زندگی میں ہر انسان کو ایک کردار ادا کرنا ٖپڑتاہے اور اس کردار کو اسے خود ہی انجام دینا ہے ، کوئی دوسرا اس کایہ کردار ادا نہیں کرسکتا۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
’’تم میں کا ہر شخص نگراں ہے ، اور ہر نگراں اپنے زیر نگرانی لوگوں کے تعلق سے جواب دہ ہے۔ امیر اپنے مامورین کا نگراں ہے، مرداپنے اہل خانہ کا نگراں ہے، عورت اپنے شوہر کے گھراور اس کے بچوں کی نگراں ہے اور تم میںسے ہر شخص اپنے زیرنگرانی لوگوں کے تعلق سے جواب دہ ہے۔‘‘
(بخاری،حدیث:۸۹۳،۲۴۰۹/مسلم،حدیث: ۱۸۲۹)
اسلام میں عورتیں مرد کے ہم پلہ ہیں۔جو حقوق مردوں کو حاصل ہیں وہ عورتوں کو بھی حاصل ہیں، جو فرائض مردوں پر عائد ہیں وہ عورتوں پر بھی عائد ہیں الا ّیہ کہ کسی معاملے کا تعلق عورت یا مرد کے لیے خاص ہو تو اس میں دونوں کے لیے احکام الگ الگ ہیں۔اللہ تعالی نے مرد اور عورت کے درمیان اس مساوات کو اس طرح بیان کیا ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِیْنَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِیْنَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کثیراً وَالذَّاکِرَاتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْراً عَظِیْماً ۔ (الاحزاب: ۳۵)
’’بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں، پاکباز مرد اور پاکباز عورتیں ، صادق مرد اور صادق عورتیں ، صابر مرد اور صابر عورتیں، اللہ سے ڈرنے والے مرد اور عورتیں، صدقہ کرنے والے مرد اور عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اور عورتیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں ، ان سب کے لیے اللہ تعالی نے بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اس ایک آیت کے علاوہ بھی بہت سی آیات اور احادیث شریفہ میں مرد اور عورت کے درمیان مساوات کا ثبوت ملتا ہے۔
اسلام میں عورت کو عزت وتکریم سے نوازا گیا ہے بلکہ عزت وتکریم کا جو مقام عورت کو اسلام میں دیا گیا ہے وہ کسی دوسری شریعت یا مذہب میں اس کو حاصل ہی نہیں ہے۔کیوں کہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی شریعت کا جومقام و مرتبہ ہے اس مقام تک انسان کی خواہشیں اور دنیاوی قوانین پہنچ ہی نہیں سکتے۔
روایت حدیث
عورتوں کو اللہ کے رسول ﷺ سے احادیث روایت کرنے کے سلسلے میں ایک خاص مقام حاصل تھااور ان سے اتنی احادیث مروی ہیں کہ صحابہ کرام نے دین اور احکام کے معاملے میں بہت سی احادیث ان خواتین ہی سے روایت کی ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے محبوب شوہر یعنی اللہ کے رسول ﷺ سے دوہزا دوسو دس (۲۲۱۰) احادیث روایت کی ہیں۔ام المونین حضرت ام سلمہؓ نے تین سو اٹھہتر(۳۷۸) احادیث روایت کی ہیں۔حضرت ام سلمہ ؓ کی رائے بھی ٹھوس اور وزن دار ہوا کرتی تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ کی یہی زوجہ مطہرہ تھیں جن کے مشورے پر آپؐ نے حدیبیہ کے موقع پر اپنے سر کے بال مونڈ کر قربانی کی تو تمام صحابہ بھی قربانی کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے کی عورت کے اندر علم اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ اورشوق بھی خوب تھا۔حضرت اسما بنت یزید بن سکن ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک روز وہ اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اس وقت آپؐ صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرما تھے۔حضرت اسما آئیں اور کہنے لگیں: ’’ اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں عورتوں کی نمائندہ بن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں۔ اللہ تعالی نے آپ کو مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا ہے۔ہم آپ پراور آپ کے معبود پر ایمان لے آئے۔لیکن ہم —عورتیں —آپ مردوں کے گھر کی چار دیواریوں کے اندر رہتی ہیں، آپ لوگوں کی خواہشات پوری کرتی ہیں، آپ کے بچوں کا بوجھ برداشت کرتی ہیں، لیکن آپ لوگوں —مرد وں—کو جمعہ اوراجتماعی کاموں میں ہم پر فضیلت دے دی گئی ہے، آپ لوگ بیماروں کی عیادت کے لیے جاسکتے ہیں، جنازے میں شرکت کر سکتے ہیں،حج کے لیے جاسکتے ہیںاور سب سے افضل عمل یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کے معاملے میں آپ مردوں کو ہم عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔جب آپ میں سے کوئی شخص حج یاجہاد کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو ہم آپ لوگوں کے مال و املاک کی حفاظت کرتی ہیں، آپ کے لیے کپڑا تیار کرتی ہیں، آپ کے بچوں کی پرورش کرتی ہیں، تو کیا یہ سارے کام کرکے ہم آپ لوگوں کے اجر میں شامل نہیںہو سکتیں؟‘‘
