ڈاکٹر صوفیہ سویڈن کی لوند یونیورسٹی میں علم الادیان کی پروفیسر ہیں اور سویڈن میں مسلم خواتین کی ایک بین الاقوامی تنظیم کی صدر ہیں، جو لیکچرز، تدریس، ٹیلی ویژن کے پروگراموں کے ذریعے اور اخبارات کے ذریعے دعوتِ دین کا کام کرتی ہیں۔ وہ متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صوفیہ ایک مکملہ گھریلو خاتون ہیں۔ ان کے دو بیٹے اور بایک بیٹی ہے ان سے ہفت روزہ اجتمع کویت نے ایک انٹرویو لیا جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے ( ادارہ)
س: آپ کے اسلام قبول کرنے کا سبب کیا بات تھی؟
ج: میں نے ایک کٹر عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میری والدہ ہمیں ہر ہفتے چرچ میں لے جانے کی کوشش کرتی تھیں، جب کہ میرے والد بہت مذہبی نہیں تھے۔ وہ ریاضی کے استاذ تھے۔ میں اپنی تعلیم کے دوران حیران و پریشان رہا کرتی تھی۔ کیوں کہ مخصوص رسم و رواج اور چرچ میں حاضری کے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں ایمانیات اور توحید سے متعلق بعض ایسے سوالات آتے تھے جن کا جواب چرچ کے پاس نہیں تھا۔ پھر میں نے ناروے کی اوسلو یونیورسٹی میں مذہبی علوم کے شعبے میں داخلہ لیا۔ وہاں تاریخ اور تقابل ادیان کے گہری نظر سے مطالعہ کے باوجود اسلام کے متعلق بدظنی کا شکار رہی۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے میں نے جو کتابیں پڑھی تھیں وہ صحیح نہیں تھیں، کیوں کہ وہ مستشرقین کی لکھی ہوئی تھیں۔ آخر میں مجھے مولانا مودودی کی کتاب ’’دینیات‘‘ نارویجن زبان میں ملی اور سید قطب کی ’’معالم فی الطریق‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ ملا، جن سے مجھے اپنے سوالات کا تسلی بخش جواب ملا۔ اس کے بعد میں نے ان کتابوں کو پرھنا شروع کیا جنہیں مسلمان مفکرین نے لکھا تھا۔ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ خریدا اور قرآن کی آیات پر غوروخوض شروع کردیا۔ جب میں اسلام کے متعلق پوری طرح یکسو اور مطمئن ہوگئی تو اسلامی مرکز گئی اور کلمۂ شہادت پڑھ کر اپنے اسلام کا اعلان کردیا۔
سوال: آپ کے اسلام قبول کرنے پر آپ کے اہل خانہ کے کیا تاثرات تھے؟
جواب: انہوں نے اسے معمول کی بات سمجھ کر کوئی خاص توجہ نہیں دی، لیکن میری چند سہیلیوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا، خصوصاً جب میں نے یونیورسٹی میں حجاب اختیار کرنا شروع کیا تو بعض دوستوں نے میرے ساتھ بحث و مباحثے کا سلسلہ شروع کردیا۔
سوال: کیا آپ کو پردہ کرنے کی وجہ سے یونیورسٹی میں کچھ مشکلات کا سامنا کرناپڑا؟
جواب: نئی چیز ہمیشہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتی ہے اور شروع میں یقینا بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اب تو پردہ عام ہوچکا ہے۔ مجھے مشکلات کی کوئی پرواہ نہیں ہے، ہمیں چاہیے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے دعا کریں اور اس راستے میں آنے والے مصائب کو صبروتحمل سے برداشت کریں۔
سوال: آپ نے یونیورسٹی میں رہتے ہوئے کیا دوسروں کو بھی اسلام کی دعوت دی ہے؟
جواب: میں نے اپنی قریبی سہیلیوں کو اسلام کی دعوت دی ہے اور ان میں سے بعض نے اسلام قبول بھی کرلیا ہے، لیکن میری شادی کے بعد کافی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ میرے خاوند مجھ سے کہتے ہیں کہ جب تم نے خیر کو پالیا ہے تو اسے دوسروں تک بھی پہنچاؤ۔ عربی سیکھنے میں انہوں نے میری بڑی مدد کی۔ الحمد للہ میرے پاس روزانہ کی مصروفیات تبلیغ تدریس اور دیگر پروگراموں میں شرکت پر مشتمل ہیں۔
سوال: آپ اس (مغربی) معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی اولاد کی تربیت کس طرح کرتی ہیں؟
