عورت کا استحصال

جویریہ صدف

صبح صبح فون کی گھنٹی بجی ۔ ہمارے آفس کی ایک کولیگ انتہائی جھلائے ہوئے لہجے میں کہہ رہی تھیں کہ آج کے لیے میری چھٹی کی درخواست دے دینا۔ بعد میں میں اپنا استعفیٰ بھیج دوں گی۔ بعد کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ نوکری مستقل ہونے کے بعد جب بینک میں اکاؤنٹ کھولا گیا تو شوہر کا مطالبہ تھا کہ اے ٹی ایم کارڈ میرے حوالے کر دیں۔ یعنی شوہر نامدار ان کی پوری تنخواہ ہتھیا لینا چاہتے ہیں جو کہ پہلے سے ہی بیوی کے نان نفقہ کے ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تھے۔ بات یہاں تک بگڑی کہ انہیں رات گئے گھر سے نکلنے کا حکم نامہ سنا دیا گیا اور اب وہ چونکہ والدہ کے گھر پر ہیں تو وہاں سے کام پر آنا ممکن نہ ہو گا۔ تین عدد بچوں کی پیدائش اور ان کی پرورش کی ذمہ داری کے ساتھ وہ نوکری کرتی ہیں۔ اس مشقت کے بعد بھی ایک عورت یہ حق نہ رکھتی ہو کہ اپنے کمائے ہوئے چار پیسے بچوں کی فیسوں یا دیگر ضروریات کے لیے استعمال کر سکے تو پھر اس ساری مشقت کا نتیجہ کیا ہے؟
عالمی بینک کی جانب سے شائع ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افرادی قوت میں خواتین کی شرکت تیس فیصد سے کم ہے لیکن اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان اور سری لنکا جیسے ممالک میں افرادی قوت میں خواتین کا حصہ کم ہوتا نظرآ رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان اور اسپین میں اس تعداد میں سالانہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جب کہ ہندوستان جیسی معیشتوں میں ایک بہت بڑا حصہ کسی دستاویزی شکل میں موجود ہی نہیں۔ اس میں یقیناً وہ خواتین شامل نہیں ہیں جو کہ گھروں میں بیٹھ کر کام کرتی ہیں یا دوسروں کے گھروں میں جا کر کام کرتی ہیں یا خاندانی پیشہ یا کھیتی باڑی میں لگی ہیں، یہاں تک کہ ان خواتین کے اعداد و شمار بھی نہیں ہیں جو گاؤں سے جاکر شہروں میں بڑی بڑی بلڈنگ اور ٹاور بنانےمیں رات دن لگی رہتی ہیں۔ لہٰذا درست اعداد و شمار کا تعین کیا ہی نہیں جا سکتا۔
معاشی جدوجہد کی دوڑ میں شامل خواتین کی تعداد میں اضافے کے باوجود رویوں کی تبدیلی میں ابھی بہت وقت درکار ہے۔ اور اس سلسلے میں مشرق و مغرب کا حال یکساں ہے۔ ترقی یافتہ کہے جانے والے ممالک ہوں ہوں یا ترقی پذیر یا پھر پسماندہ ممالک،اسی طرح کام کرنے والی تعلیم یافتہ عورت ہو یا غیر تعلیم یافتہ، ہر ایک ہر جگہ کسی نہ کسی قسم کے استحصال کا شکار ہے۔ اس استحصال کی شکلیں الگ الگ ہیں، جن میں جنسی استحصال بھی شامل ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا کو یا حکومتوں کو اس کی خبر نہیں ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومتوں کی جانب سے اس استحصال کو روکنے کی کوشش نہیں ہو رہی۔ حکومتوں کی جانب سے قانون سازی بھی کی گئی ہے اور اس ضمن کے ضروری قوانین دنیا بھر میں موجود ہیں اور حکومتیں ان کے نفاذ کے سلسلے میں بھی اکثر سنجیدہ نظر آتی ہیں مگر اس سب کچھ کے باوجود عورت کا مختلف طریقوں سے استحصال ہوتا ہے جس کی خبریں آئے دن اخبارات میں میں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک ہندوستان کی ہی مثال لیں تو یہاں زنا کے خلاف سخت قانون ہے مگر اس کے باوجود خواتین کے خلاف جنسی جرائم کا سیلاب سا آیا ہوا ہے اور اس میں بڑے بڑے سیاست داں تک ملوث پائے گئے ہیں، جہیز مخالف قانون موجود ہے مگر پھر بھی ہر سال ہزاروں خواتین جہیزکے لئے قتل کر دی جاتی ہیں، کام کی جگہوں پر خواتین کی جنسی حراسانی اور دیگر نوعیت کے تحفظ کے لئے قانون ہے مگر پھر بھی کام کی جگہوں پر خواتین کے استحصال کی خبریں اخبارات میں بھری رہتی ہیں اور خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کو روکنے کا قانون موجود ہے مگر اس کے باوجود گھریلو تشدد ہمارے یہاں رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
