اسلامی معاشرے میں خاندان ایک اہم یونٹ ہے۔ معاشرے کی اِصلاح اسی وقت ممکن ہے، جب ایک خاندان مضبوط ہو اورخاندان اسی وقت مضبوط ہو سکتا ہے جب اس کے منتظمین باصلاحیت ، سمجھدار اور خاندان کو مربوط کرنے اور رکھنے والے ہو ں۔ گھر اور خاندان مضبوط ہوگا تو معاشرہ پائیدار ہوگا۔ جب معاشرہ پرامن ہوگا تو وہ ترقی کی جانب گامزن بھی رہے گا۔ اگر خاندان اور گھروں میں انتشار ہو، ٹوٹ پھوٹ کا شکارہو اور جو معاشرہ اخلاقی اقدار سے عاری ہو وہ اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ مغرب میں خاندان اسی لیے ٹوٹ رہے ہیں کیوں کہ گھر کی منتظمہ ہی گھر سے باہر ہے۔
اسی لیے اسلام میں خاندان کے نظم و ضبط اور اس کے تحفظ پر بہت زور دیا گیا ہے۔ خاندان کی مضبوطی اسی وقت ممکن ہے، جب خاتون خانہ صحیح اسلامی تعلیمات سے آراستہ اور اسلامی قدروں کی پیر وی کرنے والی ہو۔ خاندان کا نظام اسے احسن طریقے سے چلانا اور افراد خاندان ک وآپس میں ایک دوسرے کو محبت کے ذریعے جوڑے رکھنا، ان سب کاموں میں ایک خاتون بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عورت میں وہ خوبیاں رکھی ہیں کہ وہ گھر کو جنت کا نمونہ بنادے۔ صبر، برداشت، محبت، ہمدردی اورسب کو ایک محبت کے رشتہ میں پروئے رکھنا، یہ عورت کی فطرت میں اللہ نے ودیعت کردیا ہے۔
اسی لیے خواتین کہ چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحتیں اور کوششیں خاندان کومضبوط اور مستحکم کرنے میں لگائیں۔
قرآن کریم میں جہاں جہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مردوں کی خوبیوں کا ذکر کیا، وہیں عورتوں کی خوبیوں کا بھی ذکر کیا۔
’’مومن مرد اور مومن عورتیں، ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کاحکم دیتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں زکوۃ دیتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں عنقریب جن پر اللہ نے رحم فرمائیگا، وہ زبردست اور حکمت والا ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے ایسے مومن مردو ں اور مومن عورتوں کے لیے جنت کا جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ رہنے کی جگہ پاکیزہ اور ہمیشگی کی جنت اور اللہ کی رضا مندی سب سے بڑھ کر یہی عظیم کامیابی ہے۔‘‘ ( توبہ آیت ۷۱-۷۲)
اِن آیات کی روشنی میں ہم غور کریں تو یہ اہم بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ معاشرے کو سنوارنے میں عورتوں کا اہم کردار ہے۔ خاتونِ خانہ ، نیک، صالح اور دینی تعلیم سے آراستہ ہوتو وہ اپنے گھر کے افراد کی تربیت بھی اسی نہج پر کرے گی۔ اس کے گھر میں اللہ کے احکامات کی پیروی کی جاتی ہوگی، سنتوں کا احترام اور دینی تعلیم کا اہتمام پایا جاتا ہوگا۔
ایک عورت کب گھر کی بہترین منتظم ہو سسکتی ہے؟ یہ اسی وقت ممکن ہے جب خاتونِ خانہ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس ہو۔ حدیث میں آتا ہے: ’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگراں ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اِسی جواب دہی کے احساس کی بناء پر ایک خاتونِ خانہ اپنے گھر اور خاندان کا نظام کے اس طرح ترتیب دیتی ہے کہ گھر کے افراد اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرما ں بردار بندے اور بہترین شہری بن سکیں۔ وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کی تربیت کا انتظام کرتی ہے۔ گھر میں دینی تعلیم کا اہتمام ہوتا ہے۔ ان کے دلوں میں دین سے محبت اور شوق پیدا کرتی ہے۔ دنیا میں انہیں حالات کا مقابلہ کرنا سکھاتی ہے۔ معا ملات اور مسائل کو کیسے حل کیا جائے، اس کے لیے رہنمائی کرتی ہے۔ سب سے بڑھ کر ایک خاتون خانہ اپنے بچوں کے اندر اس بات کا احساس پیدا کرتی ہے کہ اپنے رب کو کیسے راضی کیا جائے۔ یہ سب کام انجام دے کر دراصل وہ بہترین منتظم بن سکتی ہے۔
وہ اپنے اوقات کو کچھ اس طرح منظم کرتی ہے کہ جس میں ذاتی عبادات، خاندان سے تعلقات، رشتہ داروں کے حقوق، اور ساتھ ہی بچوں کی اسلامی نہج پر تربیت اور مکینوں کی تمام ضروریات کو پورا کرتی ہے۔
ایک مومنہ اپنے گھر کو سنوارنے کی فکرمیں رہتی ہے۔ وہ صرف اینٹ اور گارے سے بنے اس گھر یا اس کے درو دیوار ہی کو نہیں سنوارتی، بلکہ اس کے گھر میں ، ان کی روحانی تربیت، ان کے آخرت کی کامیابی کی فکر اور ان کے اخلاق کو سنوارنے کا کام بھی، بہترین طریقے سے انجام دیتی ہے۔
گھر کا انتظام، اس کے افراد کی ضرورتوں کی تکمیل اور ان کی تربیت کوئی معمولی کام نہیں۔ آپ کی دی ہوئی غذا سے جہاں ان کا جسم توانائی پاتا ہے وہیں آپ کی دی ہوئی تربیت اور اصلاح سے، آپ کے گھر کے افراد، آپ کے بچے، معاشرے کے لیے بے حد فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہماری بہ حیثیت خاتون یہ ذمے داری ہے کہ آپ نے آپ کو اس ذمے داری کے لیے اہل ترین بنانے کی فکر کریں۔ اس کے لیے سب سے اہم چیز وہ فکر ہے جو بہ حیثیت مومن خاتون ہمیں درکار ہے اور دوسری چیز ہے اپنے اوقات اور مصروفیات کی تنظیم ہے۔پہلی ضروری بات یہ ہے کہ اپنے اوقات کا جائزہ لیں، ان اوقات کی تقسیم کار ایسے کریں، جس سے سارے کام اپنے وقت پر احسن طریقے سے انجام پائیں۔
دن کی شروعات فجر کی نماز کے ساتھ ہو اور اختتام گھر کے تمام افراد کی ضروریات کی تکمیل کے بعد عشا کی نماز سے ہو۔ اس دوران کے کاموں کی تنظیم آپ اپنی سہولت اور اہل خانہ کی مختلف مصروفیات کو سامنے رکھتے ہوئے کرسکتی ہیں۔ لیکن کچھ اصولی باتیں ہیں، جن کو ہمارے سامنے رہنا چاہیے۔
اگر گھر کے تمام لوگ فجر کی نماز پابندی سے پڑھتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ کوتاہی کرنے والوں کو دل سوزی، حکمت اور محبت کے ساتھ پابند بنانے کی کوشش کی جائے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ صبح کا وقت گھر کے افراد کے ایک ساتھ جمع ہونے کے لیے سب سے مناسب وقت ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ شام یا رات کے وقت بھی ممکن ہے۔ اس لیے مناسب وقت دن میں کم از کم ایک مرتبہ کے تمام لوگ ضرور جمع ہوں۔ کوشش ہو کہ ناشتہ یا رات کا کھانا ایک ساتھ دسترخوان پر کھائیں۔ اس وقت گھر کے اجتماعی معاملات پر بھی گفتگو ہو اور ایک دوسرے کے بارے میں دن بھر کی رپورٹ بھی مل جائے۔ اس طرح گھر کے افراد کے درمیان باہمی تعلق مضبوط ہوگا۔
گھر کی تنظیم
اب خاتون خانہ کی گھر کے بہترین انتظام کی ذمے داری کی طرف آتے ہیں۔ اس میں گھر کے سالانہ بجٹ سے لے کر ماہانہ بجٹ اور آمد و خرچ کے میزانیے (بجٹ) سے لے کر بچوں کی تعلیم، ان کو نظم و ڈسپلن کی لڑی میں پروئے رکھنا اور ان کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانا، یہ سب وہ کام ہیں جو اس کی زیر نگرانی انجام پاتے ہیں۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ محدود اور متعین آمدنی میں کس طرح اہل خانہ کی ضروریات کی بہتر انداز سے تکمیل ہوسکتی ہے۔