جواب: اولاد کی تربیت سب سے اہم کام ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، دیگر طلبہ کی طرح ہمارے بچے بھی سویڈش اسکول میں جاتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ گفتگو کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ عربی سیکھنے کے لیے ویڈیو کیسٹ دیکھتے ہیں، نمازوں اور ذکر کے اہتمام کے ساتھ ساتھ سونے سے پہلے ہم انہیں کوئی ایک آدھ اسلامی قصہ سناتے ہیں اور بعض نصیحتیں کرتے ہیں، ہر ہفتے کے آخر میں عربی پڑھنے اور سیکھنے کی مشق کرتے ہیں اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کے اخلاقی اور تعلیمی امور بہت اچھے ہیں اور وہ عربی، سویڈش اور نارویجن زبانوں میں گفتگو کرسکتے ہیں۔
سوال: دعوتِ دین کے سلسلے میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے خواتین کی راہ میں کیا رکاوٹیں درپیش ہیں؟
جواب: عورت مرد کی طرح اللہ تعالی کے سامنے جواب دہ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ عورت اور مرد یکساں طور پر گھر، اولاد اور دعوتِ دین کے لیے کام کریں۔ موجودہ زمانے میں ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئیں ہیں۔ عورت کے لیے بنیادی اور اہم ذمہ داری اس کا گھر ہے، لیکن جاہل عورت کوئی کام بھی صحیح طرح نہیں کرسکتی، اس لیے اس کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ۔ بچوں کی تربیت کے لیے زندگی اور معاشرے کے تجربات اور مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے بغیر بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے ذریعہ والدین کی خدمت ناممکن عمل ہوتا ہے۔ ہمارا موجودہ تربیتی نظام خواتین کو مربی اور داعی بنانے کے بجائے انہیں بے کار اور پسماندہ بناتا ہے، حالانکہ وہ آنے والی نسلوں کی تربیت کی ذمہ دار ہیں۔
سوال: مستقبل میں آپ کے کیا ارادے ہیں؟
جواب: میں نے قرآن کا اسکنڈے نیوی زبان میں ترجمہ شروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ فریضۂ حج ادا کرنے کا ارادہ ہے اور میں صحابیات کی تقلید کرتے ہوئے مسلمان عورت کی مدد کرنا چاہتی ہوں تاکہ وہ اپنا فریضۂ منصبی فعال طور پر ادا کرے۔ اللہ تعالی میری مدد فرمائے اور ہماری تمام کوششوں کو اپنی رضا کے لیے خالص کردے۔ (آمین)
سوال: مسلمان خواتین کی عالمی تنظیم بنانے کے کیا مقاصد ہیں؟
جواب: سویڈن میں مختلف قوموں کی مسلمان خواتین رہتی ہیں، جن کا تعلق یورپ، ایشیا، سویڈن، افریقہ، امریکہ اور عرب ممالک سے ہے۔ ہم نے خواتین کی خدمت اور دعوتِ اسلامی کے کام میں تمام مسلمان خواتین کو شریک کرنے کے لیے ایک متحدہ پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس کی، تاکہ اس تنظیم کے ذریعے خواتین آسانی سے ہمارے ساتھ رابطہ کرسکیں۔
سوال: آج کل آپ کی تنظیم کی کیا اہم سرگرمیاں ہیں؟
جواب: خواتین، لڑکیوں اور بچوں کے لیے ہفتہ وار عربی اور سویڈش زبان میں درس ہوتے ہیں۔ عورت کے مسائل اور ضروریات کے متعلق سمینار اور ورکشاپ منعقد ہوتی ہیں، تربیتی کیمپ اور سالانہ کانفرنس کا اہتمام کیاجاتا ہے، عورت کے مسائل، مشکلات اور اس کے حقوق کے دفاع کے لیے کوشش کی جاتی ہے، اس کے علاوہ ضرورت مندوں اور پناہ گزینوں کے لیے ہم فنڈز جمع کرتے ہیں۔
سوال: آپ کی ان سرگرمیوں کے مسلمان خواتین پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
جواب: پروگراموں کی نوعیت اور خواتین کی مصروفیات کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بوسنیا اور یوروپ کی خواتین قرآن و حدیث کی تعلیمات سیکھنے میں دلچسپی لیتی ہیں، جب کہ عرب خواتین بچوں کی تربیت اور کھانے پکانے سے متعلق لیکچرز میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں، جب کہ صومالی خواتین کی کوشش عربی سیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ میرے خیال میں میاں بیوی کی تعلیمی قابلیت اور مقام ان کے رجحانات کی سمت متعین کرتا ہے، لیکن ہماری مسلسل کوشش ہوتی ہے کہ ہم عورت کی مکمل مدد کریں تاکہ وہ دین کے مطلوبہ مقام تک پہنچ جائے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کام کے لیے بڑے صبر اور ضبط کی ضرورت ہے۔