یہ سن کر اللہ کے رسول ﷺ صحابہ کرام کی جانب اس طرح متوجہ ہوئے کہ چہرہ مبارک پوری طرح سے صحابہ کرام کی طرف کرلیا اور فرمایا: ’’ کیا تم نے اس سے پہلے کسی عورت کی زبان سے اتنی اچھی گفتگو سنی ہے کہ اس نے اپنے دینی معاملات کے تعلق سے اس طرح کے سوالات کیے ہوں؟‘‘
صحابہ کرام نے جواب دیا: ہمارے خیال میں بھی نہیں تھا کہ ایک عورت اس قسم کے معاملات میں ہدایت اور رہنمائی کی طالب ہوگی۔‘‘اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ اس خاتون کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے خاتون ، اچھی طرح سمجھ لو اور جن عورتوں کی نمائندہ بن کر تم آئی ہو انھیں بھی بتا دو کہ شوہر کے ساتھ معالات کو اچھی طرح انجام دینے ، اپنے شوہر کی خوشی اور رضامندی کی طالب رہنے ، اس کی اتباع اور اس کی موافقت کرنے کی صورت میں تمہارے لیے بھی وہی اجر ہے جو مرد کے لیے ہے۔‘‘ یہ سن حضرت اسما خوشی خوشی واپس چلی گئیں۔انہی حضرت اسما بنت یزید نے اللہ کے رسول ؐ سے اکیاسی (۸۱) حدیثیں روایت کی ہیں اور صحابہ کی بڑی تعداد نے ان سے احادیث روایت کی ہیں۔یہی اسما بنت یزید غزوہ یرموک میں بھی شریک ہوئیں اور نو عدد رومیوںکو اپنے ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتارا۔
تعلیم ابنائے مسلمین
جن صحابیات نے اللہ کے رسول ﷺ سے حدیث کی صورت میں علم حاصل کیا اور پھر ان احادیث کو روایت بھی کیا ، ان کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ ان خواتین صحابیات نے یہ بھی اہتمام کیا کہ جو کچھ علم ان کے پاس تھا اپنے اور دوسرے مسلمان بچوں کو بھی سکھایا۔اپنے دینی معاملات کو درست کرنے کے لیے وہ اللہ کے رسولؐ سے پوچھتی رہتی تھیں۔ حضرت ابن عباس ؓ حضرت بریرہ اور ان کے شوہر کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ؐ نے حضرت بریرہ ؓ سے فرمایا کہ ’’کاش تم اپنے شوہر کے پاس واپس چلی جاتیں۔‘‘ حضرت بریرہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول کیا یہ آپ کا حکم مبارک ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا نہیں میں صرف مشورہ دے رہا ہوں یا یہ کہ تمھارے شوہر کی طرف سے سفارش کر رہا ہوں۔ اس پر حضرت بریرہ نے عرض کیاکہ مجھے ان کے پاس واپس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔یعنی جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ آپؐ کا یہ ارشاد بطور حکم نہیں بلکہ بطور سفارش ہے تو انھوں نے اپنے شوہر کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ لیکن اگر آپ کا یہ ارشاد بطور حکم ہوتا تو خواہ حضرت بریرہؓ کا ارادہ نہ ہوتا لیکن وہ بلا چوں وچرا اپنے شوہر کے پاس واپس چلی جاتیں۔
حضرت اسما بنت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس ان کی کافر والدہ آتی ہیں تو وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتی ہیں۔ایک روز انھوں نے اللہ کے رسول ؐ سے پوچھا: ’’میرے پاس میری والدہ آتی ہیں اور میرے ساتھ محبت سے پیش آتی ہیں کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں اپنی امی کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرو۔‘‘(بخاری:۲۶۲۰، ۳۱۸۳/مسلم: ۱۰۰۳)