بہترین منتظم خانہ کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ متعین آمدنی میں کیسے گھر کے افراد کی ضرورتوں کو اچھے انداز میں پورا کرتی ہے۔ اس کے لیے اسے ایک منصوبہ بنانا ہوگا۔ اس منصوبے میں گھر کے تمام افراد اور گھر کی اجتماعی ضرورتوں اور ان کی تکمیل کے لیے ہونے والے اخراجات کا درست تخمینہ لگانا ہوگا۔ اسے ہم گھر کا بجٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ گھر کی منتظم کا کمال یہ ہے کہ وہ سب کی ضروریات کو پورا کرتی رہے اور کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ گھر کے انتظام میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ کاموں کے لیے ایک شیڈیول ہو اور ہر کام اپنے شیڈیول کے مطابق انجام پاتا رہے۔ اس شیڈیولنگ سے آپ کو بھی سہولت ہوگی کہ آپ روٹین میں کام کرتی جائیں گی اور گھر کے افراد کو بھی شکایت یا انتظار نہ کرنا پڑے گا۔
گھر کی تنظیم میں بزرگوں کی خدمت اور ان کا خیال رکھنا اور عمر کے مطابق ان کی ضروریات کی تکمیل بھی خاتون خانہ، اہم ترین ذمہ داری ہے۔ یہ کام وہ خود بھی کرسکتی ہے اور گھر کے افراد کے ذریعے توجہ دے کر یہ کام انجام دلا سکتی ہیں۔
بچوں پر توجہ
خاتون خانہ کے اندرون خانہ کاموں میں خاص ترجیح بچے ہونے چاہئیں۔ اس میں بچوں کی غذا، لباس اور دیگر مادی ضروریات سے لے کر ان کی ذہنی و فکری تربیت اور تعلیمی کارکردگی کا اچھے انداز میں چلنا شامل ہے۔ اگر اس عمر میں بچوں کی غذائی ضروریات کو بہتر طریقے سے پورا کرنے میں کوتاہی ہو تو اس کا اثر پوری زندگی ان کی صحت پر رہتا ہے۔
دوسری ان کے افکار و خیالات میں کجی اور برائی سرایت کر جائے تو ان کی دنیا و آخرت دونوں کے بگڑنے کا خوف پیدا ہو جاتا ہے اور اگر وہ تعلیم کے میدان میں پچھڑ جائیں تو زندگی کی بلندیاں اور عظمتیں ان سے دور ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اخلاق اور بلند کرداری جہاں ان کے اندر پیدا کی جائے وہیں انہیں علم کی تڑپ میں اس طرح سرگرداں کردیا جائے کہ وہ ہر وقت سیکھنے اور اپنی شخصیت کو پروان چڑھاتے رہنے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لیے بھی ان سے مشورے کے بعد ایک آزاد قسم کا ٹائم ٹیبل تیار کر دیا جائے۔ اس میں صبح اٹھنے سے لے کر رات کو سونے تک کے معمولات اس طرح درج ہوں کہ بچے لکیر پر چلنے کی طرح بھی نہ رہیں اور ایسے آزاد اور لاپرواہ بھی نہ ہوں کہ اپنا وقت برباد کرتے ہوئے ادھر ادھر گھومتے پھریں۔ اس کے علاوہ وہ درج ذیل کاموں پر توجہ دی جائے۔
۱- بچوں کے ساتھ مستقل طور پر بیٹھنے کا شیڈیول متعین ہو، جس میں ان کی تعلیمی کاکردگی ، رہ نمائی، ہوم ورک کی دیکھ بھال اور انہیں پرعزم بنانے کے لیے قصے، کہانیاں، بڑوں کے واقعات اور مسائل زندگی کو حل کرنے کے گر سکھائے جائیں۔
۲- کوشش ہو کہ گھر میں ٹی وی کا استعمال کم سے کم ہو اور جب ٹی وی چلے تو گھر کے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھیں اور صرف کام کی باتیں اور پروگرام دیکھیں ورنہ بند رہے۔
۳- بچوں کی اخلاقی و دینی تربیت پر خاص توجہ ہونی چاہیے۔ چھوٹی عمر میں یہ ضرورت قصے کہانیوں اور عظیم لوگوں کے واقعات سناکر پوری کی جائے۔ لیکن جب بچے بڑے ہوجائیں اور پڑھنے کے قابل ہوجائیں تو انہیں اسلامی، اخلاقی اور معلوماتی لٹریچر ان کی عمر اور فہم کے حساب سے فراہم کیا جائے اور انہیں پڑھنے کا شوق دلایا جائے۔