سوال: آپ تنظیم کی مالی ضروریات کس طرح پوری کرتی ہیں؟
جواب: ابھی تک ہم نے اپنی ضروریات اپنے اراکین کی مدد اور ذاتی اعانت سے پوری کی ہیں۔
سوال: آپ کا تعلق چوں کہ یوروپ سے ہے، اس پس منظر کومیں عورت کی آزادی کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: عورت کی آزادی کا نعرہ خرافات اور جہالت پر مبنی ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ ہم خواتین کو یہ باور کرائیں کہ اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے معاشرے کے تعمیر و ترقی میں عورت کا کیا کردار ہے؟ لیکن عورت کو اس کے اخلاقی دائرے سے باہر لاکر آزادی کی بات کرنا کہ وہ اپنے آپ کو دوسرے کے لیے بیچے یا اپنی اولاد کو ممتا کی محبت سے محروم کرکے انہیں خادموں کے حوالے کرے اور خود دوسروں کی خدمت کرے، یہ ہمیں ہرگز منظور نہیں ہے۔ اور یہ ضروری ہے کہ مرد اور عورت اپنی عصمت کی حفاظت کرتے رہیں۔ اس طرح فطری امنگوں کی تکمیل ہوتی ہے اور خاندان کے افراد میں محبت اور الفت پروان چڑھتی ہے اور پورے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔
سوال: آپ نے بین الاقوامی خواتین کانفرنسوں میں شرکت کی ہے۔ آپ کی ان کے متعلق کیا رائے ہے؟
جواب: مجھے پہلے پاکستان، سوڈان اور الجزائر میں خواتین کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی، اس کے علاوہ میں نے تین بین الاقوامی کانفرنسوں بالترتیب عمان، لاہور اور استنبول میں شرکت کی۔ الجزائر میں منعقد ہونے والی خواتین کانفرنس مجھے پسند آئی، جس میں معروف داعیہ زینب الغزالی اور اردن سے سمیرہ نے شرکت کی۔ یہ میری تمنا ہے کہ کارکنان کی فعالیت اور ان کی سرگرمیوں کو مربوط اور فعال بنانے کے لیے خواتین کانفرنسوں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے، کیونکہ ان کی سرگرمیوں کی موجودہ صورتِ حال بہت ناتواں ہے اور میرے خیال میں یہ داعی حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی خواتین اور بیٹیوں کو اس میدان میں جلد کام کرنے کی ترغیب دیں، تاکہ وہ اسلامی دعوت و تبلیغ کا کام اس طرح سر انجام دیں جس طرح وہ اپنی دیگر ضروریات اور مسائل کے لیے کرتی ہیں۔
سوال: اسلامی ممالک کے متعلق آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
جواب: مجھے عمرہ ادا کرنے سے بہت سکون حاصل ہوا۔ میں مکہ اور مدینہ بار بار جانا چاہتی ہوں۔ جدہ شہر کی ترقی اور جدت بہت پسند آئی جب کہ اردن میں معاشرتی زندگی اور بالخصوص خواتین کی صورتِ حال دیگر اسلامی ممالک کی نسبت قابل اطمینان ہے، جہاں عورت معاشرے میں اپنا حقیقی کردار ادا کررہی ہے۔ عمان ایک خوبصورت ملک ہے، خصوصاً موسم بہار اور گرمیوں کے شروع میں۔ ہر ملک کی اپنی خصوصیات ہیں، جب کہ مصر کے لوگ مشکل زندگی اور غربت کے باوجود بڑے صابر اور قانع ہیں۔ مراکش کی صورتِ حال بھی دگر ملکوں سے ملتی جلتی ہے۔ اس کے قدرتی مناظر قابل ذکر ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ممالک میں دین بس روایات اور رسم و رواج کانام ہے۔ ماسوائے اس کے کہ جوانوں میں اسلامی احیا اور معمول کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں نظر آرہی ہیں۔ میں نے یہ دورہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہی کیا تھا اور اللہ تعالی کا شکر ہے کہ میں نے یہ کام پہلے نہیں کیا تھا، کیوں کہ اگر میں عربی اور اسلامی ممالک کا دورہ اس سے قبل کرلیتی توشاید پھر میں دین پر اتین سختی سے کار بند رہنے والی نہ بن سکتی، کیوں کہ کتابوں میں اپنے مطالعے کے دوران ان کے جو افکار، عقیدے اور ثقافت و تمدن کی میں نے حسین صورت دیکھی تھی، وہ ان ممالک کے لوگوں کی زندگیوں نسے مفقود نظر آئی، بلکہ بعض ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے جو بالکل اسلامی روح کے خلاف تھے، تو پھر یہ بات حق کے متلاشی پر کس طرح اثر انداز ہوتی۔
(ترجمہ: عبدالوحید)