عورت کا استحصال، مار پٹائی، جسمانی وذہنی تشدد اور قتل صرف عورت کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔ جب ایک عورت تشدد کا نشانہ بنتی ہے تو گھر میں موجود تمام افراد بلا امتیاز متاثر ہوتے ہیں اور ایسے استحصالی ماحول میں بیٹی اس احساس کمتری کے ساتھ پرورش پاتی ہے کہ مرد کے مظالم اور زیاد تیاں سہنا ایک وفادار عورت کی معاشرتی ذمہ داری ہے جبکہ بیٹاایک احساس برتری لے کر بڑا ہوتا ہے کہ عورت پر اسےمکمل اختیار اور حق حاصل ہے ۔ پھر عورت کے استحصال کا نہ ختم ہونے والا بھیانک سلسلہ جاری رہتا ہے اور یوں پورا معاشرہ لپیٹ میں آ جاتا ہے۔
گھر ہو یا کام کی جگہ، عورت کا استحصال ایک عالمگیر مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے مردوں کی بنیادی فکرکو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عورت کے کسی بھی طرح کے استحصال کو محض عورت کا مسئلہ سمجھنا بہ ذات خود ایک مسئلہ ہے۔ چنانچہ، مردوں کی سوچ میں تبدیلی کے بغیر عورت پر تشدد کے متعلق مسائل کا حل بہت مشکل نظر آتا ہے۔
مطلوبہ فکری تبدیلی کے حصول کے لیئے ہمیں معاشرے کی سوچ اور اس کےدوہرے معیار کا بھی جائزہ لینا ہو گا۔سوچ کے اس پہلو پر غور کیجئےکہ عورت کے ’’کالے کرتوت‘‘ پر اقارب کی ناک کٹ جاتی ہے ، مگر اسی گھر کے مرد کی شرمناک حرکت پر ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے جذبات اور عزت کے مجروح ہونے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
سوچ کا ایک اور انداز دیکھئے! اگر عورت کہیں مرد کی ہوس کا شکار ہوتی ہے، جبر و تشدد کا نشانہ بنتی ہے، کسی کام کی جگہ پر ہراساں ہوتی ہے تو ہمارے خیالات عورت کےبارے میں یہ ہوتے ہیں کہ وہ ادھر کر کیا رہی تھی؟ کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بازار کیوں جاتی ہے؟ لباس کیسا ہے؟ بولتی ایسے ہے وغیرہ۔ دراصل ایسے میں ہمیں ا پنی اور اپنی نسل کی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
احباب کہتے ہیں کہ ہمارا مشرقی معاشرہ تو عورت کی بہت عزت کرتاہے، عورت ماں ہے، بیٹی ہے، بیوی ہے ۔۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم مذکورہ ’’ رشتوں کا احترام‘‘ توکرتے ہیں، ’’عورت کا احترام‘‘ نہیں کرتے۔اور … اب تو ان رشتوں کا احترام بھی ختم ہورہا ہے۔ کیوں اور کیسے؟ یہ جاننے کے لیے اخبارات کی سرخیاں کافی ہیں۔
عورت کا استحصال خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، اس کے پیچھے مردوں کی للچائی نگاہیں اور سوچ ہوتی ہے اور یہ احساس کہ مرد بہ ہرحال عورت سے اونچا ہے، اتنا اونچا کہ وہ اس پر حاکم ہے۔ شوہر ہو یا کمپنی کا باس ہر ایک اسی ذہنی بیماری کا شکار ہے۔ اس بیماری کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ مردوں کے اندر عورت کے اس احترام کی سوچ نہیں جو بہ حیثیت انسان اسے محترم بناتی ہے۔ وہ مرد کو تو قابلِ احترام سمجھتا ہے مگر عورت کو وہ عزت و تکریم دینے کے لیے تیار نہیں جو بہ حیثیت انسان اسے ملنی چاہیے۔
اسلام انسانوں کو یہی سوچ دیتا ہے۔ اس کا اعلان ہے ’’ولقد کرمنا بنی آدم‘‘ عورت کے استحصال کی سوچ سے نجات کی صرف یہی شکل ہے کہ مردوں کے ذہن میں بہ حیثیت انسان اس کے لیے جذبۂ اکرام و احترام پیدا ہو اور پیدا کیا جائے۔l

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں