شدید سردی کا موسم تھا۔ جنوری کا مہینہ تھا۔ ورنداون میںانٹرنیشنل سوسائٹی فار کرشنا کانشس نیس مندر کے سامنے ڈھابوں کی ایک لمبی قطار پر گرم گرم کچوریاں فروخت ہورہی تھیں جو تیل سے بھری کڑھائیوں سے تازہ تازہ نکل رہی تھیں اور آلو کی سبزی کے ساتھ پیش کی جارہی تھیں۔ ورنداون کی یہ کچوریاں اسی طرح مشہور ہیں جیسے وہاں کا کریم والا دودھ، مٹھائیاں اور مندر مشہور ہیں۔ جو بھی ورنداون آتا ہے چاہے وہ انڈین ہو یا غیر انڈین یہاں کی کچوریوں اور مٹھائیوں کا مزہ ضرور لیتا ہے۔
ایک صاحبِ دولت، اعلیٰ تعلیم یافتہ فیملی گجرات سے آئی ہے جو ایک ڈھابہ پر صبح سویرے ناشتہ کررہی ہے۔ مرد کے کانوں میں ہیروں کے زیور نظر آرہے ہیں اور ہاتھ کی انگلیوں میں انگوٹھیاں ہیں۔ اس کی بیوی بیش قیمت زیورات کے علاوہ قمیص شلوار پہنے ہوئے ہے جس سے اس کی دولت و ثروت ظاہر ہورہی ہے۔ پاس ہی شیورلیٹ کار کھڑی ہے، جس میں وہ گجرات سے ورنداون آئے ہیں۔ پوتر نگری کے تیرتھ استھانوں کی یاترا سے ان کے بچے بھی لطف اندوز ہورہے ہیں۔
اچانک کئی درجن غریب و بھوکی بیوہ عورتیں ان کو گھیر لیتی ہیں وہ ان سے کچھ کھلانے کے لیے کہتی ہیں۔ مرد نے ان سب کو ایک لائن میں بیٹھ جانے کے لیے کہا اور ڈھابہ والے سے انہیں کھلانے کے لیے کہہ دیا۔ پتی، پتنی اور ان کے بچے خود ان بیواؤں اور بھوکوں کو اپنے ہاتھ سے دے رہے ہیں۔ وہ کھلائے جارہے ہیں، کھانے والے کھا رہے ہیں اور کھانے والوں میں نئے نئے آکر شامل ہورہے ہیں۔
یہ یہاں کے روز مرہ کے مناظر ہیں، کسی بیوہ یا بھوکے کو پیٹ بھر مل جاتا ہے۔ کسی کے ہاتھ تھوڑا سا لگتا ہے اور کوئی خالی ہاتھ پھیلائے رہ جاتا ہے۔ یہاں بیواؤں کے لیے گھر آشرم بھی بنے ہوئے ہیں مگر ورنداون میں بیواؤں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان سب کو بیوہ گھروں اور آشرموں میں جگہ نہیں مل پاتی، اتنی گنجائش ہی نہیں ہے۔ باقی گھاٹوں پر، درختوں کے نیچے، گلی کوچوں میں اور سڑکوں پر پڑ رہتی ہیں۔ کسی کو اوپر تاننے کے لیے بوریا، ٹاٹ، چادر وغیرہ مل جاتی ہے، کوئی کھلے آسمان کے نیچے ہی سمٹ سمٹا کر پڑجاتی ہے۔ رک رک کر بھجن گاتی رہتی ہیں۔ ہر آنے جانے والے کو امید بھری نظروں سے تکتی رہتی ہیں۔ کسی کو سردی میں کوئی کمبل کا ٹکڑا میسر آگیا ہے، کسی کو جسم کو ڈھانکنے کے لیے پورے کپڑے بھی نصیب نہیں ہیں۔ کوئی بھوک سے بلبلارہی ہے، کوئی کمزوری سے تڑپ رہی ہے اور کوئی بیماری میں مبتلا ہے۔