جزیرہ عرب کے کونے کونے سے لوگ مسلمان ہو کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو رہے تھے اور مقصد یہ تھا آپؐ کے ساتھ حج کی سعادت سے فیض یاب ہوں گے۔ مدینہ کے قریب ’روحاء‘ کے مقام پر آپؐ کو مسلمانوں کاایک قافلہ ملا ۔ اہل قافلہ نے اس سے پہلے تک اللہ کے رسول کو دیکھا نہیں تھااور آپ کو دیکھے بغیر صرف آپؐ کی تعلیمات سن کر ایمان لائے تھے اس لیے دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کو نہ پہچان سکا۔ اللہ کے رسول ؐ نے قافلے سے پوچھاکہ’’ آپ لوگوں کاتعلق کس قوم سے ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں۔ پھر انھوں نے آپؐ سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپؐ نے جواب دیا : ’’ میں اللہ کا رسول ہوں۔‘‘ یہ سن کر ایک خاتون نے اپنے چھوٹے سے بچے کوہاتھوں پر اٹھائے ہوئے آپؐکے سامنے کیا اور پوچھا کہ کیا اس کا بھی حج ہوگا۔آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں اس کا بھی حج ہوگا اور اس کا اجر تمھیں بھی ملے گا۔‘‘اس عورت کا سوال اور آپ ؐ کا جواب اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو بچپن ہی سے مناسک حج سے مانوس کرنا شروع کردیں تاکہ بڑے ہوکر وہ ان پر ثابت قدمی کے ساتھ عمل کرسکیں۔
حضرت فاطمہ بنت قیس ؓ سے دو لوگ نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ ایک ابوالجہم اور دوسرے معاویہ۔حضرت فاطمہ بنت قیس پریشان ہوجاتی ہیں اور فیصلہ نہیں کرپاتیں کہ نکاح کے لیے دونوں میں کس کو منتخب کریں؟ وہ دونوں کے متعلق جاننے کے لیے اللہ کے رسولؐ کے پاس جاتی ہیںاور آپؐ سے پوچھتی ہیں۔انھوں نے اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: ’’ابوالجہم بھی مجھ سے نکاح کرنا چاہتے ہیںاور معاویہ بھی۔‘‘ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں پائیں۔معلم و مخلص انسانیت جانتے تھے کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ اس لیے آپؐ نے فرمایا: ’’معاویہ کا جہاں تک تعلق ہے وہ مفلس آدمی ہیں ان کے پاس مال و دولت نہیں ہے۔ اور ابوالجہم کا ڈنڈا ہمیشہ کندھے پر دھرا رہتا ہے۔ وہ عورتوں کو بہت مارتے ہیں۔‘‘(مسلم ، حدیث: ۱۴۸۰)دونوں کے تعلق سے آپؐنے نمایاں خصوصیات بتا دیںکہ دونوں میں سے جس کو چاہیں بحیثیت شوہر کے پسند کرلیں۔ پھر آپ نے ان کو یہ مشورہ بھی دیا کہ اسامہ بن زید سے نکاح کرلیں۔
ام المومنیں حضرت زینب ؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک روز نبی اکرمؐ گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور فرمانے لگے: ’’لا الہ الا اللہ۔ اہل عرب کے لیے اس شر سے تباہی ہے جو قریب آگیا ہے۔ آج یاجوج اور ماجوج کی دیوار میں اتنا بڑا سوراخ ہو گیا ہے اور اپنی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بناتے ہوئے سوراخ کا سائز بتایا۔‘‘میں نے اللہ کے رسولؐ سے پوچھا کہ کیا ہمارے درمیان صالح اور نیک لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم لوگ اس شر سے ہلاک کردیے جائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا : ’’ہاں! جب برائی بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔‘‘(بخاری، حدیث: ۳۳۴۶، ۳۵۹۸ وغیرہ )
اس لیے ضروری ہے کہ جو لوگ نیک ہوں وہ نیکی کو پھیلانے والے بھی ہوں۔ لیکن اگر ان کا طرز عمل اور ان کا طرز فکر منفی ہوگا ، اور مفسدین خوب سرگرم ہوں گے تو امت تباہ ہوجائے گی اور پوری امت پر عذاب کا فیصلہ کردیا جائے گااور اس عذاب کا آغاز بھی سب سے پہلے انہی لوگوں سے ہوگا جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے بجائے میدان کو مفسدین اور بگاڑ پھیلانے والوں کے لیے چھوڑ دیں گے اور جو اللہ کے رسول کے اس فرمان کو بھول جائیں گے کہ’’ تم میں کا ہر شخص نگراں ہے اور نگراں اپنے زیر نگرانی لوگوں کے متعلق جواب دہ ہے۔‘‘اور جو اللہ کے اس قول کو بھلا دیں گے کہ ’’بچائواپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘ (التحریم: ۶)
اکثر بلکہ اکثر سے بھی کہیں زیادہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ عورتیں حجاب کا مطلب ہی نہیں سمجھتیںحالانکہ وہ باپردہ بھی رہتی ہیں، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اپنے سر پر کپڑا لپیٹ لیتی ہیں اور خوب آزادی سے پینٹ اور شرٹ پہنتی ہیں۔گویا صرف بالوں کو چھپا لیا، پردہ ہو گیا اور آنکھوں کا کاجل، چہرے کا پائوڈر اور میک اپ، ہونٹوں کی سرخی ، ان کاتو حجاب سے کوئی تعلق ہی نہیںہے۔باقی لباس بھی اتنا زیادہ تنگ ہوتا ہے کہ اس میں سے جسم کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دیتا بس جسم کے نشیب وفراز نمایاں ہو جاتے ہیںاور یہ لباس آنکھوں کے سامنے جسم کی ایسی تصویر کھینچ دیتا ہے کہ کچھ مخفی نہیں رہتا۔یہ کیسا حجاب ہے؟! یہ کیسا ستر ہے؟!!
