمام میدانوں کے دروازے وا کردئے جائیں جن سے عورت کی صلاحیتیں پروان چڑھتی اور ان کی فطری خوبیاں جلا پاتی ہیں۔

سوم: جب کمال کی فطری صلاحیت عورت کے اندر موجود ہے تو کامل ہونے والی عورتوں کی قلت تعداد کے مختلف احتمالات ہوسکتے ہیں: مثلاً فکری استعداد کی کمی، تربیت و رہنمائی کی کمی۔ تربیت و رہنمائی کی اس کمی کی وجہ کبھی تو ذمہ داران تربیت و رہنمائی کی کوتاہی ہوتی ہے اور کبھی عورت کے مخصوص حالات کا دباؤ۔ یعنی حمل و ولادت، رضاعت و پرورش اور ان جیسی اندرون خانہ سرگرمیوں ہی میں اس کی تمام تر طاقتیں صرف ہوجاتی ہیں۔ علم و عبادت سے فیضیاب ہونے اور تربیت و رہنمائی کے مواقع سے مستفید ہونے کے لیے کوئی وقت ہی باقی نہیں رہتا ہے۔ بہر حال یہ تو ضروری ہے کہ رہنمائی کے مواقع فراہم کرنے میں بھی مرد کے ساتھ عورت کو برابر کا درجہ دیا جائے اور یہ مواقع وقت، جگہ اور اسلوب میں عورت کے حالات سے ہم آہنگ ہوں۔ کیونکہ بیشتر نظام صرف مردوں کی رعایت کی بنیاد پر بنتے ہیں۔ عورتوں کے حالات کی رعایت ان میں نہیں رکھی جاتی۔

چہارم: ایک سوال شدت سے پیدا ہوتا ہے! کیا حدیث شریف میں مذکور کمال سے مراد معروف و نمایاں اور مشہور کمال ہے، یعنی مردوں میں سے بہت سے تو مشہور ہوئے اور عورتوں میں صرف فلاں فلاں مشہور ہوئیں…؟ قرآن کریم میں مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کی مثالیں بھی اس سوال کو مزید طاقت پہنچاتی ہیں۔

وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتاً فِیْ الْجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔ وَ مَرْیَمَ ابْنَۃَ عِمْرَانَ الَّتِیْ أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہٖ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِکَلِمَاتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتْ مِنَ الْقَانِتِیْنَ۔ (التحریم:۱۱،۱۲)

’’اور اللہ ان لوگوں کے لیے جو مومن ہیں، مثال بیان کرتا ہے فرعون کی بیوی کی جب کہ انھوں نے دعا کی کہ اے پروردگار میرے واسطے جنت میں اپنے قرب میں مکان بنادے اور مجھ کو فرعون اور اس کے عمل (کے اثر) سے بچادے اور مجھے ظالم لوگوں سے بھی بچادے اور (دوسری مثال بیان کرتا ہے) مریم بنت عمران کی جنھوں نے اپنے ناموس کو محفوظ رکھا تو ہم نے ان (کے چاک گریبان) میں اپنی روح پھونک دی اور انھوں نے اپنے پروردگار کے پیاموں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھیں۔‘‘

پنجم: اگر عورتوں کا کمال عمومی میدانوں میں کم ہے یعنی جن میدانوں میں مرد شریک ہوتے ہیں جیسے عبادت، تعلیم، دعوت اور جہاد اور اسی لیے بہت سے مرد کمال کے ساتھ مشہور ہوئے ہیں، لیکن کم ہی عورتیں مشہور ہوئی ہیں، تو مخصوص نسوانی میدانوں میں جیسے رضاعت، پرورش، شوہر کی دیکھ ریکھ، بچوں کی تربیت وغیرہ متعدد سرگرمیوں میں عورتوں کا کمال بے شمار ہے۔ یہ وہ میدان ہیں جو مخفی اور لوگوں کی نگاہوں اور تذکروں سے دور ہوتے ہیں۔ لہٰذا عورت کی مثال ایک گمنام فوجی کی ہے جس طرح گمنام فوجیوں میں مختلف قرابت والے، کوئی متوسط، کوئی اچھا اور کوئی ممتاز ہوتے ہیں اسی طرح عورتیں بھی اپنے خاندان میں خوبیوں کے مختلف درجات پر فائز ہوتی ہیں اور بہت ساری خواتین درجۂ کمال تک بھی پہنچتی ہیں۔ جو قومیں ترقی یافتہ ہوتی ہیں، مشہور سپہ سالار کے مقابلہ گمنام فوجی کی زیادہ قدروعزت کرتی ہیں۔ گمنام فوجی کی عزت افزائی جہاں ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کسی کی تعریف کے انتظار کے بغیر خموشی کے ساتھ اس نے اپنا کام کیا اور قربانی دی۔ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ گمنام فوجی پوری امت کی قربانی، امت کی شخصیت کی قوت، امت کی عظمت اور امت کے شرف کی علامت ہوتا ہے۔ خاتون اکثر حالات میں بلکہ بیشتر حالات میں گمنام فوجی ہوتی ہے اور کمتر اوقات میں معروف ہوتی ہے اور انتہائی نادر حالات میں کسی بلند مقام پر فائز و مشہور ہوتی ہے۔

ششم: یہ حدیث عورت کو طلب کمال کے لیے مہمیز کرتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ عورتیں بھی کامل ہوں۔ ناقصات عقل و دین والی حدیث بھی عورت کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ وہ اپنے گھر کی بہترین نگہداشت کے ساتھ گردوپیش کی دنیا سے دلچسپی کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرکے اس نقص کی تلافی کرے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے۔ عورت کو حیض و نفاس کے ذریعہ اس نے آزمایا ہے، ان دونوں کی وجہ سے عبادت کی کمی پر عورت کو صبر اور دوسرے کام کی کوشش کرنی چاہیے۔ حمل و ولادت و رضاعت و پرورش کے ذریعہ اللہ نے اسے آزمایا ہے، جن کی وجہ سے بیرون خانہ سے اس کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے۔ اسے چاہیے کہ بیرون خانہ سے دلچسپی کے سلسلہ میں زیادہ کوشش صرف کرکے اس نقص کی تلافی کرے، ساتھ ہی گھر کی بہترین نگہداشت بھی رکھے تاکہ عقل و شعور میں پختگی پیدا ہو۔ اللہ نے اسے جذبات کی شدت اور سخت انفعالی کیفیت سے آزمایا ہے۔ اسے چاہیے کہ شوہر کی بہترین رفاقت اور شکرانہ نعمت سے وابستہ رہے تاکہ جہنم سے گلو خلاصی کی مستحق ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بار نہیں ڈالتا۔

ہفتم: اگر سابقہ امتوں میں کم عورتیں کامل ہوسکتی ہیں تو کیا ہمارا حق یا ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ امت محمدیہ میں کامل عورتوں کی کثرت تعداد کے لیے کوشش کریں؟ رسول اللہ ﷺ کے پیروکار قیامت کے دن دوسرے انبیاء کے پیروکاروں سے زیادہ ہوں گے اور آپؐ ہمارے ذریعہ دوسری امتوں پر فخر کریں گے۔ آپؐ کی ذات دونوں عالم کے لیے رحمت تھی اور آپؐ ایک مکمل پیغام لے کر تشریف لائے تھے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146