یہ اکیلے ورنداون کی کہانی نہیں، رادھا کنڈ کے پورے برج دھام، برساٹا، گوکل اور گوبر دھن ہر جگہ کا یہی حال ہے۔ یہاں ہر چیز جنرل اسٹور، ریسٹورنٹ، کالج، کثیر منزلہ اپارٹمنٹ بھی کرشن کے نام سے موسوم ہیں۔ دھول سے اٹی گلیاں سڑکیں تیرتھ یاترا کے لیے آنے والوں، کاروں اور گاڑیوں سے بھری پڑی ہیں۔ مندر پجاریوں اور بندروں سے لبریز ہیں۔ جبکہ ہر جگہ سفید ساڑیوں میں ملبوس بیوہ عورتوں کی بھیڑ ہے۔ ان میں چھوٹی بھی ہیں، بڑی بھی، بوڑھی بھی ہیں اور بچی بھی۔ اکیلے ورنداون میں ۲۱ ہزار سے زیادہ بیوائیں ہیں، سب کی ایک ہی کہانی ہے۔ شوہروں کی موت کے بعد بیوہ ہوجانے پر انہیں سسرال والوں نے منحوس قرار دے دیا۔ ماں باپ، بھائی بہنوں نے بھی پاس نہیں لگایا آخر کرشن اور رادھا کی نگری میں آکر پڑ رہیں۔ کچھ تیرتھ یاتریوں کی دی ہوئی چیزوں کے سہارے زندگی گزار لیتی ہیں کچھ جسم فروشی پر بھی مجبور ہوجاتی ہیں۔ کئی ہیں جن کو بوڑھی ہونے پر بہو بیٹوں نے نکال دیا۔ کچھ لوگ مانو سیوا میں دان کرتے ہیں کچھ اپنے ماں باپ کو بھی گھر سے نکال دیتے ہیں۔
۲۱؍ہزار میں سے کم از کم ایک تہائی کھلے آسمان کے نیچے پڑی دن رات گزارتی ہیں، نہ سردی سے بچاؤ کے لیے کوئی پناہ گاہ ہے نہ برسات میں بارش سے بچاؤ اور نہ ہی گرمی میں دھوپ سے کوئی تحفظ ہے۔ تقریباً ۴۰ فیصد کی بیت الخلا تک رسائی نہیں ہے۔ بیشتر کی حالت یہ ہے کہ انہیں ملنے والی کل بھکشا مہینہ میں دو سو سے ایک ہزار روپئے کے درمیان ہوتی ہے۔ ۷۰ فیصد نے تو سرکار کی طرف سے بیواؤں کو ملنے والی پنشن کا ذکر تک نہیں سنا، ناخواندہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ بھی پتہ نہیں یہ پنشن کیسے حاصل ہوسکتی ہے۔
قرآن کریم نے بتایا ہے کہ جنت میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حضرت حواؑ سے کہا تھا تم دونوں اس درخت کے پاس نہ جانا، لیکن شیطان نے دونوں ہی کو بہکایا اور ورغلایا اور دونوں ہی کو اس درخت کا پھل کھلا دیا۔ اس طرح دونوں ہی کی غلطی کی وجہ سے وہ جنت سے نکالے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے خطاب کا زیادہ زور حضرت آدم ؑ کی طرف تھا اور پھر اس غلطی کے لیے زیادہ ذمہ دار بھی انہی کو قرار دیا گیا۔ لیکن یہود و نصاری نے سارا الزام بیچاری اماں حوا کے سر تھوپ دیا۔ قرآن بتاتا ہے کہ مصر میں قیام کے دوران فرعون اور اس کی قوم بنی اسرائیل پر طرح طرح سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے تھے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ ان کے بیٹوں کو قتل کردیتے تھے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھ کر ان کا استحصال کرتے تھے۔
جہیز کے نام پر جلنے جلانے کے واقعات کے اعداد وشمار پیش کرنا مشکل ہے جو جہیز کا مسئلہ نہیں طلاق کے نظام کے صحیح طور پر نہ اپنانے کی وجہ سے ہے۔