۴- جہاں ہم بچوں کی نصابی سرگرمیوں پر توجہ دیں اور انہیں تعاون و مشورے دیں وہیں غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے بھی ان کی مدد کریں۔ تقریری و تحریری صلاحیت پروان چڑھانے کے لیے بھی انہیں شوق دلائیں۔ اس کے لیے گھر اور خاندان کے بچوں کے درمیان مختلف قسم کے مقابلے اور انعامات دیے جاسکتے ہیں۔
۵- گھر کے بزرگوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کے لیے بڑے اور باشعور بچوں کو بعض ذمے دار یا حوالے کی جائیں اس طرح انتظام میں بھی آسانی ہوگی اور بچوں کے اندر جذبہ خدمت، احترام اور شفقت و محبت بھی پروان چڑھے گا۔
رشتوں کو جوڑنا
رشتوں اور تعلقات کو نبھانے اور انہیں مضبوط اور مستحکم بنانے میں بھی خاتون خانہ کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ مرد کیوں کہ باہر کی ذمے داریوں میں زیادہ مصروف رہتے ہیں اس لیے زیادہ صورتوں میں خاتون خانہ کا رویہ، برتاؤ اور معاملات ہی فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ خاتون خانہ کو چاہیے کہ وہ رشتوں کو مضبوط کرنے اور انہیں بنائے رکھنے پر بھی توجہ دے اور کوشش کرے کہ کسی رشتے دار کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ اس کے لیے رشتے داروں میں آنا جانا، تقریبات میں شرکت اور لین دین کے علاوہ تحفے تحائف دینے کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے۔ رشتوں کو جوڑنا اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اور اللہ کے رسول نے اسے جنت میں جانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
بچوں کی تربیت، گھر کا نظام، شوہر کی فرمابرداری یا بزرگوں کی خدمت اور اسلامی حدود میں رہتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا استعمال، یہی ذمہ داریاں ہیں، جو خواتین کو سونپی گئیں ہیں۔ اور اسی کام پر، خواتین کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
حدیث میں ایسی خواتین کے لیے، خوشخبری ہے کہ وہ جنت کے آٹھوں دروازے سے داخل ہو نے کی خوشخبری دی گئی ہے۔
صحابیات کا طرزِ عمل ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ یہ وہ خواتین تھیں جنہیں اللہ کے رسول کی تربیت حاصل ہوئی اور اللہ ان سے راضی ہوا۔ انہوں نے اپنے گھر کو کس طرح سنبھالا، کیسے بچوں کی تربیت کی۔ عبادات تعلیم و تربیت اور گھریلو ذمہ داریوں میں کیسے اعتدال رکھا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’انسان جب مر جاتا ہے تو اسکا اعمال نامہ بند ہو جاتا ہے۔سوائے تین چیزوں کے نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔ علم جو اس نے لوگوں کو دیا، جس سے لوگ بعد میں بھی فائدہ اٹھائیں۔ اور صدقہ جاریہ۔‘‘ ( صحیح مسلم)
ذرا سوچیں اور غور کریں۔ آپ اپنا وقت کیسے گزارتی ہیں۔ کیا آپ نے اپنے وقت کو احسن طریقے سے تقسیم کیا ہے؟ یا اسے ضائع کررہی ہیں۔ ہم کو ۲۴ گھنٹے ملیں ہیں، ان اوقات کو ہم، صحیح کاموں میں لگائیں، اپنی صلاحیتیں، اپنے گھر اور خاندان کو سنوارنے میں لگائیں تاکہ اپنے گھر کی بہترین منتظم بن سکیں۔
اس معاشرے کو سدھارنے اور بہتر بنانے میں آپ کا بہت بڑا رول ہے، آپ اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں۔ آپ اپنے گھر اور خاندانی نظام کو بہتر بناتی ہیں تو معاشرے کو ایک نیک صالح رہنما، نیک صالح ڈاکٹرس، انجینئرس۔ ورکرس غر ض معاشرے میں جو بھی کام کرنے والے لوگ ہیں، وہ سب امانت دار ہوں گے۔ جس سے معاشرہ پر امن، جھوٹ او ر خیانت سے پاک ہوگا۔