بہت سی عورتیں اور مرد بھی عام حالات میں عورت کو براہ راست اور بلا رکاوٹ دیکھنے کو کوئی عیب ہی نہیں سمجھتے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد تو چاہتا ہی یہی ہے کہ عورت اس کے سامنے بے حجاب آئے اور عورت بھی ایسی ہی ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہے جو بے پردہ ہو۔یہ تصور بیٹھ گیا ہے کہ غض بصر (نگاہ نیچی رکھنا) کا حکم صرف مرد ہی کو دیا گیا ہے۔اس بات کو قطعا بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے دونوں کو ہی غض بصر کا حکم دیا ہے۔
وَ قُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ (النور:۳۱)
’’اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں بیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘
اللہ کے رسولؐ اپنی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہؓ اور حضرت میمونہؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ حضرت ابن ِامّ ِمکتوم آگئے۔ تب تک حجاب کا حکم آچکا تھا۔اللہ کے رسولؐ نے ابن ام مکتومؓ کے آجانے پر اپنی دونوں بیویوں سے فرمایا: ’’ان سے پردہ کرو۔‘‘ انھوںنے کہا : اے اللہ کے رسولؐ ! یہ تو نابینا ہیں ، ہمیں دیکھ تو سکتے نہیںاور نہ ہمیں پہچانتے ہی ہیں۔آپؐ نے فرمایا: ’’کیا تم لوگ بھی اندھی ہو، کیا تم لوگ انھیں دیکھ نہیں رہی ہو؟‘‘ (احمد، حدیث: ۲۵۹۹۷)
گویا حجاب میںسترِ عورت اور عورت کے ظاہری حسن کو چھپانے کے ساتھ ساتھ نگاہ نیچی کرنا بھی شامل ہے۔یہ چیز عورت کی پاکیزگی اور شائستگی میں اضافہ کرتی ہے۔اس روایت میں اور حضرت عائشہ کی درج ذیل روایت میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ وہ کہتی ہیں : ’’میںنے نبی اکرمﷺ کو دیکھا کہ انھوں نے مجھے اپنی چادر میں چھپا لیا ، میں اس وقت مسجد میں حبشیوں کا کھیل دیکھ رہی تھی۔‘‘(بخاری ، حدیث: ۴۵۵، ۵۲۳۶)اس لیے کہ اس وقت حضرت عائشہ عمر میں چھوٹی تھیں اور کم عمری کی وجہ سے کھیل کود دیکھنا انھیں اچھا لگتا تھا۔عورت کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ ضرورتاً بازار یا مسجد جا سکتی ہے لیکن باپردہ ہو تاکہ مرد اس کی طرف نگاہ نہ اٹھائیں۔
اکثرعورتیں اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ ایک عورت دوسری عورت کے جسم کا صرف اتنا ہی حصہ دیکھ سکتی ہے جتنا حصہ ایک مرد دوسرے مرد کے جسم کا دیکھ سکتا ہے۔اس لیے عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی عورت کی ناف سے اوپر اور گھٹنوں سے نیچے کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ دیکھے۔کسی بھی قسم کی برائی سے بچنے کے لیے اللہ کے رسولﷺ نے اس جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ’’ کوئی مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک ہی چادر میں نہ لیٹے اور نہ ہی کوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک ہی چادر میں لیٹے۔‘‘ (مسلم، حدیث: ۳۳۸- احمد، حدیث: ۱۱۲۰۷)کیوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دو مردوں کو شیطان عمل قوم لوط پر آمادہ کردے اور دونوں عورتوں کو ہم جنسی پر آمادہ کر دے۔ ایک مربیّ عورت ایسے کسی بھی راستے سے ہوشیار رہتی ہے جہاں پھسلنے کا خطرہ ہو ، اسی طرح شیطان کے راستے سے بھی خود کو دور رکھتی ہے۔
——