بوسنیا میں مسلمانوں نے یوگوسلاویہ اور سربیا کے عیسائیوں کی بالادستی سے آزادی حاصل کرنی چاہی تو جہاں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا حضرت مریم کے پجاریوں نے عورتوں کی بڑی پیمانہ پر اجتماعی عصمت ریزی کی، یہاں تک کہ انھوں نے مسلمانوں کی نسلی تطہیر کے نعرے لگائے کہ ان عورتوں کے بطن سے اب مسلمان نہیں ہمارے بچے پیدا ہوں گے۔ پہلی جنگ اور دوسری جنگ عظیم کے دوران کروڑوں مردوں کو قتل کیا گیا جن سے عورتیں بیوہ ہوئیں اور عورتوں پر عصمت دری کی شکل میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ عراق میں اب بھی یہی ہورہا ہے یہی سب کچھ افغانستان میں کیا جارہا ہے، جہاں طالبان نے عورتوں کو عزت و شرافت کے ساتھ پردہ میں رہنے کی ترغیب دی تھی، اب ہر روز ان کو بے پردہ کیے جانے کی رپورٹیں میڈیا کے ذریعہ پیش کی جارہی ہیں اور اس عمل کو عورت کی آزادی اور حقوقِ نسواں کے حصول سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ کشمیر میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد مارے جاچکے ہیں۔ ۱۰؍ہزار سے زیادہ لاپتہ ہیں ان کی بیوہ اور نیم بیوہ عورتیں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
امریکہ اور یورپ میں جہاں حقوقِ نسواں کے تحفظ کے نام پر عورت کو مرد کے شانہ بشانہ زندگی کی دوڑ میں ہر شعبہ میں حصہ لینے کے لیے زبردست پروپیگنڈہ کے ذریعہ ذہن سازی کرکے آمادہ کردیا گیا۔ خاندانوں کا وجود معدوم ہورہا ہے۔ ۷۰؍فیصد جوڑے بغیر شادی کے زندگی گزار رہے ہیں ، روم پارٹنر اور بغیر شادی کے بندھن میں بندھے ساتھ رہنے کا کلچر زوروں پر ہے۔ جب تک چاہتے ہیں ساتھ رہتے ہیں، جب من بھرجاتا ہے جانوروں کی طرح ایک دوسرے سے منہ موڑ کر اپنی اپنی راہ لے لیتے ہیں۔ کسی اور پارٹنر کو تلاش کرلیتے ہیں۔
یہی مغربی کلچر انڈیا میں بھی پھیلایا جارہا ہے۔ ہر سال جنسی ظلم و زیادتی کی شکار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہر پچھلے سال کے مقابلہ میں نئے سال میں ان کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے ہر چھ خواتین میں سے ایک کو زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی شکل میں جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کالج جانے والی لڑکیاں اس طرح کے حملوں کا چار گنا زیادہ شکار ہورہی ہیں۔ دہلی کو میڈیابار بار جنسی زیادتی کی راجدھانی کا نام دے رہا ہے۔ لڑکیاں عریانیت اور جنسی آوارگی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ اسے فیشن، ترقی اور عورتوں کی آزادی کا نام دیا جارہا ہے۔
میڈیا اس امر پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے کہ نئے زمانے کی عورت خاص طور سے گاؤں کے مقابلہ میں شہر میں ظلم کے خلاف بولنے لگی ہے۔ آواز بلند کرنے لگی ہے۔ ظلم وزیادتی کرنے والوں کا مقابلہ کرنے کی اسے ٹریننگ دی جارہی ہے۔ حالانکہ میڈیا اس امر کا بھی اعتراف کررہا ہے کہ انڈیا میں جنسی زیادی کے ۶۹ کیسوں میں سے صرف ایک ہی کی پولیس میں رپورٹ درج کرائی جاتی ہے۔ ان میں سے بھی صرف ۲۰؍فیصد کا ہی کچھ نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ ملک بھر میں ہر سماجی طبقہ میں جنسی زیادتی عام ہے۔ گاؤں ہوں کہ شہر اب تو باپوں کے ذریعہ بیٹیوں کی اور خسروں کے ہاتھوں بہوؤں کی عصمت ریزی کی خبروں پر میڈیا میں خوب بحثیں ہورہی ہیں۔ جبکہ بہن بھائیوں کے ناجائز جنسی تعلقات کی شکایتیں بھی کبھی کبھی منظرِ عام پر آجاتی ہیں۔ پولیس رپورٹوں کے مطابق جان پہچان والوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ذریعہ عورتوں کے استحصال کے واقعات غیروں کے مقابلہ میں زیادہ ہورہے ہیں، جن میں کم سن معصوم بچیوں کو بہلا پھسلا کر شکار بنالیا جاتا ہے تو آزادیِ نسواں اور آزاد خیالی کے مغربی جنون نے کالجوں و یونیورسٹیوں میں جانے والی لڑکیوں اور دفاتر و کارخانوں،کارگاہوں، کام کی جگہوں وغیرہ میں کام کرنے والیوں کو خوب بے راہ رو کردیا ہے۔ جسم فروشی کے اڈے ریڈ لائٹ ایریاز کے کوٹھے خوب آباد اور بارونق ہورہے ہیں۔ کال گرلز گروہوں کے پکڑے جانے کی خبریں بھی روز کا معمول بن گئی ہیں۔ پارکوں اور گاڑیوں میں طرح طرح کے مناظر سامنے ہیں۔ ریڈیو، فلم، ٹی وی، انٹرنیٹ اور پرنٹ والیکٹرانک میڈیا جنسی جذبات بھڑکا رہے ہیں۔ اشتہارات میں عورت کو ننگا کیا جارہا ہے۔ ظاہر ہے خود عورت عریاں ہوکر تصویریں کھنچوارہی ہے، فیشن شو اور مقابلۂ حسن کے ذریعہ عورت کو خوب ذلیل کیا جارہا ہے مگر عورت ہے کہ اس کو اپنی ذلت و رسوائی سمجھنے کی بجائے اس پر فخر کررہی ہے۔ ماں باپ اور بھائی بھی اس کو اس حالت میں دیکھ کر خوش ہورہے ہیں، اس کی تعریف و تحسین کررہے ہیں۔ کہیں کوئی زبردستی یا کوئی ناگوار و ناپسند بات ہوجائے تو شکایت کی جائے گی ورنہ رضا مندی تو یوں بھی قانونا جرم نہیں مانا جاتا۔کسی تہذیب و مذہب میں یہ سب کچھ قابلِ اعتراض تصور نہیں کیا جارہا ہے۔
دینِ اسلام عورت کی عصمت کو اس کی عزت و وقار کی بنیاد قرار دیتا ہے، خود عورت کو اس کی حفاظت کی ترغیب و تلقین کرتا ہے۔ مردوں کو کسی نامحرم عورت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے سے منع کرتا ہے۔ مردوں اور عورتوں دونوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے، عورت کو اپنی زینت چھپا کر رکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ دینِ اسلام عصمت ریزی ہی کو نہیں ہاتھ بڑھانے، آنکھ ملانے یا اٹھانے اوردل میں ناجائز خیال لانے تک کو زنا قرار دیتا ہے اور گناہِ عظیم قابلِ تعزیر جرم ٹھہراتا ہے جس کو نئی تہذیب عورت پر ظلم کانام دیتی ہے۔جبکہ اوپر مذکور صورتحال اس نئی تہذیب اور غیر اسلامی مذہوں کی دین ہے۔ کھلی آنکھ سے ہر شخص فرق کو دیکھ اور سمجھ سکتا ہے تعصب کا کوئی علاج نہیں۔
——